اللہ تعالیٰ کا احسانِ عظیم؛ رحمتہ للعالمین

مولانا مجیب الرحمن انقلابی  جمعـء 15 دسمبر 2017
اللہ تعالیٰ ہمیں اسوۂ حسنہ پر عمل پیرا ہونے اور حضور ﷺ کی سیرت اپنانے کی توفیق عطا فرمائے۔ فوٹو: فائل

اللہ تعالیٰ ہمیں اسوۂ حسنہ پر عمل پیرا ہونے اور حضور ﷺ کی سیرت اپنانے کی توفیق عطا فرمائے۔ فوٹو: فائل

اللہ تعالیٰ نے حضور اقدس ﷺ کو تمام جہاں کے لیے رحمت بنا کر بھیجا۔ رحمتہ للعالمینؐ کی آمد سے قبل پوری دنیا شرک و بدعت، ضلالت و گم راہی کے عمیق گڑھے میں گری ہوئی تھی، وہ بیت اللہ کا برہنہ طواف کیا کرتے، بتوں کی پرستش کی جاتی حتی کہ خانہ کعبہ میں اس مقصد کے لیے تین سو ساٹھ بت رکھے ہوئے تھے۔

فسق و فجور اور بدکاریوں پر ندامت و شرمندگی کے بہ جائے اس پر فخر کیا جاتا تھا۔ ہر قبیلہ دوسرے قبیلے کو کم تر اور ذلیل سمجھتا، سودی لین دین عام تھا، لڑائی جھگڑے صدیوں چلتے، گویا کہ دنیا تباہی کے دہانے پر پہنچ چکی تھی۔ ان حالات میں جب ہر طرف انسانیت سسکتی اور دم توڑتی دکھائی دے رہی تھی، حضور اقدس ﷺ دنیا میں رحمتہ للعالمین بن کر تشریف لاتے ہیں اور عبداللہ کے گھر سے طلوع ہونے والے اس آفتاب و ماہ تاب کی روشنی سے پوری دنیا فیض یاب ہونے لگی۔ آپؐ کی تشریف آوری ایسی نعمت عظمیٰ ہے کہ جس کو خدا تعالیٰ نے قرآن مجید میں مسلمانوں پر احسانِ عظیم سے تعبیر فرمایا ہے۔

آپ ﷺ سراپا رشد و ہدایت اور قیامت تک آنے والے لوگوں کے لیے کامل نمونہ ہیں اور آپؐ کے اسوۂ حسنہ میں دنیا و آخرت کی فلاح و کام یابی کو مضمر کر دیا گیا ہے۔ آپؐ ابر رحمت بن کر انسانیت پر برسے اور ان کو کفر و شرک اور ضلالت و گم راہی کے گھٹا ٹوپ اندھیروں سے نکال کر توحید و رسالت کی روشنی سے منور کیا۔ آپ ﷺ نے انسانیت سے گری ہوئی ایک ایسی قوم میں مثالی پاکیزہ اور باکردار روشن زندگی گزاری کہ جن کی بداعمالیوں کی وجہ سے کوئی ان پر حکومت کرتا بھی اپنے لیے توہین و عیب سمجھتا تھا۔

دعوت توحید دینے کی پاداش میں آپ ﷺ پر گندگی پھینکی جاتی اور آپؐ کو مجنون دیوانہ اور جادوگر تک کہا گیا، آپؐ پر ایمان لانے کی وجہ سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو ظلم و تشدد کا نشانہ بنا دیا جاتا ہے۔

شعب ابی طالب میں آپ ﷺ اور آپ کے جاںنثار صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو تین سال تک قید و محصور کر دیا جاتا ہے، آپ ﷺ کے ساتھ اس قید میں ام المومنین حضرت سیدہ خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سمیت عورتیں بچے اور بوڑھے تک تھے۔ آپ ﷺ کا مکمل مقاطعہ کر دیا جاتا ہے کھانے پینے کی کوئی چیز بھی آپؐ تک اور آپؐ کے ساتھیوں تک نہیں پہنچنے دی جاتی تھی تاکہ یہ بھوک و پیاس سے تنگ آ کر حضور ﷺ کا ساتھ چھوڑ دیں۔

دودھ پیتے بچے بھوک سے روتے بلکتے تو کفار خوش ہوتے۔ ان مشکل ترین حالات میں بھی آپ ﷺ کے جاںنثار صحابہ کرام رضی اللہ عنہم جاںنثاری و فدا کاری کی اعلیٰ اور بے نظیر مثال قائم کرتے ہوئے درختوں کے پتے چپا کر اور خشک چمڑے کو پانی میں بھگو کر نگل لیتے، لیکن انہوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھ اور ایمان کو نہیں چھوڑا۔ آپ ﷺ کو احد کے میدان میں زخمی کیا گیا اور آپؐ کے دندان مبارک شہید کیے گئے۔

آپ ﷺ پر ایمان لانے کی پاداش میں حضرت بلالؓ، حضرت خبابؓ اور یاسرؓ و عمارؓ سمیت دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو ظلم و تشدد کا نشانہ بنایا گیا، کفار ان کو گرم ریت اور دہکتے ہوئے انگاروں پر لٹا دیتے۔ لیکن اس سب کے باوجود رحمتہ للعالمین ﷺ نے کبھی ان ظالموں کے لیے بددعا نہیں کی بل کہ ہدایت کے لیے ہی دعا کی۔ ان حالات میں بھی محسن انسانیت ﷺ اپنے مشن کو زندہ اور جاری رکھتے ہیں، مکہ کے لوگوں نے جب ظلم و تشدد کی انتہا کر دی تو آپ ﷺ خدا تعالیٰ کے حکم سے مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت کر جاتے ہیں، مدینہ میں انصار نے حضور ﷺ اور ہجرت کر کے آنے والے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ساتھ اخوت و محبت کا وہ بے مثال مظاہرہ کیا کہ تاریخ انسانی اس کی نظیر و مثال پیش کرنے سے عاجز ہے۔

اور پھر چشم فلک نے وہ منظر بھی دیکھا کہ جب رحمتہ للعالمین ﷺ اپنے دس ہزار جاںنثار صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے لشکر کے ہم راہ اسی مکہ میں فاتح کی حیثیت سے داخل ہوتے ہیں جہاں سے آپ ﷺ اور صحابہ کرام ؓ کو دس سال قبل ظلم و تشدد کر کے نکالا جاتا ہے۔ رحمتہ للعالمین اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کرتے ہوئے عاجزی و انکساری کے ساتھ سواری پر اس قدر جھکے ہوئے ہیں کہ آپ ﷺ کا چہرہ انور سواری کی پشت کے ساتھ ملا ہوا نظر آتا ہے۔ مکہ سے نکالنے والے خوف زدہ ہیں کہ حضور ﷺ ان کے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں اور انتقام کا کون سا راستہ اختیار کرتے ہیں۔

ان میں وہ بھی تھے جنھوں نے رحمتہ للعالمین ﷺ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو شعب ابی طالب کی قید میں درختوں کی کھال اور پتے چپانے پر مجبور کردیا تھا۔ آج یہ سب بارگاہ رسالت ﷺ میں مجرم کی حیثیت سے کھڑے ہیں، رحمتہ للعالمین نے ان سب پر نگاہ ڈالتے ہوئے پوچھا کہ جانتے ہو آج میں تمہارے ساتھ کیا معاملہ کرنے والا ہوں؟ بے بسی اور ندامت کے عالم میں ہر طرف سے ایک ہی رحم طلب صدا گونجی کہ آپ ﷺ عالی ظرف اور شریف بھائی کے بیٹے ہیں۔ رحمتہ للعالمین ﷺ نے سب کے لیے معافی کا اعلان کرتے ہوئے فرمایا کہ ’’آج تم پر کوئی گرفت نہیں ہے جاؤ تم سب آزاد ہو‘‘

اللہ تعالیٰ ہمیں اسوۂ حسنہ پر عمل پیرا ہونے اور حضور ﷺ کی سیرت اپنانے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔