اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ پاکستان کا سیاسی ، جمہوری ،آئینی ،قانونی اور پارلیمانی نظام یا پارلیمنٹ کا اپنا مجموعی کردار کمزور بنیادوں پر کھڑا ہے ۔یہ ہی وجہ ہے کہ سیاست کی سمجھ بوجھ رکھنے والے اہل دانش اور فکری ماہرین کے بقول ہم آج بھی جمہوری و پارلیمانی سیاست میں اپنے ارتقائی عمل سے گزر رہے ہیں ۔ایک منطق یہ دی جاتی ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ تجربوں کی بنیاد پر بہتری کی گنجائش پیدا ہوتی ہے اور جمہوری سفر آگے کی طرف بڑھتا ہے ۔لیکن ایک طرف ہمارے جیسے جمہوری ملکوں میں جمہوریت کے تسلسل کا نہ ہونا اور بار بار غیر سیاسی قوتوں کی مداخلت کی وجہ سے جمہوری نظام کمزور ہوتا ہے۔
دوسری طرف سیاسی اور جمہوری قوتوں نے بھی اپنے طرزعمل اور فکر کی بنیاد پر جمہوریت اور پارلیمانی سیاست کو مضبوط بنانے کے بجائے اس کو شخصی یا غیر سیاسی مفادات کے تابع رکھ کر بگاڑ پیدا کیا ہے۔ بنیادی طور پر جمہوریت کا مقدمہ سیاسی جماعتوں کی مضبوطی اورجمہوری فکر کے ساتھ جڑا ہوا ہے وہیں پارلیمانی سیاست کا طرز عمل ہمارے جمہوری ہونے کی شرط کی بنیاد پر جڑا ہوتا ہے ۔اگر ہم نے کسی بھی ریاست کے نظام میں جمہوریت کو جانچنا یا اس کی درجہ بندی کرنی ہے تو ہم پارلیمانی سیاست کا تجزیہ کرکے نتائج کو مرتب کرتے ہیں۔
پچھلے دنوں قومی اسمبلی کے اسپیکر سردار ایاز صادق نے پختونخوا ملی عوامی پارٹی اور پی ٹی آئی کے نامزد کردہ حزب اختلاف کے لیڈر محمود خان اچکزئی کے ایک بیان پر سخت ردعمل دیا اور کہا کہ ان کا یہ بیان کہ عوامی دباؤ کی بنیاد پر ایوان کی کارروائی کو چیلنج کیا جاسکتا ہے ، پارلیمانی سیاست کے خلاف ہے ۔ان کے بقول پارلیمنٹ کا تحفظ میری ذمے داری ہے اور ایسی سوچ کی حوصلہ شکنی کرنا ہوگی تاکہ پارلیمنٹ کی بالادستی ،آئینی نظام کے تحفظ اور جمہوری روایات کی بقا کو یقینی بنایا جاسکے۔
اصل میں ہماری سیاسی جماعتیں اور قیادت سمیت سب ہی پارلیمنٹ ، اس کی سیاست کو اپنے جماعتی اور سیاسی مفادات کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ اس میں قصور محض حکومتی جماعتوں تک محدود نہیں ہوتا بلکہ اس کھیل میں حزب اختلاف کا کردار بھی تنقید کے زمرے میں آتا ہے۔ ہم جمہوریت اور پارلیمانی بالادستی کے نعرے تو بہت لگاتے ہیں لیکن اس کے برعکس پارلیمان کا مجموعی کردار ان کے مثبت دعوؤں کے برعکس ہوتا ہے ۔
اس بات کو منظر عام پر لایا جائے کہ پارلیمنٹ میں ہونے والی قانون سازی میں پارلیمانی ارکان کا کیا کردار ہوتا ہے۔ارکان پارلیمنٹ کو نظر انداز کرنا یا قانون سازی پر بحث ومباحثہ سے گریز، ارکان کو ہونے والی قانون سازی کی دستاویزات کا نہ دینا ،ارکان کو حکومت کی مرضی پر ووٹ ڈالنا یا غیر سیاسی قوتوں کا پارلیمانی سیاست میں مداخلت کرنا اور جانبدارانہ فیصلے بہت کچھ سمجھنے میں مدد دیتے ہیں کہ یہاں کیسے ہم پارلیمانی سیاست کو چلاتے ہیں۔ کیا قانون سازی کرتے ہوئے حکومتی پارلیمانی ارکان کو اجازت دی جاتی ہے کہ وہ حکومت کی پیش کردہ قانون سازی پر تنقید کرے۔ گمان ہے کہ پارلیمنٹ تو کجا خود پارلیمانی پارٹی اور کابینہ کی سطح پر بحث کی اجازت نہ ہونا کیا پارلیمانی سیاست کے تقاضوں کے برعکس نہیں ہے ۔
ایک طرف یہ گلہ کیا جاتا ہے کہ پارلیمانی سیاست میں حزب اختلاف کا کردار مثبت نہیں ہوتا اور وہ پارلیمانی سیاست کو ناکامی سے دوچار کرتے ہیں۔اس میں کوئی شبہ نہیں کہ حزب اختلاف بھی جمہوری سیاست کے برعکس کردار ادا کرتی ہے ۔لیکن جب حکومت کا اپنا طرز عمل غیر سنجیدہ ہوگا تو پھر محض حزب اختلاف پر تنقید کیوں۔
کورم کو پورا نہ کرنا، حکومت کا خود حزب اختلاف کے وجود کو تسلیم نہ کرنا اور غیر پارلیمانی طرز کی سیاست اور وزیر اعظم سمیت وزرا کی عدم موجودگی اور اجلاسوں میں عدم شرکت، پارلیمانی کمیٹیوں کا جوابدہی کا کمزور نظام ،اہم قومی مسائل پر ہونے والے فیصلوں پر پارلیمنٹ کو ہی نظر انداز کرنے کی پالیسی پر حکومت کے پاس کیا جواب ہے۔ حال ہی میں 26 ویں اور 27ویں ترمیم کی منظوری پر پارلیمانی سیاست کی جو دھجیاں اڑائی گئی ہیں اس کا جوابدہ کون ہوگا۔یہ طرز عمل کسی ایک کا نہیں بلکہ مجموعی طور پر یہ پارلیمانی سیاست کی ناکامی ہے کہ وہ اپنے کردار سے جمہوریت اور پارلیمان کو مضبوط کرنے میں ناکام ہیں۔
اصل میں ہمارا مجموعی جمہوری اور پارلیمانی نظام شخصی سطح کی حکمرانی سے جڑا ہوا ہے جہاں اداروں کو کمزور رکھ کر شخصی حکمرانی کو طاقت دینا ہے ۔ پی ٹی آئی کے نامزد کردہ اپوزیشن لیڈر محمود خان اچکزئی کی تقرری نہ کرنا کون س آئینی تقاضوں سے جڑا ہوا ہے ۔کیا وجہ ہے کہ حزب اقتدار والے حزب اختلاف کی نامزد کردہ قیادت کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں اور کیا ان کے اس طرز عمل سے پارلیمانی سیاست مضبوط ہورہی ہے یا کمزور،اس کا فیصلہ خود سب کو بھی کرنا چاہیے۔
یہ سوال بھی اہمیت رکھتا ہے کہ پارلیمنٹ اور پارلیمانی سیاست کا عوامی مفادات کی سیاست سے کیا تعلق ہے اور کیا ہم پارلیمنٹ کی مجموعی طرز کی سیاست کو عوامی مفادات کے تابع سمجھ سکتے ہیں۔جو بھی قانون سازی ہورہی یا جو بحث ومباحثہ ہے چاہے اس میں حکمران یا اپوزیشن ہو اس کا عوامی مفاد سے کیا تعلق ہے ۔ایسے لگتا ہے کہ ایک طرف غیر سیاسی مفادات کے تحت پارلیمنٹ کے مجموعی نظام کو چلایا جا رہا ہے۔ بڑے بڑے کاروباری افراد کے معاشی مفادات یا ان کا خود پارلیمنٹ کی عملی سیاست کا حصہ بننا اور اسی مفادات کے تحت قانون سازی یا پالیسی سازی کو ترتیب دینا، ایسے ہی ہے جیسے عوامی مفادات کے مقابلے میں ہم طاقت کے کھیل میں جاری گٹھ جوڑ کا حصہ بن گئے ہیں ۔
یہ ہی پارلیمانی ارکان چاہے ان کا تعلق حکومتی یا اپوزیشن کی جماعتوں سے ہو اپنے ذاتی مفادات یا مراعات کے نام پر کیسے اکٹھے ہوجاتے ہیں اور اس کھیل میں سبھی شامل نظر آتے ہیں۔ایک طرف عوام کی معاشی بدحالی اور دوسری طرف پارلیمان کا اپنے ذاتی مفادات پر اکٹھا ہونا ظاہر کرتا ہے کہ پارلیمانی سیاست اور عوام کے مسائل کا کیا باہمی تعلق ہے۔سیاست ،جمہوریت یا پارلیمنٹ کسی ریاست میں اسی وقت اپنی ساکھ قائم کرتی ہے جب وہ خود کو عوامی مفادات سمیت آئین و قانون کی حکمرانی کے ساتھ کھڑا کرے۔لوگوں میں سیاست ،جمہوریت یا ہم پارلیمانی سیاست سے لاتعلقی کا معاملہ نظر آتا ہے۔
کاش ارکان پارلیمنٹ اس پر بھی غور کرکے کچھ مثبت سطح کا طرز عمل دکھاتے اور اپنے دوہرے معیارات سے لاتعلقی اختیار کرتے تو لوگ پارلیمنٹ کی سیاست سے خود کو جوڑتے ، یہ جو پارلیمنٹ کا کردار ہے، اس میں اچھی حکمرانی یا گورننس،معاشی حالات کی بہتری پر بحث نظر نہیں آتی۔ کرپشن،بدعنوانی کا خاتمہ ،شفافیت پر مبنی نظام اور وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم یا ہمیں طبقاتی بنیادوں پر سیاسی اور معاشی محرومی کی سیاست سے جڑے مسائل کا حل اور اس کے بارے میں فیصلے پارلیمنٹ میں نظر نہیں آتے۔یہ بات ذہن نشین رکھنی ہوگی کہ پارلیمانی طرز کی سیاست اور عوامی مفاد کی جنگ اسی صورت میں برتری حاصل کرتی ہے جب ملک میں سیاسی جماعتیں اور سیاسی نظام مضبوط ہو۔سیاسی جماعتوں کے کمزور داخلی نظام اور عدم جوابدہی کے نظام میں مضبوط پارلیمانی طرز کی سیاست کا مضبوط ہونا محض ایک خواب لگتا ہے۔
جب حکمران طبقے نے سارے سیاسی فیصلے پارلیمنٹ سے باہر کسی نظریہ ضرورت کے تحت کرنے ہیں اور پارلیمنٹ کو نظرانداز کرنا ہے یا اس کو محض ایک ڈیبیٹنگ کلب کے طور پر پیش کرنا ہے تو اس سے پارلیمانی سیاست کمزور ہوگی۔ پارلیمنٹ کے ارکان جب نجی مجالس میں بیٹھتے ہیں تو وہ کہتے ہیں کہ ان کی پارلیمانی حیثیت محض زندہ باد یا مردہ باد یا قانون سازی پر ووٹ دینے تک محدود ہے اور ان کی حیثیت اس نظام میں کسی بھی عمل کو چیلنج کرنے کی نہیں ہے اورنہ وہ آواز اٹھاسکتے ہیں یا مزاحمت کرسکتے ہیں،یہ ہی ان کا المیہ ہے ۔