اٹک NA59 NA58 NA57

یہاں سیاستدانوں کا وفاداریاں بدلنا نئی بات نہیں۔


ندیم رضا خان April 09, 2013
یہاں سیاستدانوں کا وفاداریاں بدلنا نئی بات نہیں۔ فوٹو: فائل

دنیا کی قدیم ترین تہذیبوں اور مختلف ادوار سے گزرنے والا پنجاب کا آخری ضلع اٹک جس کی سرحدیں خیبرپختونخوا کے مختلف اضلاع کے علاوہ اسلام آباد ،راولپنڈی ،چکوال سے ملتی ہیں قدرتی معدنیات ،جنگلات ،قدرتی وسائل سرسبز باغات لہلہاتے کھیتوں بلند و بالا پہاڑوں ،وادیوں ،ریتلے علاقے اور سخت زمین پر مشتمل ضلع اٹک ہمیشہ سے سیاسی لحاظ سے دوسرے اضلاع سے نمایاں رہا ہے ۔

اس ضلع کی قومی اسمبلی میں تین اورپنجاب اسمبلی کیلئے پانچ نشستیں ہیں۔ 2008ء میں این اے57سے مسلم لیگ (ن) کے شیخ آفتاب احمد،این اے58سے مسلم لیگ ق کے چوہدری پرویز الٰہی، این اے 59 سے پیپلزپارٹیکے سلیم حیدر منتخب ہوئیاورانہیں وفاقی کابینہ میں وزیر مملکت برائے دفاعی پیداوار کا قلم دان سونپا گیا۔ پنجاب اسمبلی کی 5نشستوں پر حلقہ پی پی 15سے پی پی پی کے ملک شاہان حاکمین خان،پی پی 16سے آزاد امیدوار کرنل(ر) شجاع خانزادہ منتخب ہوئے اور مسلم لیگ (ن )میں شامل ہو گئے۔

پی پی 17سے مسلم لیگ (ق) کے ٹکٹ پرنواب چوہدری شیر علی خان منہاس منتخب ہوئے جواب مسلم لیگ (ن) میں شامل ہوچکے ہیں۔ پی پی 18سے پی پی پی کے ملک خرم علی خان منتخب ہوئے۔پی پی19سے سابق ایم این اے ملک اللہ یار خان آف کھنڈاکے بیٹے کیپٹن ملک اعتبار خان منتخب ہوئے جو بعد ازاں فارورڈ بلاک میں شامل ہو گئے اور اس وقت مسلم لیگ(ن)میں شامل ہیں۔



میجر طاہر صادق کے پینل سے نائب ضلع ناظم منتخب ہونے والے ملک لال خان کے بیٹے ملک سہیل خان کمڑیال مسلم لیگ (ن)میں جانے کے بعد اب اسے بھی چھوڑ کر تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کرچکے ہیں، سابق ضلعی صدر مسلم لیگ (ن) شاویز خان جو 12اکتوبر1999ء کے بعد مسلم لیگ (ن) کے لیے سرگرم رہے کچھ عرصہ مسلم لیگ (ق) میں رہے۔اب وہ دوبارہ مسلم لیگ (ن) میں شامل ہوچکے ہیں ،ٹکٹ نہ ملنے اور دیگر مفادات حاصل نہ ہونے پر اٹک میں پارٹیاں بدلنا کوئی نئی بات نہیں۔

2002ء کے انتخابات میںمنتخب ہونے والی قومی اسمبلی کی تینو ں نشستیں مسلم لیگ (ق) کے ملک امین اسلم خا ن ،ملک اللہ یا ر خا ن آف کھنڈ ا ،اور چوہد ری شجا عت حسین کی بھا نجی سا بق ضلع نا ظم کی بیٹی بیگم ایما ن وسیم نے حا صل کیں۔بیگم ایما ن وسیم نے یکم جو لا ئی 2004کو قو می اسمبلی کی نشست سے استعفیٰ دیااور اس نشست پر سا بق وزیر اعظم شو کت عزیز ضمنی انتخا ب میں منتخب ہو ئے اور 20اگست 2004کو قو می اسمبلی کی نشست کا حلف اٹھا یا اور اسمبلی کے مدت پو ری ہو نے تک وزیر اعظم کے عہد ے پر فا ئز رہے۔

اٹک کی سیاسی تاریخ پرنظرڈالیں توکو نسل آف دی لیفٹیننٹ گو رنر آف دی پنجا ب کی تیسر ی کو نسل (چا ر جنو ری 1913 سے 19 اپریل 1916 تک) میںما لکا ن شمس آبا د کے جد ِ امجد سر ملک محمد امین خا ن آف شمس آبا د ممبر کے طو ر پر کا م کر تے رہے، جو اس دور کا بہت بڑ ا اعزاز تھا۔پا نچو یں کو نسل جس کا دورانیہ 12جو ن 1916سے 6اپر یل 1920تک تھا اس میں بھی یہ ممبر کے طو ر پر کا م کر تے رہے ۔ بعد ازاں اسے پنجا ب قا نو ن سا ز کو نسل کا نا م دیا گیا، اس میں پہلی کو نسل جو 8 جنو ری 1921سے 27اکتوبر 1923تک کا م کر تی رہی ۔

اس میں سرسردار سکند ر حیا ت خا ن آف واہ جنہیں لیفٹیننٹ ایم بی ای کا ٹا ئیٹل دیا گیانے بطو ر ممبر کا م کیا اور وہ دوسر ی کو نسل جس کا دورانیہ 2جنو ر ی 1924سے 27اکتو بر 1926تک تھا کا م کر تے رہے تیسر ی کو نسل میں جس کا دورانیہ 3جنو ری 1927سے 26جو لا ئی 1930تک تھا سر ملک محمد امین خا ن آف شمس آبا د جنہیں فر نگی سر کا ر نے خا ن بہا در او بی ای کا خطا ب دیا انہو ں نے کا م کیا۔ 5اپر یل 1937کو معر ض وجو د میں آنے والی پہلی پنجا ب قا نو ن سا ز اسمبلی میںپیر آف مکھڈ پیر محی ا لدین لعل با دشا ہ اٹک ،جنو بی ،سرمیجر سر دار محمد نو ازخا ن وسطی اٹک، خا ن بہادر نو اب مظفر خا ن سی آئی ای اٹک جنو بی سے سرمیجر سردار سکند ر حیا ت خا ن بطور ممبر منتخب ہو ئے۔



کے بی ای جو ہند وستا ن کے ضلع سے منتخب ہو ئے انہیںپہلی پنجا ب اسمبلی میں وزیر اعلی ٰ کے طو ر پر منتخب کیا گیا۔ 1937سے 1942تک اس عہد ے پر کا م کر تے رہے۔ قیام پا کستان کے بعد پہلی قا نو ن سا ز اسمبلی جس کا دورانیہ 15اگست 1947سے 25جنو ری 1949تک رہا میں بھی یہی لو گ ممبر کے طور پر منتخب ہو ئے جبکہ سر دار شو کت حیا ت خا ن کو پنجا ب اسمبلی کی پہلی کا بینہ میں وزیر ما ل کا قلم دان سو نپا گیا ۔پا کستا ن میں جمہور یت کی حقیقی بحا لی کے بعد سا تو یں پنجا ب اسمبلی جس کا دورانیہ 2 مئی1972ء سے 13جنو ری 1977ء تک رہا میںملک حا کمین خان ،ملک فتح خان، ملک محمد مظفر خا ن،منو ر خان آف بھکوی، تاج محمد خا نزادہ منتخب ہوئے۔

شہنشاہ اکبر کے دور میں تعمیر ہونے والا تاریخی قلعہ اٹک بھی یہیں موجودہے جس میں 1902ء میں انگریز فوجی افسر کے ہاں پیدا ہونے والا بچہ بعد ازاں برطانیہ کا وزیراعظم بنا،اسی اٹک قلعہ میں صدر آصف علی زرداری ، قائد مسلم لیگ (ن) محمد نواز شریف ، سابق وزیر اعلی سردار مہتاب خان ، وزیر اعلی کے پی کے امیر حیدر ہوتی کے والد سابق وفاقی وزیر مواصلات اعظم خان ہوتی ، ایم کیو ایم کے مرکزی رہنما ڈاکٹر فاروق ستار ، سابق چیئرمین احتساب بیورو سیف الرحمن ، وزیر اعلی پنجاب محمد شہباز شریف ، سابق صوبائی وزیر پنجاب شیخ اعجاز،سابق ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل ایف آئی اے احمد ریاض شیخ ، دیگر سیاسی شخصیات اور سرکاری افسران کے خلاف مقدمات قائم کر کے یہاں احتساب عدالت قائم کی گئی۔محمد نوازشریف، خادم اعلیٰ پنجاب محمد شہباز شریف ،سابق آئی جی سندھ رانا مقبول،سابق پرنسپل سیکرٹری سعید مہدی اور دیگر افراد جو طیارہ سازش کیس میں ملزم کی حیثیت سے گرفتا ر تھے کو پیش کیاگیا۔پی اے سی کامرہ ایئرپورٹ سے نواز شریف ، شہباز شریف رانا مقبول ، سیف الرحمان اور سعید مہدی کو طیارے میں ہتھکڑیاں لگا کر کراچی پہنچایا گیا۔ مرحوم اے ایس پی حسن رضا نے ہتھکڑیا ں لگانے سے انکار کر دیا تھا۔

اس پیشی کے بعد اٹک قلعہ کا عقوبت خانہ جو ایک حساس ادارے کی بڑی تربیت گاہ تھی، اس میں بیرک بنائی گئی جہاں محمد نواز شریف کو رکھا گیا، ان پر اٹک قلعہ میں قائم کی گئی احتساب عدالت میں ایم آئی 8 ہیلی کاپٹر کا کیس چلایا گیا جس میںا نہیں اسی عدالت نے سزاد ی اور سزاد ینے والے جج کو بعد ازاں ترقی دے کر ہائیکورٹ کا جج بنا دیا گیا۔

اسی احتساب کورٹ کے دیگر 2ججوں کو بھی سیاست دانوں کو سزا دینے کا اعزاز حاصل ہوا اور یہ دونوں جج بھی ترقی پاکر ہائیکورٹ کے جج بنے اسی احتساب عدالت میں سرکاری وکیل کے طور پر پیش ہونے والے نیب کے پراسیکیوٹر اس وقت سپریم کورٹ کے جج ہیں۔ سپاہ صحابہ کے رہنما سابق رکن قومی اسمبلی مولانا محمداعظم طارق شہید ،پیپلز پارٹی کے سابق مرکزی سیکرٹری جنرل سابق وفاقی وزیر غلام حسین ،سابق وزیر سینیٹر ملک حاکمین خان ،سابق سینیٹر شیخ وحید اختر مرحوم، سابق رکن قومی اسمبلی لال خان کمڑیال اور دیگر شخصیات بھی یہاں قیدرہیں۔

اٹک کے غیور عوام نے قیام پاکستان کے بعد اپنی لاکھوں کنال اراضی مختلف دفاعی اداروں کو مارکیٹ ریٹ سے کم پر دی،سنجوال آرڈننس فیکٹری ،پی اوایف سنجوال پیکج فیکٹری، آرٹلری سنٹر اٹک، پاکستان ایروناٹیکل کمپلیکس کامرہ ،آزاد کشمیر رجمنٹل سنٹر،مانسر کیمپ ،سپیشل سروسز گروپ اور دیگر دفاعی اداروں کو یہاں کے مکینوں نے اپنی سونا اگلتی زمین سستے داموں دی اور آج یہی لوگ اپنے ہی آبائی گھروں کو جانے کے لیے راستہ نہ ملنے کے سبب مشکلات سے دوچار ہیں۔

مقبول خبریں