شام اور خون کی کہانی

شہلا اعجاز  پير 12 مارچ 2018
 shehla_ajaz@yahoo.com

[email protected]

شام کی صورتحال بد سے بدتر ہوتی جا رہی ہے اور مسلم امہ تماشائی بنی دیکھ رہی ہے کیونکہ شام کے جنگی میدان میں بڑی طاقتیں اپنا زور لگا رہی ہیں اور اس طاقت کے میدان میں صرف انسانی جانیں ضایع جا رہی ہیں۔ گزشتہ کچھ عرصے میں شام کے دارالحکومت دمشق کے نزدیکی علاقے غوطہ میں انسانی جانوں کی ہلاکتیں آٹھ سو سے زائد ہوچکی ہیں، لیکن جنگ بندی کی آواز پر کوئی بھی طاقت عمل کرنے پر رضامند نہیں نظر آتی۔

2011 میں شام میں بغاوت کی فضا اٹھی تھی اس وقت شیعہ اقلیتی گروپ کے بشار الاسد شام کے حکمران ہونے کے ساتھ ہی ان طاقتوں کے ساتھ بھی فوجی روابط میں رہے جنھیں دنیا بھر میں خاص کر امریکا کی نظروں میں نیوکلیائی ہتھیاروں اور امریکا کو کھلی دھمکی دینے کے حوالے سے تحفظات رہے ہیں۔ نارتھ کوریا اور شام کی نہ صرف حکومتوں بلکہ فوجی طاقتوں کے حوالے سے روابط اور اعلیٰ ماہرین کے حوالے سے خاصے دوستانہ تعلقات رہے جو اب کھل کر سامنے آرہے ہیں۔

اقوام متحدہ کے ماہرین نے اس سلسلے میں ایک رپورٹ تیار کی ہے جس میں یہ بات ثابت ہو رہی ہے کہ شام نے اپنے ہی ملک میں باغیوں کو کچلنے کے لیے جس قسم کے کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال کیا ہے اسے بنانے اور اس کی پیداوار میں استعمال ہونے والے مواد میں جنوبی کوریا کی خدمات رہی ہیں۔

دو سو صفحات سے زائد اس رپورٹ میں شام اور کورین کمپنیوں کے درمیان کنٹریکٹ اور کیمیائی اور ہلاکت خیز مواد کی سپلائی کے بلز بھی شامل ہیں جو ان میٹریل کی ادائیگی کے سلسلے میں ادا کیے گئے۔ یہ انکشاف دنیا کے لیے زیادہ حیران کن ہیں کہ ان دونوں ممالک کے درمیان اس قسم کے روابط کوئی نئے نہیں بلکہ پچھلی کئی دہائیوں پر محیط ہیں۔

ایک امریکی اخبار کے مطابق اسرائیل اور عرب کی جنگوں میں شام اور کوریا کی اس دوستی نے اپنا کردار ادا کیا یہ جنگیں جو 60 اور 70 کے عشرے میں لڑی گئیں ان میں شامی ایئرفورس کے پائلٹوں کے ہمراہ نارتھ کوریا کے پائلٹوں نے بھی کئی مشن سر انجام دیے۔ صرف یہی نہیں بلکہ نارتھ کوریا کے ماہرین نے شام میں نیوکلیئر پاور پلانٹ لگانے میں اہم کردار ادا کیا تھا یہ پلانٹ پلاٹونیم جیسے تابکار مادے کو بنانے کی صلاحیت رکھتا تھا جس سے انسانی ہلاکتوں میں اضافے کے لیے مزید تباہ کاریاں عمل میں آ سکتی تھیں اس پلانٹ کو اسرائیل نے 2007 میں تباہ کردیا تھا۔

شام کی سرزمین اندرونی اور بیرونی خلفشاروں میں گھری آگ اور خون کے کھیل کے ختم ہونے کی منتظر ہے اس جنگ میں جہاں ایک جانب بشار الاسد کی مدد میں ایران اور روس ہے تو دوسری جانب امریکا اور سعودی عرب بھی اس مزاحمت میں اپنی طاقت لگا رہے ہیں۔

اقوام متحدہ کی جانب سے ایک مہینے کے لیے جنگ بندی کے لیے اپیل کی گئی ہے تاکہ دونوں جانب سے مزاحمت یا حملہ نہ کیا جاسکے اور مظلوم عوام کے لیے امدادی کارروائیاں کی جاسکیں لیکن دونوں جانب سے ایک دوسرے پر بیان بازی اور حملوں کی صورتحال میں کوئی کمی نہ آسکی ہے۔ اس بری حالت میں متاثرین غوطہ سرفہرست ہیں جہاں مرنے والوں میں بچوں کی تعداد زیادہ ہے امدادی کارروائیاں نہ ہونے کے باعث صورتحال ابتر ہے اور لوگ پناہ کے لیے سرگرداں ہیں۔

حملے سے پہلے شہریوں سے جگہ خالی کرنے کے لیے کیا گیا تھا لیکن اتنی بڑی تعداد میں شہری انخلا کا عمل کیسے کرسکتے ہیں ایسے میں باغیوں کی نشاندہی کرکے انھیں نشانہ بنانا ایک خوفناک عمل ہے لیکن یہ عمل بار بار دہرایا جا رہا ہے جس میں باغیوں کی تعداد سے زیادہ معصوم شہری نشانہ بن رہے ہیں عمارات تباہ ہوچکی ہیں یہاں تک کہ علاج معالجے کے حوالے سے بھی حالات دگرگوں ہیں۔

غوطہ شام کے دارالحکومت دمشق کے مشرق میں ایک مضافاتی علاقہ ہے جہاں سے روز لوگ دمشق کاروبار زندگی کے لیے جایا کرتے تھے یہ ایک ایسا علاقہ تھا جو کبھی زندگی سے بھرپور تھا لیکن جب شام میں بشارالاسد کی حکومت کے خلاف آواز اٹھی اور باغی اٹھ کھڑے ہوئے تو غوطہ سے بھی عوام نے باغیوں کا ساتھ دیا۔

دمشق سے نزدیک ترین ہونے کے باعث اسے ایک محفوظ اور آسان راستہ سمجھا گیا تھا کہ جس کے ذریعے باغی دمشق پر قبضہ کرسکیں گے پر ایسا نہ ہوسکا اور سرکاری فوج اور باغیوں کے درمیان ایک جنگ چھڑ گئی یہاں تک کہ سرکاری افواج نے علاقے کا محاصرہ کرلیا یہ صورتحال غوطہ کے رہنے والوں کے لیے نہایت تکلیف دہ تھی۔ اس طرح خوراک اور علاج و معالجے کی سہولیات گھٹتی گئیں اور محاصرہ پانچ برسوں پر محیط رہا، باغیوں کا ساتھ دینے کی پاداش میں اہل غوطہ نے سختیاں برداشت کیں، شام کی حکومت نے اپنی طاقت میں اضافے کے لیے ایران اور حزب اللہ کی مدد مانگی یوں یہ دونوں باغیوں کو فنا کرنے کے لیے میدان جنگ میں کود پڑے۔

ادھر باغیوں کا ساتھ دینے کے لیے امریکا نے بھی ہتھیاروں کی سپلائی کے ذریعے شامی حکومت اور ایران کے سامنے مزاحمتی کارروائی برقرار رکھی۔ اسی دوران کیمیائی ہتھیار کے استعمال سے شام کی ایک بڑی آبادی متاثر ہوئی جس کے شاخسانے جنوبی کوریا سے ملتے ہیں۔ باغیوں کے اندر اس محاصرے سے بے چینی اور پھوٹ پھیلتی گئی اور یہاں بھی مختلف گروپس بن گئے، یعنی داعش، القاعدہ ، انصرہ فرنٹ نے مختلف انداز میں کارروائیوں کو اپنایا، ان گروپس کے حامی بھی مختلف انداز سے کام کر رہے ہیں۔

چوبیس فروری کو سیکیورٹی کونسل نے جنگ بندی کی درخواست کی یہ درخواست تیس دنوں کے لیے کی گئی تھی تاکہ متاثرین جنگ کو امداد فراہم کی جائے، پر کوئی شنوائی نہ ہوسکی ۔ سیکیورٹی کونسل کے رکن کہتے رہے ’’ہمیں اطلاعات ملی ہیں کہ اب بھی جنگی کارروائی جاری ہے۔‘‘

یہ جنگی کارروائیاں ہزاروں گھروں کو مسمار کرچکی ہیں، کئی سو افراد معذوری کا شکار ہوچکے ہیں، کاروبار ختم ہوچکا ہے، پورا علاقہ دکھ، آنسوؤں اور خون سے رلا ملا فریاد کر رہا ہے کہ موت کے اس کھیل کو اب ختم کیا جائے، طاقتوں کے استعمال کے لیے انسانی بستیوں کو نہ اجاڑا جائے۔

تمام بڑی طاقتوں کے اپنے اپنے مفادات ہیں سب اپنے لیے سوچتے ہیں، دنیا بھر سے لوگ اور بڑی شخصیات اس خون کی جنگ پر چیخ رہے ہیں لیکن پھر بھی ہاتھی اور شیر کی اس جنگ میں کسی کی آواز نہیں سنی جا رہی، سب صرف آگ برسانے والوں کو دیکھ رہے ہیں، خدا کرے انسانوں کی بستیوں میں انسانوں کو پیدا کرنے والے کی رحمت سے ان کا قانون رائج ہوجائے۔ آمین

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔