دل سے دل تک

شہلا اعجاز  پير 20 نومبر 2017
 shehla_ajaz@yahoo.com

[email protected]

یہ ان کا روزکا معمول ہے، دونوں خواتین اپنے بچوں کو اسکول چھوڑنے کے بعد اسکول کے نزدیکی باغ میں چہل قدمی کے لیے نکل جاتی ہیں، ان کے علاوہ اور بھی خواتین و حضرات صبح ہی صبح یہ عمل کرتے اس طرح دونوں خوش گپیاں کرتے انجوائے کرتیں۔ اُس صبح بھی ایسا ہی ہوا، ان سے آگے ایک خاتون بھی چل رہی تھی جس کے ہاتھ میں پلاسٹک کا ایک لفافہ تھا جس میں رکھے چند انڈے دور سے ہی واضح نظر آرہے تھے اس خاتون نے کچھ آگے چل کر کیاریوں کی جانب اس لفافے کو احتیاط سے رکھ دیا اور خود آگے چہل قدمی میں مصروف ہوگئے۔

اس جانب عام طور پر کتے بلیاں بھی آجاتی تھیں لیکن اس روز ایسا نہ ہوا اتفاق سے باغ کے چوکیدار کی اس لفافے پر نظر پڑگئی۔ اس نے قریب سے گزرتی ان دو خواتین کو اشارے سے بلایا اور کہاکہ یہ غلط بات ہے آپ لوگ ہر روز ادھر آتے ہو لیکن اس طرح کی حرکتیں کرنا کتنی خراب بات ہے اس چوکیدار کی نظر میں یہ حرکت ان دونوں نے کی تھی ۔ ان میں سے ایک خاتون نے قسمیں کھائیں اور کہاکہ یہ حرکت ان کی نہیں ہے وہ کیوں ایسی حرکت کریں گی۔ چوکیدار نے کہاکہ پھر یہاں اورکون ہے لیکن براہ کرم آیندہ ایسا نہ کیا جائے۔ خاتون نے بتایا کہ ان کی نظروں کے سامنے کھلی آستینوں والی ایک خاتون نے اسے یہاں رکھا تھا لیکن چوکیدار نے توجہ نہ دی اور یہی سمجھا کہ خواتین کی تو عادت ہوتی ہے اپنا الزام دوسروں پر ڈالنے کی۔ لہٰذا وہ اپنے کاموں میں مصروف ہوگیا۔

دونوں خواتین دوبارہ واک میں مصروف ہوگئی لیکن ان کے دل کچھ بوجھل سے تھے۔ اتفاق سے انھیں جلد ہی کھلی آستینوں والی وہ ہی خاتون واک کرتی نظر آگئی۔ ’’اوہو یہ تو وہی ہے‘‘ اسی خاتون کے منہ سے نکلا ’’جانے بھی دو ہمیں کیا۔‘‘ دوسری خاتون نے ٹوکا دیا۔ ’’نہیں غلط بات ہے اس طرح تو چوکیدار ہمیں ہی چور سمجھتا رہے گا‘‘ ۔ ’’ارے جانے بھی دو ناں۔‘‘ ’’نہیں بری بات ہے‘‘ یہ کہہ کر وہ خاتون چوکیدار کے پاس پہنچیں اور کہاکہ اس خاتون نے ان کی آنکھوں کے سامنے انڈے والا لفافہ رکھا تھا چوکیدار نے خاتون کو اشارے سے بلایا اور پوچھا تو انھوں نے اقرار کیا کہ ہاں وہ لفافہ انھوں نے ہی رکھا تھا کیونکہ اس جانب جانور آتے ہیں اور وہ صدقے کے انڈے تھے۔ بہر حال چوکیدار نے انھیں آیندہ ایسا نہ کرنے کی تنبیہ کی۔ پہلی والی دونوں خواتین دوبارہ ایک چکر لگاکر اپنے گھر کی جانب نکلی۔ سنو تمہیں کچھ ہلکا ہلکا سا دل محسوس ہو رہا ہے نا۔ پہلی خاتون نے دوسری سے پوچھا جنھوں نے چوکیدار کو انڈوں کے لفافے والی خاتون کی بابت بتلایا تھا ہاں۔ ایسا تو لگ رہا ہے کہ جیسے بوجھ سا اتر گیا۔ بس پھر ٹھیک ہے ناں میں یہی چاہتی تھی۔ خاتون نے اطمینان سے جواب دیا ان کا دل واقعی بہت ہلکا اور مطمئن تھا۔

انسان کا دل رب العزت نے ایک ایسے پیمانے کی مانند بنایا ہے جو برائی اچھائی، گناہ ثواب، سچ جھوٹ، غیبت و ریاکاری تمام احساسات کے بارے میں ایک ایسا سگنل بجادیتا ہے جس سے انسان میں یا تو بے قراری سی اتر جاتی ہے یا سکون در آتا ہے۔ غالباً اسے ہی انسان ہونے کی دلیل بھی کہاجاتا ہے اور جو انسان ان جذبوں سے عاری ہو اسے انسانیت کے درجے سے گرا گویا پاگل، شیطان، بے ایمان، فریبی، دغا باز وغیرہ سمجھا جاتا ہے۔

یہ واقعہ ہماری ایک جاننے والی خاتون نے سنایا تھا کہ کس طرح ایک عام سی حیثیت کے چوکیدار کے الزام سے ان کے اندر کس قدر بے چینی سی پھیل گئی تھی اور الزام کے دھلتے ہی وہ کس قدر ہلکا پھلکا محسوس کر رہی تھیں۔ کچھ اسی طرح کے دل پر بوجھ آنے یا جانے کا فرق لوگ کس طرح محسوس کرتے ہیں لیکن اس طرح بھی بعد میں لوگ سن کر کہتے ہیں کہ کس طرح لوگوں کے دل نے یہ برداشت کرلیا۔ کیسے گوارا کرلیا لیکن ذرا سوچیے کہ کیا کوئی بھی حادثہ یا واقعہ رونما ہوتا ہے وہ اپنے ارد گرد کے لوگوں کے لیے آزمائش لے کر نہیں آتا۔ سب کے دل کلک کرتے ہیں اس گھنٹے کے بجنے پر کون کیا کرسکتا ہے اور کیا کرنا چاہیے یا دوسروں کو بھی کچھ کرنے سے روک دینا چاہیے بس ایک کلک اور آزمائش شروع۔

ہماری ٹرین کا وقت قریب تھا کہ ٹیکسی ڈرائیور کی گاڑی خراب ہوگئی اور وہ کسی کوچنگ سینٹر کے سامنے رک گیا اور پانی بھر بھر کر لاتا اور گاڑی میں ڈالتا ہم گھبرا کر گاڑی سے نکلے اور رکشے روکنے لگے، سڑک پر اس وقت ٹریفک زیادہ نہ تھا، دو نوجوان بائیک پر بڑی تیزی سے آرہے تھے نجانے کیسے پھسلے کہ بائیک ٹیکسی سے ٹکرائی اور ایک نوجوان قریب ہی گرا جب کہ دوسرا سینے کے بل دور تک گھسٹتا گیا جب وہ اٹھا تو لنگڑاتا ہوا اپنا ہاتھ اور پیرمسلتا آیا کوچنگ سینٹرکے نزدیک کافی نوجوان بچے تھے لیکن کوئی اسے سہارا نہ دے رہا تھا میرا دل تڑپا اس کے پاس پہنچی پوچھا ’’بچے! تم ٹھیک تو ہو نا؟‘‘ وہ کراہتا رہا تو میں نے چیخ چیخ کر کہا ’’ارے اسے دیکھو اسے ڈاکٹر کے پاس لے جاؤ۔‘‘ تب ایک نوجوان نے اسے سہارا دیا، وہ اپنا دل مسل رہا تھا خوفزدہ تھا۔ ہائے میرا دل۔۔۔۔ارے اسے ڈاکٹر کے پاس لے جاؤ قریب ہی تو ہے۔ میں چیخ رہی تھی مدد کے لیے چلا رہی تھی اچھا خاصا رش تھا پر سب کے چہرے جذبات سے عاری نظر آرہے تھے میرے اتنے چیخنے پر کسی نے کہا اچھا چلو تمہیں ڈاکٹر کے پاس لے چلتے ہیں حالانکہ روڈ کراس کرتے ہی نجی اسپتال بھی تھا اتنے میں ہمارے لیے ایک رکشہ رکا اور ہم چلے گئے لیکن دل اس لڑکے کے لیے دعائیں کرتا رہا۔

ایسا ہی ایک اور واقعہ ابھی حال ہی میں پیش آیا وہ بچہ لیاری کا رہنے والا ہنگورہ قبیلے سے تعلق رکھتا ہے تیسری چوتھی جماعت کا ذہین بچہ نزدیک ہی ایک اچھے اسکول میں زیر تعلیم کسی پروجیکٹ کے سلسلے میں اپنے ہم جماعتوں کے ہمراہ چنگ چی رکشے میں جا رہا تھا ڈرائیور نے اسے رش کے باعث اپنے ساتھ بٹھالیا تھا ٹوٹی پھوٹی سڑک پر کیسے رکشہ پلٹا اور بچے کی جانب ہی سارا بوجھ آگیا روڈ پر ہی ایسی بچے کے چوٹ لگی کہ اندر سے بھیجا تک نظر آنے لگا سب کھڑے تماشا دیکھتے رہے ایک بھلا مانس یہ منظر نہ دیکھ سکا کہا بھائیو! بچے کا بہت خون بہہ رہا ہے اسے میری اسکوٹر پر ڈالو تاکہ اسپتال لے جاسکوں، تو جواب ملا کیسے لے جاؤگے اسکوٹر سے گر جائے گا ہاتھ بھی نہ لگاؤ۔ پھنس جاؤگے وہ شخص پھر بولا اچھا میں رکشے میں ہی لے جاتا ہوں اتنے میں ایمبولینس آگئی اور بچے کو اس میں ڈال کر لے جایا گیا۔ بچے کا آپریشن ہونے والا ہے وہ ابھی ہوش میں ہے سب کو پہچان رہا ہے، دعا ہے کہ وہ جلد ہی صحت یاب ہوکر دوبارہ اپنے اسکول جانے لگے۔

ذرا سوچیے ایک بڑا ہجوم تماشا دیکھ رہا ہے سب کے دلوں کے میٹر آن ہیں ان کی ریڈنگ بھی ہو رہی ہے اس شخص کے دل کا میٹر بھی آن تھا جس میں سے انسانیت کا درجہ بلند ہوا اس نے صرف اچھا سوچا اور مدد کے لیے ایمبولینس بھی آگئی۔ اس کا کیا گیا اس کے عمل کی رپورٹ کارڈ پر خوبصورت سی عبارت تحریر ہوگئی۔ کچھ سمجھ میں آیا کہ کیوں کہا گیا ہے ’’اعمال کا دار و مدار نیتوں پر ہے‘‘ (حدیث نبوی)۔ ذرا سوچیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔