ایک سیاست کئی تماشے

عقیل احمد  جمعرات 15 مارچ 2018
عوام بڑی آس اور امید سے اپنے نمائندے  اسمبلیوں میں بھیجتے ہیں جو بعد میں انہیں بھول جاتے ہیں۔
فوٹو: انٹرنیٹ

عوام بڑی آس اور امید سے اپنے نمائندے اسمبلیوں میں بھیجتے ہیں جو بعد میں انہیں بھول جاتے ہیں۔ فوٹو: انٹرنیٹ

پیارے پاکستان میں ترقی یافتہ ممالک کی طرح شیڈو کیبنٹ بنانے کا رواج تو کبھی رہا ہی نہیں کہ حکومتی وزراء اور شیڈو وزراء کے مابین کوئی فائدہ مند بحث پڑھنے یا سننے کو ملے۔ ادھر تو سیاست کرنے کا سنہرا اصول یہ ہے کہ جب آپ اپوزیشن میں ہوں تو ہر کام میں حکومت پر تنقید کیجیے، اسمبلی میں شور شرابہ کیجیے کہ حکومت کو کب عقل آئے گی، ملک ڈوب رہا ہے اور حکومت سو رہی ہے، قرضے پر قرضہ لیا جارہا ہے وغیرہ۔ اسی دوران سینیٹ الیکشن میں ووٹ بیچ کر نوٹ کمائے جائیں اور منجن بیچنا دوبارہ وہیں سے شروع کردیجیے۔ اگر آپ حکومت میں ہیں تو آپ کو ملک کے سب سے بڑے دشمن اپوزیشن کی صفوں میں نظر آنے چاہئیں جو ہر حال میں حکومت گرانا چاہتے ہیں۔ حکومتی اراکین کے نزدیک ان کا رتبہ ایک پاگل سے بڑھ کر کچھ نہیں ہوتا۔

حکمرانی کے دن ختم ہوں گے تو عوام کا درد جاگ اٹھے گا، اٹھتے بیٹھتے غریب عوام کے حق میں بیانات جاری کیے جائیں گے، مختلف اجتماعات میں باقاعدگی سے آبدیدہ ہوا جائے گا اور ساتھ میں مستقبل کے حوالے سے سہانے خواب عوام کو دکھانا بالکل نہیں بھولیں گے۔

برصغیر پر جب انگریز راج تھا تو لدھیانہ میں کیمونسٹ پارٹی کا ایک کل وقتی کارکن ہری سنگھ کھنڈہ تھا۔ اسے کسی تحریک کے دوران دوسرے لوگوں کے ساتھ گرفتار کرلیا گیا اور شہر سے تین چار سو میل دور لے جاکر چھوڑ دیا گیا۔ تیسرے روز وہ کسی نہ کسی طرح واپس پہنچا مگر پھر تین چار روز کےلیے غائب ہوگیا۔ جب بالآخر اسے ڈھونڈ کر غائب رہنے کی وجہ پوچھی گئی تو اس کا بیان تھا کہ تیسرے روز میں جب لدھیانہ اسٹیشن پر اترا تو ہفتہ وار ’’سندیش‘‘ کا تازہ شمارہ بک رہا تھا اور ہاکر نعرے لگا رہا تھا ’’کامریڈ ہری سنگھ کھنڈہ گرفتار کرلیے گئے‘‘ اس لیے میں نے صافے سے منہ ڈھانپا اور دور ایک رشتے دار کے گھر جاکر چھپ گیا تاکہ لیڈری کا چرچا ہوسکے۔

برسوں پہلے پڑھا ہوا یہ واقعہ اس لیے یاد آیا کہ سابق وزیراعظم کو آج کل عوام سے گھلنے ملنے کا شوق چرایا ہے اس لیے وہ کبھی تو موٹروے پر کلر کہار کے ریسٹ ایریا میں بچوں کے ساتھ باتیں کرتے پائے جاتے ہیں اور کبھی بیکری میں گپ شپ کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ کمپنی کی مشہوری ہورہی ہے۔ ہمدردیاں اکٹھی کی جارہی ہیں کہ اب جو صورت حال ہے، کچھ حلقوں کے طرف سے واضح اشارے ملنا شروع ہوگئے ہیں کہ نیب سے سزا ہوسکتی ہے تو کیوں نہ مظلومیت کا رونا پیٹنا وہیں سے شروع کیا جائے جو لندن چھوڑ کر پاکستان آتے ہی رک گیا تھا، تاکہ لیڈری کی شوشا تو باقی رہے؛ وگرنہ بیکری والوں نے تو وہ برا وقت بھی دیکھا ہے کہ جب پسندیدہ کیک نہ ملنے کی صورت میں سرعام پٹائی لگوائی جاتی تھی کہ سند رہے اور بغرض نصیحت یاد رہے کہ حکمران اور ان کی آل اولاد کیسی ہوتی ہے۔

عوام بڑی آس اور امید سے اپنے نمائندے منتخب کرکے اسمبلیوں میں بھیجتے ہیں تو آپ بطور وزیراعظم انہیں لفٹ ہی نہیں کرواتے، پارلیمنٹ میں داخل ہوئے چھ چھ مہینے گزرجاتے ہیں اور جب برا وقت آتا ہے تو عدالت کے باہر کھڑے ہوکر پوچھتے ہیں وہ فلاں چودھری کدھر ہے، فائل پکڑا کر کھسک گیا، آج کل نظر کیوں نہیں آرہا؟ تو بات یہ ہے جناب والا کہ پرانے زمانوں میں بعض جنگوں میں لشکروں کی پہلی قطار اس طرح میدان میں اتاری جاتی تھی کہ اس میں شامل کیے گئے مسلح سپاہی ایک دوسرے کے ساتھ زنجیروں میں جکڑے ہوتے تھے۔ وہ سپاہی نہ تو بھاگ سکتے تھے اور نہ ہی پیچھے ہٹ سکتے تھے، وہاں یا تو دشمن کو کاٹنا ہوتا تھا یا خود کو کٹوانا۔

لیکن وقت نے کروٹ لی ہے تو اب ’’قدم بڑھاؤ‘‘ کے نعرے لگانے والے تو بے شمار ملیں گے لیکن قدم بڑھانے والے معدودے چند۔ اس سب کو دیکھتے ہوئے حکمت عملی میں بھی تبدیلی آئی ہے کہ قدم آگے بڑھا کر پھانسی کی سزا پانے یا جلاوطن ہونے سے کئی گنا بہتر حربہ ہے کہ دن رات مظلومیت کا رونا رویا جائے، خود کو مسیحائے اعظم کے روپ میں پیش کیا جائے، جذباتی ووٹر کو ہر ممکن حد تک مشتعل کیا جائے کہ وہ آنکھیں بند کرکے آپ کی باتوں پر آمین کہتا رہے اور اگلے پانچ سال کےلیے بےوقوف عوام کو مزید بےوقوف بنایا جائے۔

رسم و رواج کے مطابق کچھ مہینوں بعد وطن عزیز میں وہی سیزن شروع ہونے والا ہے جب محمود و ایاز ایک ہوجاتے ہیں۔ تو کہنا بس اتنا ہے کہ اے پیارے ایازو! محمودوں کی اس لڑائی میں دو دو تین تین سال تک اپنے رابطے منقطع نہ کرلیجیے گا۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ[email protected] پر ای میل کردیجیے۔

عقیل احمد

عقیل احمد

بلاگر کا تعلق ٹوبہ ٹیک سنگھ سے ہے۔ لکھنے سے زیادہ پڑھنے کے شوقین ہیں لیکن کبھی کبھار لکھ ہی لیتے ہیں۔ ان کی ٹوئٹر آئی ڈی @aqeelfhr جبکہ فیس بک پر aqeelfhr آئی ڈی کے ساتھ موجود ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔