سپریم کورٹ، میاں صاحب اور موروثی سیاست

عنایت کابلگرامی  بدھ 28 فروری 2018
مورثی سیاست پیپلز پارٹی، مسلم لیگ (ن) اور جمعیت علمائے اسلام میں نمایاں ہے۔
فوٹو: انٹرنیٹ

مورثی سیاست پیپلز پارٹی، مسلم لیگ (ن) اور جمعیت علمائے اسلام میں نمایاں ہے۔ فوٹو: انٹرنیٹ

گزشتہ دنوں بدھ کے روز سپریم کورٹ نے ایک مرتبہ پھر ایک بڑا فیصلہ سنا دیا۔ تین رکنی یبنچ جس کی قیادت چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کر رہے تھے، انہوں انتخابی اصطلاحات 2017ء کیس میں اپنا فیصلہ سناتے ہوئے سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کو مسلم لیگ ن کی صدارت کےلیے بھی ناہل قرار دے دیا۔

اس مرتبہ میاں صاحب کے خلاف سپریم کورٹ میں دائر کی گئی درخواست میں تحریک انصاف اور عوامی مسلم لیگ کے ساتھ پاکستان پیپلز پارٹی بھی شامل تھی، ان تینوں پارٹیوں کا موقف تھا کہ ایک نااہل شخص کس طرح ایک سیاسی جماعت کی قیادت کر رہا ہے؟ یہ آئین کی سراسر خلاف ورزی ہے۔ اس سے قبل گزشتہ سال بھی سپریم کورٹ نے میاں نواز شریف کو آئین کی شق 62، 63 کے تحت امین و صادق نہ پاتے ہوئے وزیراعظم کے عہدے کےلیے نااہل قرار دیا تھا۔ میاں صاحب کی بدقسمتی کے وہ تیسری بار بھی وزیر اعظم کے عہدے سے ہٹائے گئے، جبکہ موجودہ دور میں ان کی قسمت کا ستارہ کچھ زیادہ ہی گردش میں ہے۔

میاں صاحب اور ان کے ارکان اسمبلی مسلسل اس بات کا دعویٰ کر رہے ہیں کے میاں صاحب پاکستان کے سب سے مقبول لیڈر ہیں، اور انہوں نے ہی ملک میں قانون کی بالادستی قائم کی ہے۔ لیکن ایسا ہر گز نہیں، میاں صاحب صرف اپنے اقتدار کی خاطر قانون میں محض رد و بدل کرتے رہتے ہیں، جب کسی قانون کے تحت ان کو ہٹایا گیا تو  میاں صاحب نے اسی میں ردو بدل کروا دیا۔

چیف جسٹس جناب ثاقب نثار کی سربراہی میں سپریم کورٹ نے یہ اعلان کر رکھا ہے کہ ملک میں آئین و قانون کی بالادستی قائم رکھنے کےلیے انصاف پر مبنی فیصلے کیے جائیں گے؛ خواہ ان کی زد میں عوامی نمائندے ہی کیوں نا آجائیں۔ ہم صرف ملک کی خاطر ایسے فیصلے کرینگے جو انصاف پر مبنی ہو اور اس سے عوام میں عدالت کا کھویا ہوا اعتماد بھی بحال ہوسکے۔

اس بات سے انکار ممکن نہیں کہ پاکستان میں سیاست دان اپنے مفادات کےلیے جرائم پیشہ افراد کو استعمال کرتے ہیں، پھر ان کی اجرت دینے اور اپنی تجوریاں بھرنے کے لیے خوب کرپشن بھی کرتے ہیں۔ جب تک سیاست کو جرائم سے پاک نہیں کیا جاتا تب تک ملک میں امن قائم نہیں کیا جاسکتا، اور نہ ہی میرٹ کو نظر انداز کرکے ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کیا جاسکتا ہے۔

عرصہ دراز سے ملک پر حکمرانی کرنے والی دو بڑی سیاسی جماعتوں مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی کا کرپشن، بدتر حکمرانی، جرائم پیشہ افراد کی سرپرستی کے علاوہ مالی دہشت گردی میں ملوث ہونا، قومی مجرموں کا سہولت کار بننا، ملک دشمنوں کے ساتھ یاریاں بڑھانا ایسے جرائم ہیں جس نے پورے ملک و معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے۔ جب تک سیاست کو جرائم و کرپشن سے پاک نہیں کیا جاتا، اور ملک و عوام دشمن عناصر کو یہ سیاست دان اپنا دشمن تصور نہیں کرتے تب تک انہیں قانون کی گرفت سے آزاد قرار نہیں دیا جاسکتا، چاہے وہ لاکھوں نہیں کروڑں ووٹ ہی کیوں حاصل نا کرلیں۔

میاں صاحب اور ان کے رفقاء کا یہ موقف ہے کہ جس شخص کو ملک کے کروڑوں عوام منتخب کریں، اس کو عدالت عظمیٰ کے تین چار جج صاحبان کیسے ہٹا سکتے ہیں؟ کیا اس ملک میں عوامی رائے کا کوئی احترام نہیں؟ یہ ایک ایسا موقف ہے جیسے کوئی مولوی اگر غلط کام کرتا ہے اور عام لوگ اس کی نشاندہی کریں تو مولوی صاحب فوراََ خود کو انبیاء کرام علیہ سلام کا وارث کہنا شروع کردے۔ اس کے ساتھ ان عام لوگوں کو جنہوں نے مولوی کی غلطی کی نشاندہی کی ہو، پر گستاخِ علماء کا فتویٰ لگا دیا جاتا ہے۔ اسی طرح ہمارے سیاست دان بھی جب کوئی حق بات کریں یا کوئی جج انصاف پر مبنی فیصلہ دے اور اس بات یا فیصلے سے کسی سیاست دان کو نقصان ہو یا اس کی ساکھ متاثر ہوتی ہو تو وہ سیاست دان اس حق کی بات یا فیصلے کرنے والے کو جمہوریت کا دشمن قرار دے دیتا ہے۔

ایسا کیوں؟ یہ خرابی کہاں ہے؟ یہ تمام خرابی مورثی سیاست میں ہے جو پیپلز پارٹی، مسلم لیگ (ن) اور جمعیت علمائے اسلام میں نمایاں ہے۔ ایک طرف زرداری صاحب اپنے بیٹے کو تیار کر رہے ہیں، تو دوسری طرف میاں صاحب اپنی بیٹی کو۔ جب کہ مولانا فضل الرحمان بھی ان سے پیچھے نہیں، وہ بھی اپنے بیٹے کو اپنے بعد قیادت کےلیے بھر پور انداز میں تیار کر رہے ہیں۔ یہ پارٹیاں جو مورثی سیاست کو اپنائے ہوئے ہیں، ان کے لیڈروں کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ ملک کا اقتدار اور پارٹی کی قیادت ہمیشہ ان کے ہاتھ میں رہے۔ حالانکہ ان پارٹیوں میں اچھے خاصے پڑھے لکھے لوگوں کی کثیر تعداد موجود ہے جن کو اگے لاکر ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کیا جاسکتا ہے، لیکن یہ صاحبان کبھی نہیں چاہیں گے کہ اقتدار کسی اور کے ہاتھ میں چلا جائے۔ اس ملک کو سب سے زیادہ نقصان ان موروثیوں نے پہنچایا ہے، جب تک ملک سے موروثی سیاست کو ختم نہیں کیا جاتا تب تک یہ سیاست دان یوں ہی اقتدار کی خاطر ملک کے خزانوں کو اور عوام کو نقصان پہنچاتے رہیں گے۔

عوام کو اب سوچنا ہوگا کہ آئندہ انتخانات میں کیسے لوگوں کو منتخب کیا جائے، جو ملک میں کرپشن لوٹ مار اور دہشت کی سیاست کر رہے ہیں؟ یا ایسے لوگوں کو جو پڑھے لکھے اور ملک کے خیر خواہ ہیں، جو حق سچ بات کرتے ہوئے ذرا بھی نہیں کتراتے۔ ممبر قومی اسمبلی ایک علاقے سے منتخب ہوتا ہے اور ان کو ووٹ بھی علاقے والے ہی دیتے ہیں، ہمیں ایسے امیدوار کو منتخب کرنا ہوگا جو موروثی سیاست اور کرپشن سے پاک ہو اور ملک کا خیر خواہ ہو۔

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ میرے ملک کے حکمرانوں کو ہدایت عطا فرمائے۔ (آمین)

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔