سندھ کی ثقافت اور مزاحمت کی داستان

سندھ کلچر ڈے صرف ثقافتی جشن نہیں بلکہ ایک سیاسی اعلان بھی ہے


زاہدہ حنا December 17, 2025

سندھ فقط ایک جغرافیائی خطہ نہیں، یہ صدیوں پر محیط ایک ایسی تہذیبی دھڑکن ہے جو دریائے سندھ کے بہاؤ کے ساتھ ساتھ انسانی شعور میں بھی موجزن رہی ہے۔ یہ دھرتی موئن جو دڑو کی خاموش اینٹوں میں چھپی ابتدائی شہری زندگی کی گواہ بھی ہے اور شاہ لطیف کے سروں میں رچی ہوئی مزاحمت کی داستاں بھی۔ یہ سرمد شہید کی گردن پر پڑتی تلوار کی چمک بھی ہے اور ہوشو شیدی کے نعرہ حریت کی بازگشت بھی۔ سندھ نے ہمیشہ سچ کے لیے زخم کھائے اور جبر کے مقابل سر اٹھایا۔ یہی وجہ ہے کہ سندھ کی تاریخ محض بادشاہوں فتوحات اور شکستوں کی کہانی نہیں بلکہ کسان، درویش، شاعر، عورت اور مزدور کی اجتماعی جدوجہد کا استعارہ ہے۔

سندھ کی تہذیب کی بنیاد رواداری وحدت اور انسان دوستی پر رکھی گئی۔ یہاں مندر کی گھنٹیاں بھی بجیں ،مسجد کی اذانیں بھی گونجیں ،درگاہوں پر دھمال بھی پڑا اور صوفیوں نے عشقِ حقیقی کے دیپ بھی جلائے۔ سندھ نے ہمیشہ اقتدار سے زیادہ سچ کا ساتھ دیا۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں کے لوک گیتوں کہانیوں اور شاعری میں محبت بھی ہے، احتجاج بھی اور سوال بھی۔

سندھ کلچر ڈے درحقیقت اسی صدیوں پرانی تہذیبی شناخت کا جدید اظہار ہے۔ یہ دن سندھ کی تہذیب اور ثقافت کے جشن کا دن ہے۔ اس دن اجرک کندھوں پر ڈال کر ، سندھی ٹوپی سر پر پہن کر اور رقص کر کے اپنی محبت اور احترام کا اظہار کیا جاتا ہے۔ سندھ کے عوام اپنے رنگ، اپنی زبان، اپنی شناخت کے ساتھ باہر نکلتے ہیں تو یہ عقیدت کا انداز ہوتا ہے۔ یہ اس بات کا اظہار ہوتا ہے کہ ہم اپنی تاریخ سے جڑے ہیں اور ہم اپنی دھرتی سے پیار کرتے ہیں۔ ہر طرف خوشی کا سماں ہوتا ہے، لوگ رقص موسیقی اور ڈھول کی تھاپ پر اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہیں۔

سندھ کلچر ڈے صرف ثقافتی جشن نہیں بلکہ ایک سیاسی اعلان بھی ہے۔ یہ اعلان اس وقت اور زیادہ معنی خیز ہو جاتا ہے جب شناخت کو مٹانے زبانوں کو خاموش کرنے اور ثقافت کو ایک کمرشل شے میں بدل دینے کی کوششیں جاری ہوں۔ ایسے میں سندھ کا یہ تہوار اس بات کی علامت ہے کہ تہذیب بازار کی قید میں نہیں ڈالی جا سکتی اور ثقافت کسی طاقت کے اشارے پر خاموش نہیں ہو سکتی۔

اسی دن ترقی پسند فکر کی روایت کو تھامے اینکر لکھاریوں اور سیاسی کارکنوں پر مشتمل ایک وفد میرے گھر آیا۔ انجمن ترقی پسند مصنفین اور شاہ عنایت شہید فورم کا یہ وفد گویا سندھ کی اس روایت کی ایک جیتی جاگتی تصویر تھا جو زمانے کے تقاضوں سے بے پرواہ اپنی ذمے داری کو مقدم رکھتی ہے۔ اس وفد میں انجمن سندھ کے صدر ریاض شاہد دایو ،کراچی کے سیکریٹری نعیم شیخ، شہید نذیر عباسی یادگاری کمیٹی کے چیئرمین قادر اعظم، سندھی ادبی سنگت کے مرکزی آڈیٹر ایاز لطیف دایو ،ورکرز سولیڈرٹی فیڈریشن کے سیکریٹری ولیم صادق، شاہ عنایت شہید فورم کے چیئرمین گل محمد منگی اور کامریڈ گل ناز منگی شامل تھے۔ یہ سب چہرے محض نام نہیں بلکہ اس جدوجہد کی علامت ہیں جو اس خطے میں آج بھی زندہ ہے۔

میں نے ان ساتھیوں سے یہی کہا کہ’’سندھی اور اردو بولنے والے اب تمام اختلافات بھلا کر یکجا ہو جائیں کیونکہ زبانیں ہماری پہچان ہیں ،یہ ہمیں جدا کرنے کے لیے نہیں جوڑنے کے لیے ہوتی ہیں۔ یہ دھرتی سب کی ہے، یہاں بسنے والا ہر فرد اس کا وارث ہے۔ ترقی پسند تحریک نے ہمیشہ زبان، نسل اور فرقے سے بالاتر ہو کر انسان کو انسان کے طور پر تسلیم کیا ہے۔ یہی سندھ کا پیغام بھی ہے۔

اسی دن ایک اور خاص بات بھی تھی جو میرے لیے خوشی کا سبب بنی۔ اس دن دنیا کے عظیم دانشور، ماہر لسانیات ،فلسفی اور سامراجی نظام کے نقاد نوم چومسکی کی سالگرہ تھی اور ان کی سالگرہ کا کیک میرے گھر پر کاٹا گیا۔ یہ محض ایک کیک کاٹنے کی رسم نہیں تھی یہ اس فکری رشتے کا اظہار تھا جو جغرافیہ زبان اور قومیت کی دیواروں سے بہت بلند ہوتا ہے۔

نوم چومسکی ہمارے عہد کے ان چند دانشوروں میں سے ہیں جنھوں نے طاقت کے سب سے مضبوط مراکز سے ٹکر لینے کی جرات کی۔ انھوں نے امریکی سامراج سرمایہ دارانہ لوٹ مار میڈیا کی دروغ گوئی اور طاقت کی سیاست کو بے نقاب کیا۔ انھوں نے یہ سکھایا کہ خاموش رہنا بھی جرم ہے جب ظلم معمول بن جائے۔ ان کی فکر ہمیں یہ یاد دلاتی ہے کہ طاقت کے سامنے سچ بولنا ہی دانشور کا اصل فریضہ ہے۔ سندھ کی تاریخ بھی تو دراصل اسی جراتِ اظہار کی تاریخ ہے۔ شاہ عنایت جیسے کسان رہنما سے لے کر نذیر عباسی جیسے انقلابی تک یہ دھرتی ہمیشہ سچ بولنے والوں کو جنم دیتی رہی ہے۔

یوں سندھ کلچر ڈے پر نوم چومسکی کی سالگرہ کا کیک کٹنا محض ایک علامتی عمل نہیں تھا، یہ دو مزاحمتی روایتوں کا سنگم تھا ،ایک سندھ کی اور ایک عالمی انسانی جدوجہد کی۔ ایک طرف اجرک کے رنگ تھے تو دوسری طرف سامراج مخالف فکر کی خوشبو۔ یہ لمحہ ہمیں یہ یاد دلا رہا تھا کہ ہماری لڑائی صرف مقامی نہیں یہ عالمی ہے۔ ظلم کہیں بھی ہو اس کے خلاف آواز ہر جگہ اٹھانی چاہیے۔

انجمن ترقی پسند مصنفین کا کردار یہاں اس لیے بھی اہم ہے کہ اس تنظیم نے ہمیشہ ادب کو محض جمالیاتی شے نہیں بلکہ سماجی تبدیلی کا ہتھیار سمجھا۔ سندھ ہو یا کراچی اردو ہو یا سندھی اس تحریک نے ہمیشہ استحصال کے خلاف قلم اٹھایا۔ یہی سندھ کی روح بھی ہے، یہاں ادب نے ہمیشہ اقتدار کے دربار سے زیادہ کھیت اور فیکٹری کے مزدور کا ساتھ دیا۔

سندھ کی تاریخ ہمیں یہ بھی سکھاتی ہے کہ شناخت کا دفاع صرف ثقافتی لباس پہننے سے نہیں ہوتا بلکہ اس کے لیے سماجی انصاف معاشی برابری اور انسانی وقار کی جدوجہد ناگزیر ہے۔ سندھ کلچر ڈے اگر صرف ناچ گانے اور فوٹو سیشن تک محدود ہو جائے تو یہ کھوکھلا ہو جاتا ہے مگر جب اس میں مزدور کے پسینے کی خوشبو، کسان کے ہاتھوں کی سختی اور طالب علم کی آنکھوں کا خواب شامل ہو جائے تو یہی تہوار ایک انقلابی اعلان بن جاتا ہے۔

آج جب سندھ وسائل سے مالا مال ہونے کے باوجود غربت بے روزگاری پانی کی قلت اور ماحولیاتی تباہی کی مار جھیل رہا ہے تو ہمیں اپنی ثقافت کو صرف ماضی کی یادگار نہیں بلکہ مستقبل کی جدوجہد کا استعارہ بنانا ہوگا۔ سندھ کی اصل ثقافت وہ ہے جو جبر کے سامنے جھکنے سے انکار کرے جو سرمایہ دار کی حاکمیت کو چیلنج کرے جو سامراج کے خلاف کھڑی ہو اور جو عورت اقلیت اور مزدور کو مرکزی حیثیت دے۔

سندھ کلچر ڈے اور نوم چومسکی کی سالگرہ یہ سب مل کر ایک ہی سچ کی طرف اشارہ کر رہے تھے کہ ثقافت مزاحمت اور شعور ایک ہی جدوجہد کے مختلف نام ہیں۔ سندھ زندہ ہے تو اس کی وجہ یہی مزاحمت ہے، اگر زبانیں زندہ ہیں تو اس لیے کہ ان میں سوال کرنے کی طاقت ہے، اگر ادب باقی ہے تو اس لیے کہ اس نے ظلم کے ساتھ سمجھوتہ نہیں کیا۔

سندھ کی تاریخ آج بھی لکھی جا رہی ہے کسی کسان کے احتجاج میں ،کسی طالب علم کی گرفتاری میں، کسی مزدور کی ہڑتال میں ،کسی شاعر کی نظم میں، کسی دانشور کے سوال میں۔ اور جب تک یہ سوال زندہ ہیں تب تک ہم سب کا دل دھڑکتا رہے گا۔

مقبول خبریں