ختم نبوت ﷺ کیس میں عدالتی معاون پروفیسر حسن مدنی اسلام آباد ہائیکورٹ میں پیش

ویب ڈیسک  پير 26 فروری 2018
نادرا نے قادیانی مذہب اختیار کرنے والے 10 ہزار افراد کا ڈیٹا سربمہر لفافے میں عدالت میں پیش کردیا فوٹو:فائل

نادرا نے قادیانی مذہب اختیار کرنے والے 10 ہزار افراد کا ڈیٹا سربمہر لفافے میں عدالت میں پیش کردیا فوٹو:فائل

 اسلام آباد: ختم نبوت ﷺ کیس میں عدالت کی معاونت کے لیے پروفیسر حسن مدنی اسلام آباد ہائیکورٹ میں پیش ہوگئے۔

اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے الیکشن ایکٹ میں ختم نبوت ترمیم سے متعلق کیس کی سماعت کی۔ درخواست گزار کی جانب سے حافظ عرفات عدالت میں پیش ہوئے۔

یہ بھی پڑھیں: نادرا کو مسلمانوں کی شناختی دستاویزات میں مذہب کی تبدیلی سے روک دیا گیا

عدالت میں پیش کردہ نادرا رپورٹ سے یہ بات سامنے آئی کہ 10 ہزار 205 مسلمانوں نے اپنا مذہب چھوڑ کر قادیانی مذہب اختیار کرلیا ہے اور شناختی کارڈ میں قادیانیت کو اپنی نئی شناخت ظاہر کیا ہے۔ عدالت نے اسلام چھوڑ کر قادیانی مذہب میں منتقل ہونے والے ان 10205 افراد کی جامع رپورٹ بشمول عمر، ولدیت اور بیرون ملک سفر کی معلومات نادرا سے طلب کرلیں۔ نادرا نے قادیانی اسٹیٹس حاصل کرنے والے افراد کا ڈیٹا سربمہر لفافے میں عدالت میں پیش کردیا۔

یہ بھی پڑھیں: ختم نبوت ﷺ کیس میں رہنمائی کیلئے مذہبی اسکالرز طلب

عدالتی معاونت پروفیسر حسن مدنی ہائیکورٹ میں پیش ہوئے اور معاونت کی۔ جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے پروفیسر حسن مدنی سے استفسار کیا کہ کیا ایک شخص صرف پنجاب اسمبلی کی سیٹ حاصل کرنے کے لئے اپنا مذہب تبدیل کر دے تو اس پر اسلام کیا کہتا ہے؟۔

پروفیسر حسن مدنی نے جواب دیا کہ مذہب تبدیل کرنے والے کی سزا وہی ہے جو مرتد کی ہے۔ پروفیسر حسن مدنی نے قرآن اور حدیث کی روشنی میں مذہب تبدیل کرنے والے افراد اور اس حوالے سے حکومت کی ذمہ داریوں پر حوالے دیئے۔ پروفیسر حسن مدنی نے کہا کہ قادیانی نہ مسلم ہیں نہ عیسائی اور کافروں سے بھی زیادہ خطرناک ہیں، قادیانی اسلام کی کچھ چیزوں کو لیتے ہیں اور کچھ چیزوں کو مسخ کر دیتے ہیں، قادیانی اپنی مذہبی کتابوں میں مسلمانوں کو کافر کہتے اور گالی دیتے ہیں۔

جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے پوچھا کہ حرمین شرفین میں غیر مسلموں کا داخلہ کب سے بند کردیا گیا؟۔ پروفیسر حسن مدنی نے بتایا کہ فتح مکہ کے بعد غیر مسلموں کا حرمین شرفین میں داخلہ بند کر دیا گیا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔