کراچی میں ڈیڑھ کروڑ روپے کے قرض سے بچنے کے لیے اجتماعی خودکشی کے ایک ہولناک اور دل دہلا دینے والے واقعے کا انکشاف ہوا ہے جس میں گھر کی تین خواتین نے موت کو گلے لگا لیا مگر خواتین کو زہریلا جوس پلا کر موت کے گھاٹ اتارنے والے باپ بیٹا زہریلا جوس پینے کی خود ہمت نہ کر سکے کیوں کہ اس خاندان نے ڈیڑھ کروڑ روپے کے قرض سے بچنے کے لیے اجتماعی طور پر مرنے کا منصوبہ بنایا تھا جس پر منصوبہ بنانے والے دو مرد خود عمل نہ کر سکے اگر منصوبے پر مکمل عمل ہو جاتا تو مقروضوں کے لیے منفرد واقعہ ہوتا جو ملک میں پہلی بار رونما ہوتا۔
ملک میں ہر ذی شعور کو پتا ہے کہ ہمارے ملک کے حکمرانوں نے آئی ایم ایف سمیت عالمی اداروں سے ملک کے لیے اتنا کھربوں ڈالر قرض لے رکھا ہے کہ جنم لینے والا ملک کا ہر بچہ بھی لاکھوں روپے کا مقروض پیدا ہو رہا ہے حالانکہ اس کے والدین نے حکومت سے کوئی قرض نہیں لیا مگر ہمارے حکمرانوں نے قرضوں میں اتنا جکڑاو دیا ہے کہ وہ کوشش کے باوجود اپنے عوام کو معمولی ریلیف بھی دینے کا اختیار نہیں رکھتے مگر آئی ایم ایف کو ملک کو بھاری قرضوں میں پھنسانے والے حکمرانوں کا اتنا خیال ہے کہ وہ حکمرانوں کو ذاتی عیاشیوں اور غیر ملکی دوروں سے نہیں روکتا مگر عوام کو کوئی ریلیف نہیں دینے دے رہا۔
آئی ایم ایف نے اپنے بورڈ کے ذریعے مقروض پاکستان کو 1.30 ارب ڈالر کی نئی قسط کی منظوری دے دی ہے مگر مزید مطالبات بھی پیش کر دیے ہیں جس پر عمل کرنا مقروض ملک کے موجودہ حکمرانوں کی مجبوری ہے اور ملک کا آیندہ مالی بجٹ بھی آئی ایم ایف کی شرائط کے مطابق پیش ہوگا اور حکومت کوئی نئی ایمنسٹی اسکیم لا سکے گی نہ ٹیکسوں میں عوام کو کوئی چھوٹ دے سکے گی اور اسے سادہ ٹیکس نظام، مالی استحکام اور کاروباری ماحول مزید بہتر بنانا ہوگا جو پہلے ہی ملک پر چڑھے ہوئے قرضوں کے باعث تباہی کا باعث بنا ہوا ہے مگر آئی ایم ایف کو اس سے کوئی سروکار نہیں اسے اپنی نئی نئی شرائط سے دلچسپی ہے جو حکومت پاکستان ہر حال میں ماننے کو مجبور ہے جو معیشت بہتر ہونے کے دعوے تو کرتی ہے مگر مزید قرضے لینے کے لیے کوشاں رہتی ہے اور اپنے عوام کو مزید مقروض کر رہی ہے۔ یہی پالیسی سابق وزیر اعظم کی بھی تھی جو کہتے تھے مزید قرض نہیں لیں گے مگر قرض لینے میں تاخیر پر اپنے پسندیدہ وزیر خزانہ کو ہٹا دیتے تھے اور ایسا وزیر خزانہ مقرر کرتے تھے جو انھیں آئی ایم ایف سے مزید قرض دلا سکے۔
سابق وزیر اعظم نواز شریف کا دعویٰ ہے کہ انھوں نے اپنی حکومت میں کشکول توڑ دیا تھا جب کہ ان کی موجودہ حکومت نے تو بڑا کشکول پکڑ لیا ہے جسے لے کر وہ آئے دن ایسے ممالک کے دوروں پر قومی خزانہ اڑا رہے ہیں جہاں کے دوروں سے ملک اور عوام کو کوئی فائدہ پہنچتا نظر نہیں آیا اور نہ ہی پاکستانیوں کے لیے ملازمتوں کے مواقع نظر آ رہے ہیں بلکہ یو اے ای کی طرف سے ویزوں کا حصول مزید مشکل کر دیا گیا ہے۔
ملک میں ایک تاثر یہ پیدا ہو رہا ہے کہ قرضے اور امداد مانگنا کوئی بری بات نہیں کیونکہ ہمارے حکمران ہی اس کو برا نہیں سمجھتے تو ہم کیوں نہ ایسا کرکے اپنی ضرورتیں پوری کریں کیونکہ حکومت پاکستان بھی یہی کچھ کر رہی ہے۔ قرضے اور امداد کو بے عزتی نہ سمجھنے والے یہ نہیں سوچ رہے کہ حکمران جو قرضے لے رہے ہیں وہ قرضے اور سود حکمرانوں نے نہیں بلکہ حکومت پاکستان کو قومی خزانے سے اتارنے ہیں اور یہ خزانہ عوام اپنے خون پسینے کی کمائی سے بھرتے ہیں جس کا بڑا حصہ قرضوں اور سود کی ادائیگی پر اور باقی رقم حکمرانوں، ارکان اسمبلی، بیورو کریسی، ججز اور حکومتی اللے تللے، وی آئی پی موومنٹ پر خرچ ہونے کے بعد عوام کی فلاح و بہبود کے لیے کچھ نہیں بچتا بلکہ الٹا حکومت بجلی، گیس و پٹرولیم مصنوعات مہنگی کرکے پورا کر لیتی ہے جس کے نتیجے میں ملک میں مہنگائی اور بے روزگاری ماضی کے سارے ریکارڈ توڑ چکی ہے۔
اس وقت مہنگائی کی یہ حالت ہے کہ لوگوں کو دو وقت کی روٹی میسر نہیں۔ لوگ اپنے بچوں کو تعلیم دلانے کے متحمل بھی نہیں ہو رہے کہ نجی اسکولوں میں تو کیا سرکاری اسکولوں میں ہی داخل کرا سکیں جہاں بس نام کی تعلیم میسر ہے۔ تعلیم حاصل کرنے کی عمر کے بچوں کو لوگ اپنی گھریلو آمدنی بڑھانے کے لیے معمولی ملازمتیں کرانے پر مجبور ہیں جس سے چائلڈ لیبر کی تعداد بڑھ رہی ہے جو غیر قانونی تو ہے مگر مہنگائی کی وجہ سے لوگ ایسا کرنے پر مجبور ہیں۔ مساجد میں ہر نماز کے بعد ضرورت مند اپنی مجبوری بیان کرکے مدد طلب کرتے ہیں اور ایسے لوگ مجبوری میں مدد مانگنے کھڑے تو ہو جاتے ہیں مگر ان سے بولا نہیں جاتا تو آواز کی جگہ ان کی آواز گلوگیر ہو جاتی ہے اور وہ اپنا چہرہ ڈھانپ کر واپس بیٹھ جاتے ہیں۔ مساجد میں ضرورت مند اپنی بیوی اور بچوں کو لے کر آتے ہیں اور دواؤں اور راشن خریدنے کے لیے مدد مانگتے ہیں۔
مقروض ملک کے حکمرانوں نے اپنے عوام کو ایسا مقروض کر دیا ہے کہ وہ ضرورت مند کے لیے قرض تو لے لیتے ہیں مگر ادا نہیں کر پاتے تو گلشن اقبال کراچی میں تین خواتین اور اسلام آباد کی ڈاکٹر وردہ کے قتل جیسے واقعات سامنے آ رہے ہیں۔
موجودہ بے روزگاری اور مہنگائی میں روزانہ خودکشیاں ہو رہی ہیں۔ لوگ اپنی ضرورت کے لیے اپنے عزیزوں اور دوستوں سے قرض تو لے لیتے ہیں مگر جہاں اخراجات بہ مشکل پورے ہوتے ہوں وہاں بچت کا تصور ہی ممکن نہیں کہ وہ قرض واپس کر سکیں۔ قرض دار کے رقم واپسی کے تقاضوں سے مجبور ہو کر کہیں خودکشیوں کو آسان حل سمجھ لیا گیا ہے تو کہیں لوگ مجبوری میں جرائم میں بھی ملوث ہو جاتے ہیں۔ عوام حکمران نہیں مجبور ہیں جنھیں قرض واپس کرنے کی بھی فکر ہوتی ہے۔ خودکشیاں اور جرائم میں ملوث ہو جانے کے بجائے ظاہری عزت بچانے سے بہتر ہے کہ وہ غیر ضروری اخراجات نہ کریں اور اپنی آمدنی کے مطابق معاملات چلائیں کیونکہ قرض بھی ایک لعنت ہے۔ حکمران قرض لے کر چلے جاتے ہیں مگر عوام نے قرض لے کر واپس بھی کرنا ہوتا ہے جب کہ وہ مقروض ملک کے مقروض عوام ہیں۔