بھنبھری کے پروں پر بیکٹیریا کے زندہ نہ رہنے کا راز دریافت

ویب ڈیسک  منگل 13 فروری 2018
ماہرین نے جدید خردبین سے بھنبھری کے پروں کو دیکھا تو اس پر اربوں ابھار نظر آئے جس میں پھنس کر بیکٹیریا مرجاتے ہیں۔ فوٹو: بشکریہ نیو اٹلس

ماہرین نے جدید خردبین سے بھنبھری کے پروں کو دیکھا تو اس پر اربوں ابھار نظر آئے جس میں پھنس کر بیکٹیریا مرجاتے ہیں۔ فوٹو: بشکریہ نیو اٹلس

کوئنز لینڈ: ماہرین ایک عرصے سے جانتے ہیں کہ بارشوں کے بعد گھروں اور درختوں پر منڈلاتی ہوئی بھنبھری (ڈریگن فلائی) کے پروں میں کوئی بیکٹیریا نہیں آسکتا لیکن ماہرین نے ایک عرصے بعد اس کا اصل راز دریافت کرلیا۔

اس سے قبل اس کیڑے کے پروں کے متعلق جو بھی تحقیق ہوئی وہ ناکام اس لیے ہوئی کہ بھنبھری کے پر بہت نازک ہوتے ہیں اور خردبین کی تیز روشنی سے تباہ ہوجاتے ہیں۔ اس کے لیے کوئنز لینڈ یونیورسٹی آف ٹیکنالوجی (کیویوٹی) کے ماہرین نے ایک خاص ٹیکنالوجی کے ذریعے ان پروں کی تصاویر لی ہیں۔ اس سے ظاہر ہوا ہے کہ بھنبھری کے پروں پر 10 ارب باریک ترین ابھار ہوتے ہیں جو بیکٹیریا کو تہس نہس کردیتے ہیں۔

سائنس دانوں نے اسکیننگ ہیلیئم آئن مائیکرو اسکوپ ( ایچ آئی ایم) کے ذریعے ڈریگن فلائی کے پر کی حیرت انگیز تصاویر لی ہیں جن میں اس کے پروں پر موجود نینو خدوخال بھی نمایاں طور پر دیکھے جاسکتے ہیں۔ ایک پر کے اوپر لگ بھگ 10 ارب کے قریب باریک ابھار ہوتے ہیں۔ ان کے درمیان بیکٹیریا پھنس کر رہ جاتے ہیں اور جب وہاں سے نکلنے کی کوشش کرتے ہیں تو وہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوجاتے ہیں۔

کیو یو ٹی کے محقق ڈاکٹر چٹورنگا بنڈارا نے بتایا کہ بھنبھری کے پر کو دیکھتے ہوئے ہم ایسے مٹیریلز بناسکیں گے جو ہر قسم کے بیکٹیریا سے پاک ہوں تاکہ انہیں طبی کاموں میں استعمال کیا جاسکے۔ ان کے مطابق قدرتی نظام میں نینو اسٹرکچرز اور بیکٹیریا کے درمیان تعلق کو سمجھنے اور سطح کی نئی ڈیزائننگ میں مدد ملے گی۔

ماہرین نے وینڈرنگ پرچر نامی بھنبھری کے پروں کا انتخاب کیا ہے جسے سمجھ کر بہتر آلات اور ٹولز تیار کرنا ممکن ہوگا۔ اسی طرح ایک کیڑے سکیڈا کے پروں پر بھی اربوں نوک دار ابھار ہوتے ہیں جو باریک دیوار والے بیکٹیریا کو چھید کر مار دیتے ہیں۔ سکیڈا سے متاثر ہوکر انسانی آنکھ کے لیے لینس اور شمسی سیل بھی تیار کیے جارہے ہیں۔

کیو یو ٹی کی ایک اور ماہر ڈاکٹر اینالینا وولف کہتی ہیں کہ فطرت کے کارخانے میں حیرت انگیز حقائق موجود ہیں جن میں سے ڈریگن فلائی کے پر بھی جو اینٹی بیکٹیریا خواص رکھتے ہیں۔

ڈاکٹر اینالینا وولف نے بتایا کہ  اس کے لیے ہم نے ایک خاص خردبین استعمال کی ہے جس کی اونچائی دو میٹر اور چوڑائی بھی دومیٹر ہے اس  کے بعد ہم اسی خردبین سے مختلف مٹیریلز سے اتنے ہی چھوٹے روبوٹ بناسکتے ہیں جو پانی کے ایک قطرے میں 64 ارب کی تعداد میں سما سکتے ہیں۔ ان کا استعمال ہمارے تصورات سے بھی ماورا ہوگا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔