پانی کا مسئلہ سپریم کورٹ کا انتباہ

چیف جسٹس کا کہنا ہے کہ حکومت اپنی ذمے داری ادا نہ کرے تو عدلیہ کو مداخلت کرنا پڑتی ہے


Editorial December 06, 2017
چیف جسٹس کا کہنا ہے کہ حکومت اپنی ذمے داری ادا نہ کرے تو عدلیہ کو مداخلت کرنا پڑتی ہے، فوٹو: فائل

RIYADH: چیف جسٹس سپریم کورٹ جناب جسٹس ثاقب نثار نے ریمارکس دیے ہیں کہ فیصلے بغض پر نہیں میرٹ پر دیتے ہیں، پھر آپ کہتے رہیں، میرے خلاف فیصلہ کیوں دیا؟

ملک کی حالیہ سیاسی صورتحال اور سیاسی شخصیات کے خلاف عدالتی فیصلوں کے بعد جو تنقید اور ابہام کی کیفیت پائی جاتی ہے اس کے تناظر میں جناب جسٹس کا یہ کہنا بالکل صائب ہے کہ جمہوری نظام میں عدلیہ کو نگراں کی حیثیت حاصل ہے، ریاست کا کوئی ستون کام نہ کرے تو ہم اس سے پوچھیں گے۔

اس امر سے انکار ممکن نہیں کہ جب ادارے اپنی ذمے داریوں سے غافل ہوں تو نگراں اداروں کو سامنے آنا پڑتا ہے، عدلیہ کو نگراں کی حیثیت آئین نے فراہم کی ہے اور اب تک ہماری معزز عدالتیں اداروں کی سرکوبی کے لیے بروقت سامنے آتی رہی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ لاقانونیت کے خلاف نہ صرف از خود نوٹسز لیے جارہے ہیں بلکہ معزز عدالتیں دوران سماعت ''ان ٹچ ایبلز'' شخصیات کو بھی سرزنش کررہی ہیں۔ راست یہی ہوگا کہ آئین و قانون کی بالادستی کا قیام اور ریاستی اداروں کو اپنے دائرہ کار کے اندر فعال بنایا جائے۔ عوامی مسائل سے چشم پوشی اور اداروں کی اپنی ذمے داریوں سے پہلو تہی کو برداشت نہیں کیا جاسکتا۔

حقیقت تو یہی ہے کہ جب سیاستدان اور ریاستی ادارے آئین و قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے اپنے فرائض سر انجام دیں گے اور رشوت، کرپشن، اقربا پروری کے کلچر کا خاتمہ ہوگا تو نہ صرف جمہوری اداروں کی عوام میں ساکھ قائم ہوگی بلکہ معزز عدلیہ کو بھی عوامی معاملات میں ازخود نوٹس نہیں لینا پڑے گا۔ بعد از فیصلہ عدلیہ کی کریڈیبلٹی اور فیصلوں پر تنقید جمہوری رویے کے منافی ہے۔ سیاستدانوں کو تنقید سے زیادہ اپنی غلطیاں سدھارنے پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے۔

پیر کو سپریم کورٹ آف پاکستان کراچی رجسٹری میں چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں تین رکنی بنچ کے روبرو سندھ بھر میں پینے کے صاف پانی اور نکاسی آب سے متعلق درخواستوں کی سماعت کے دوران فاضل عدالت نے برہمی کا اظہار اور اداروں کی کارکردگی پر سوال اٹھائے۔ بلاشبہ آلودہ پانی کی فراہمی اور نکاسی آب کے مسئلے نے پاکستان کے سب سے بڑے شہر اور معاشی ہب کے انفرااسٹرکچر کو زبوں حال کردیا ہے۔

شہر میں اربوں کھربوں مالیت کی لاگت سے صاف پانی کی فراہمی کے عظیم منصوبے بنائے گئے لیکن صورتحال یہ ہے کہ شہر کے اکثر علاقوں میں پانی کی فراہمی تعطل کا شکار ہے، کچھ علاقے تو ایسے بھی ہیں جہاں پانی یکسر فراہم نہیں کیا جاتا اور شہری ٹینکر سے پانی خریدنے پر مجبور ہیں۔ چیف جسٹس کے یہ ریمارکس چشم کشا ہیں کہ واٹر ٹینکرز کے پیچھے کون ہے؟ کوئی تو ہے جو پیسہ بنارہا ہے، ہمیں ہر شہری کا تحفظ کرنا ہے، یہ کیسی گورننس اور ریاست ہے؟

عدالت کی برہمی کے باوجود متعلقہ ادارے ''شرم تم کو مگر نہیں آتی'' کی عملی تصویر بنے ہوئے ہیں۔ یہاں بندر کی بلا طویلے کے سر ڈالنے کا طرز عمل اختیار کیا جاتا ہے، کوئی بھی ادارہ اپنی غلطیوں کا کھلے دل سے اعتراف کرنے کی ہمت نہیں کرتا، ایک دوسرے پر الزام تراشی کا چلن عام ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس میں بالکل درست کہا ہے کہ کراچی میں پانی کا مسئلہ بم بننے جارہا ہے، مسئلہ حل نہ ہوا تو کراچی والوں کو بھگتنا پڑے گا، کراچی کے لوگ پانی کے لیے ترس رہے ہیں۔

کراچی کے شہریوں کو غیر معیاری پانی کی فراہمی سے متعلق سماعت کے دوران درخواست گزار نے رپورٹ پیش کی کہ کراچی میں 91 فیصد شہریوں کو صاف پانی میسر نہیں، کراچی کے چاروں فلٹر پلانٹس غیرفعال جب کہ پورے سندھ میں بھی کئی فلٹر پلانٹس بند ہیں، کراچی سمیت پورے سندھ میں 77 فیصد پانی آلودہ ہے، حیدرآباد میں 85 فیصد پانی آلودہ ہے، لاڑکانہ میں لوگ 88 فیصد آلودہ پانی پی رہے ہیں، شکارپور میں 78 فیصد آلودہ پانی استعمال کیا جارہا ہے۔ سندھ کے کئی اضلاع میں لوگ بغیر فلٹر پانی پینے پر مجبور ہیں۔ 80 لاکھ افراد آلودہ پانی پینے سے بیماریوں میں مبتلا ہورہے ہیں۔

علاوہ ازیں پانی کی آلودگی سے متعلق پاکستان میری ٹائم سیکیورٹی ایجنسی نے بھی اپنی رپورٹ میں خطرے کی گھنٹی بجادی ہے، آلودگی نے 40 فیصد تک سمندری حیات کا خاتمہ کردیا ہے اور فوری اقدامات نہ کیے گئے تو سمندر بانجھ ہوجائے گا۔ روزانہ ہزاروں ٹن کچرا اور کروڑوں گیلن آلودہ پانی سمندر میں ڈالا جارہا ہے، شہر میں سیوریج کی ٹریٹمنٹ زیرو ہے۔ آخر ایک بڑے انسانی مسئلے سے یوں پہلوتہی کیوں برتی جارہی ہے، ادارے اپنا چلن کب بدلیں گے؟

چیف جسٹس کا کہنا صائب ہے کہ شہریوں کو صاف پانی اور ماحول فراہم کرنا ریاست کی ذمے داری ہے، حکومت اپنی ذمے داری ادا نہ کرے تو عدلیہ کو مداخلت کرنا پڑتی ہے، ہم کسی سرکاری افسر سے نہیں بلکہ سندھ اور پنجاب کے وزرائے اعلیٰ سے پوچھیں گے، پنجاب میں بھی برا حال ہے، نہروں میں زہریلا پانی شامل ہورہا ہے۔

یہ امر قابل افسوس ہے کہ پاکستان میں کسی بھی حکومت نے عوامی مسائل کے حل کے لیے مستقل اور طویل بنیادوں پر منصوبہ سازی نہیں کی، صرف وقتی فیصلوں کے ذریعے مسائل کو ٹرخانے کی ناکام کوشش کی گئی۔ صائب ہوگا عوامی مسائل کے حل کے لیے راست منصوبہ بندی کی جائے۔

مقبول خبریں