تحریک انصاف اور بالخصوص علیمہ خان ایک ماہ سے باقاعدہ اڈیالہ کے باہر دھرنا دینے کی کوشش کر رہی ہیں۔ بالخصوص منگل کو دھرنا ضرور دیا جاتا ہے۔ یہ دھرنے بانی تحریک انصاف کی ملاقاتیں بند ہونے کے بعد دینے شروع کیے گئے ہیں۔ حکومت کا موقف ہے کہ سیاسی ملاقاتیں نہیں کروائی جا سکتیں اس لیے ملاقاتیں بند کی گئی ہیں۔ اس سے پہلے بانی تحریک انصاف کی بہن کی ملاقات ایک ماہ بعد کروائی گئی تھی لیکن اس کے بعد سیاسی ٹوئٹ آگیا۔ جس کی وجہ سے حکومت نے دوبارہ ملاقاتیں بند کر دی ہیں۔ اب ملاقاتیں بند ہیں اور دھرنے جاری ہیں۔
حالیہ منگل کو دیا جانے والا دھرنا بھی بارہ گھنٹے بعد ختم ہوگیا۔ پولیس کی جانب سے واٹر کینن سے دھرنے کے مظاہرین پر پانی پھینکا گیا اور مظاہرین گھروں کو چلے گئے۔
اس سے پہلے منگل کو بھی ایسا ہی ہوا تھا۔ واٹر کینن سے پانی پھینکا گیا تھا اور دھرنا ختم ہو گیا تھا۔ اس بار اعلان تو یہی کیا گیا تھا کہ بے شک پانی پھینکیں ، لاٹھی چارج کریں، آنسو گیس چلائیں گرفتار کریں۔ علیمہ خان نے کہا کہ ہم نے گلیاں دیکھ لی ہیں، ہم گلیوں میں پناہ لیں اور پھر دوبارہ دھرنا دیں گے۔ لیکن دھرنا ختم نہیں کیا جائے گا۔ تا ہم پانچ منٹ کے واٹر کینن کے بعد ہی دھرنا ختم ہوگیا۔ سب ہنسی خوشی گھروں کو چلے گئے۔ لاٹھی چارج، آنسو گیس اور گرفتاریوں کی نسبت واٹر کینن سے پانی پھینکنا دھرناختم کرنے کا سب سے نرم طریقہ ہے۔
سوال یہ ہے کہ دھرنے کامیاب ہیں یا ناکام۔ اگر دھرنوں کا مقصد حکومت کو ملاقاتیں کھولنے پر مجبور کرنا ہے تو میری نظر میں چار ہفتوں سے جاری دھرنے ناکام ہیں۔ بانی تحریک انصاف کی بہنیں تو پہنچ رہی ہیں لیکن صرف ان کا پہنچنا کافی نہیں ہے۔ ناکامی کی وجوہات تلاش کرنا ہوں گی ورنہ دھرنوں کا ہتھیار ختم ہو جائے گا، اپنی وقعت کھو دے گا۔ پہلی بات کسی بھی دھرنے کی کامیابی کے لیے بنیادی ضروری ہے،وہ ہے عوام کی شمولیت ۔ عوام کی شمولیت کے بغیر کوئی بھی دھرنا کامیاب نہیں ہو سکتا ۔ پہلا سوال ہے کتنے لوگ ہیں۔ فی الحال اسی پہلے نقطے پر ہی ناکامی ہے۔ لوگ نہیں ہیں، تعداد بہت کم ہے۔ عوام چار ہفتوں سے نہیں آرہے۔ شدید کوشش کے باوجود لوگ اڈیالہ نہیں آئے۔
اگر لوگ آجائیں تو پھر ہی اگلے سوال پیدا ہوں گے۔ جن میں پھر انتظامات کا سوال ہوگا، آپ لوگوں کو کتنی دیر بٹھا سکتے ہیں۔ اگر لوگ آئیں اور چلے جائیں تو بھی دھرنا ناکام ہی تصور ہوگا۔ اس لیے جہاں بڑی تعداد میں لوگوں کو لانا ضروری ہے۔ وہاں انھیں ہدف حاصل ہونے تک بٹھانا بھی ضروری ہے۔ ابھی تک چار ہفتوں سے تحریک انصاف اور بالخصوص علیمہ خان دھرنے کے لیے کسی بھی قسم کے انتظامات کرنے میں بھی ناکام ہیں۔ وہاں نہ کھانے پینے کا کوئی انتظام ہوتا ہے۔ لوگ کب تک بھوکے پیاسے بیٹھ سکتے ہیں۔ شدید سردی میں موسم سے نبٹنے کا بھی کوئی انتظام نہیں ہوتا۔ لوگ واش روم کے لیے کہاں جائیں۔ اس لیے دھرنے کا اعلان کرنا بہت آسان ہے لیکن ایک دھرنے کو کامیاب بنانا بھی ایک کام ہے۔
اسی لیے کہا جاتا ہے کہ سہولت کاری کے بغیر دھرنے کامیاب نہیں ہو سکتے، وسائل کے بغیر دھرنے کامیاب نہیں ہوتے۔ لیکن یہ سب ضروری ہیں جب عوام ہوں، عوام ہی نہ ہوں تو وسائل بے معنی ہیں۔
علیمہ خان کے بارے میں یہ تاثر دیا جا رہا ہے کہ وہ بانی تحریک انصاف کی متبادل ہیں۔ فی الحال تحریک انصاف کا سوشل میڈیا بھی انھی کو بانی کا متبادل بنا کر پیش کر رہا ہے۔ انھوں نے آہستہ آہستہ تحرک انصاف پر اپنی گرفت مضبوط کر لی ہے۔ علیمہ خان کے سیاسی مخالفین کو آہستہ آہستہ گھر بھیج دیا گیا ہے۔ آج تحریک انصاف کی نئی سیاسی کمیٹی ان کے حامیوں کی ہے۔ سلمان اکرم راجہ کی کارکردگی کو بہترین استعمال کرتے ہوئے علیمہ خان نے تحریک انصاف کو کافی حد تک کنٹرول کر لیا ہے۔ اس لیے اگر دیکھا جائے تو سوشل میڈیا بھی ان کے ساتھ ہے اور اب تحریک انصاف بطور جماعت بھی ان کے قبضہ میں ہے۔ تحریک انصاف کے وسائل بھی ان کے کنٹرول میں ہیں۔ بیرسٹر گوہر عملی طور پر علیمہ خان کے سامنے سرنڈر کر چکے ہیں۔ وہ پہلے بانی کے ڈمی چیئرمین تھے، اب وہ علیمہ خان کے ڈمی چیئرمین ہیں۔
علیمہ خان کی سب سے بڑی سیاسی کامیابی کے پی کے، کی حکومت پر اپنا قبضہ تھا۔ ان کی اور گنڈا پور کی نہیں بنتی تھی۔ دونوں کی سرد جنگ زبان زد عام رہی۔ گنڈا پور علیمہ کے مخالف تھے اور علیمہ خان گنڈا پور کی مخالف تھیں۔ اس جنگ میں بھی علیمہ خان ہی فاتح رہی ہیں ۔ وہ گنڈا پور کو ہٹانے اور اپنی مرضی کا وزیر اعلیٰ لانے میں کامیاب ہو گئی ہیں۔ اب کے پی کا وزیر اعلیٰ بھی ان کا ہے۔ ان کے مخالفین کو نہ صرف سیاسی کمیٹی بلکہ ان کو کے پی حکومت سے بھی نکال دیا گیا ہے۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ اس وقت تحریک انصاف اور کے پی حکومت پر علیمہ خان کا مکمل کنٹرول نافذ ہوچکا ہے۔
لیکن اس سب کے باوجود علیمہ خان کے لیے مسائل کم نہیں ہوئے۔ اس وقت سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ عوام ان کی نہیں سن رہے۔ انھوں نے قیادت تو سنبھال لی ہے لیکن عوام میں ان کو قبولیت نہیں مل رہی۔ انھوں نے تحریک انصاف کی سیاسی قیادت کو تو تابع کر لیا ہے لیکن لوگوں کو کہاں سے لائیں۔ لیڈرز کی پہلی نشانی یہی ہے کہ عوام اس کے ساتھ ہیں ۔ محلاتی سازشوں سے عوامی قیادت نہیں ملتی، یہ ایک مشکل کام ہے۔ آج علیمہ خان کا مسئلہ یہی ہے کہ لوگ ان کی نہیں سن رہے۔
وہ لوگوں کو پکار پکار کر اڈیالہ پہنچنے کی کال دے رہی ہیں لیکن لوگ نہیں آرہے۔ یہ ان کی قیادت کا پہلا ٹیسٹ تھا جس میں وہ فیل ہو رہی ہیں۔ تحریک انصاف کا حامی ان کی کال پر لبیک نہیں کہہ رہا۔ وہ لوگوں کو اڈیالہ بلا رہی ہیں لوگ نہیں آرہے۔ وہ کب تک اس کاملبہ دوسروں پر ڈالتی رہیں گی۔ انھوں نے بھارتی میڈیا کو انٹرویو دے دیے۔ سوشل میڈیا سے منگل کو اڈیالہ پہنچنے کی مہم چلائی جاتی ہے۔ وہ میڈیا سے بات کر کے لوگوں کو آنے کی اپیل کرتی ہیں۔ لوگ نہیں آرہے۔ اب تو سب ان کے قبضہ میں ہے۔ اب تو کسی کا کوئی قصور نہیں ۔ وہ عوامی لیڈر کے ٹیسٹ میں ہر منگل کو فیل ہو رہی ہیں۔ اگر لوگ باقی قیادت کے کہنے پر نہیں آتے تو علیمہ خان کے کہنے پر بھی نہیں آرہے۔ فرق کیا ہے۔ علیمہ میں خاص بات کیا ہے۔ وہ بھی باقی جیسی ہیں۔