’’ہوئی مدت کہ غالب مرگیا، پریاد آتاہے‘‘

ویب ڈیسک  جمعرات 15 فروری 2018
غالب نے اردو شاعری میں فکر اور سوالات کی آمیزش کرکے اسے جلا بخشی۔  فوٹوفائل

غالب نے اردو شاعری میں فکر اور سوالات کی آمیزش کرکے اسے جلا بخشی۔ فوٹوفائل

 کراچی: اردو کے عظیم شاعر مرزا اسداللہ خان غالب کی آج 149 ویں برسی منائی جارہی ہے۔

مرزا اسداللہ خان غالب 27 دسمبر 1797 کو آگرہ میں پیدا ہوئے۔ 5 سال کی عمر میں والد کی وفات کے بعد غالب کی پرورش چچا نے کی تاہم 4سال بعد چچا کا سایہ بھی ان کے سر سے اٹھ گیا۔ مرزا غالب کی 13 سال کی عمرمیں امرا بیگم سے شادی ہو گئی، جس کے بعد انھوں نے اپنے آبائی شہرکو خیر باد کہہ کر دہلی میں مستقل سکونت اختیارکرلی۔

1850 میں مغل سلطنت کے آخری بادشاہ بہادر شاہ ظفر نے مرزا غالب کو خاندان تیموری کی تاریخ لکھنے پر مامور کر دیا اور 50 روپے ماہوار وظیفہ مقرر ہوا،  1857 کی جنگ آزادی کے بعد غالب کی سرکاری پنشن بند ہوگئی تو انہوں نے اس وقت کے والی رام پور نواب یوسف علی خاں کو امداد کے لیے خط لکھا انہوں نے 100 روپے ماہوار وظیفہ مقرر کر دیا جو غالب کو تادمِ حیات ملتا رہا۔

غالب کی عظمت کا راز ان کی شاعری کے حسن اور بیان کی خوبی ہی نہیں بلکہ ان کا اصل کمال یہ ہے کہ وہ زندگی کے حقائق اور انسانی نفسیات کو گہرائی میں جاکر سمجھتے تھے اور بڑی سادگی سے عام لوگوں کے لیے اپنے اشعار میں بیان کردیتے تھے۔ غالب نے اپنی زندگی میں مسلمانوں کی ایک عظیم سلطنت کو برباد ہوتے دیکھا اورباہر سے آئی ہوئی انگریز قوم کو ملک کے اقتدار پر چھاتے دیکھا۔ غالب سے پہلے کی اردو شاعری عشق مجازی کے معاملات تک محدود تھی لیکن غالب پہلے شاعر تھے جنھوں نے اردو شاعری میں فکر اور سوالات کی آمیزش کرکے اسے جلا بخشی۔

اردو کے عظیم شاعر15 فروری 1869 کو دہلی میں جہاں فانی سے کوچ کرگئے لیکن جب تک اردو زندہ ہے ان کا نام بھی جاوداں رہے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔