سابقہ جیون ساتھی کو برا بھلا کیوں کہا جاتا ہے

ہمارے ہاں کسی کی طلاق یا شادی شدہ زندگی کا ناکام تجربہ معاشرے کے باقی لوگوں کےلیے ایک پر لطف تماشے کی حیثیت رکھتا ہے


مریم نسیم April 01, 2018
اکثر صورتوں میں طلاق ظلم یا زیادتی کے بعد ہی وقوع پذیر ہوتی ہے۔ فوٹو: انٹرنیٹ

گزشتہ دنوں عمران خان اپنی تیسری شادی کی وجہ سے خبروں کا مرکزی موضوع بنے ہوئے تھے اور لوگ جمائما، ریحام خان اور ان کی موجودہ بیوی کا تقابل کرتے ہوئے سوشل میڈیا پر بہت کچھ لکھ رہے تھے۔ مشہور شخصیات یا سیلیبریٹیز کی زندگی شاید دنیا بھر میں کہیں بھی ان کی ذاتی تصور نہیں کی جاتی، اسی لیے عمران خان کی ذاتی زندگی کے بارے میں بھی بے لاگ تبصرے کیے جا رہے تھے۔

ان تبصروں میں طلاق کے بعد جمائما کے اچھے برتاؤ کو سراہا بھی جا رہا تھا اور ریحام خان کی عمران خان کے بارے میں الزام تراشیاں بھی موضوع بحث تھیں۔ ابھی تک ہر چند روز بعد ریحام خان کا اپنی سابقہ زندگی کے بارے میں ایک نیا بیان سامنے آ جاتا ہے جو عموماً مثبت پیرائے میں نہیں ہوتا۔ شاید سیاست سے وابستہ لوگوں کی اس طرح کی الزام تراشیوں میں کچھ سیاسی مقاصد بھی پنہاں ہوں، مگر ہمارے ہاں طلاق شدہ افراد کا تعلق خواہ کسی بھی شعبے یا طبقے سے ہو، عموماً طلاق کی صورت میں سابقہ جیون ساتھی پر الزامات کی بوچھاڑ کر دینا درست عمل گردانا جاتا ہے۔ کچھ روز قبل تو منیبہ مزاری پر ان کے سابقہ شوہر نے اس قسم کے الزامات کی وجہ سے ہتک عزت کا دعوی بھی دائر کر دیا تھا۔

اس سے انکار ممکن نہیں کہ طلاق ایک تکلیف دہ عمل ہے، طلاق کے بعد فونوں فریق ہی جذباتی انتشار، ذہنی دباؤ، مستقبل کے خدشات، ٹوٹ پھوٹ اور ایک صدمے کی کیفیت کا شکار ہوتے ہیں، بھلے طلاق زبردستی دی گئی ہو یا سوچ سمجھ کر یہ عمل انجام دیا گیا ہو کہ اب شادی کا رشتہ مزید نبھانا ممکن نہیں۔ کسی بھی صورت میں طلاق کو خوش کن عمل نہیں گردانا جاتا۔

اکثر صورتوں میں طلاق ظلم یا زیادتی کے بعد ہی وقوع پذیر ہوتی ہے۔ ایسے میں اس شخص کو اپنے قریبی رشتہ داروں اور دوستوں کے سہارے کی ضرورت بھی ہوتی ہے کہ جن کے ساتھ اپنے دل کی باتیں شئیر کرکے بھڑاس نکالی جاسکے، تاکہ وہ اپنے آپ کو دوبارہ سے نارمل زندگی کے لیے تیار کر سکے۔ مگر ہمارے ہاں یہ بات بھڑاس نکالنے اور سہارا لینے سے آگے بڑھ کر کیچڑ اچھالنے تک پہنچ جاتی ہے۔ ندقسمتی سے معاشرے کے باقی افراد اس پر مٹی ڈالنے کے بجائے کیچڑ اچھالنے کے نامناسب عمل میں شامل ہوجاتے ہیں اور اپنے آپ کو ایک منصف کی مسند پر خود ہی براجمان کر لیتے ہیں، طلاق شدہ شخص خواہ وہ مرد ہو یا عورت، اس سے اس ''جرم'' کی صفائی طلب کرنے کو اپنا حق تصور کرتے ہیں۔

یہ ہمارے معاشرے کا عمومی رویہ ہے۔ ہمارے ہاں کسی بھی فرد کی ذاتی زندگی، بالخصوص اس میں کسی بھی قسم کا ناکام تجربہ سماج کے باقی لوگوں کے لئے ایک پر لطف تماشے کی حیثیت رکھتا ہے۔

طلاق ہو جانے کے برسوں بعد بھی ہمارے معاشرے میں طلاق شدہ فرد کی طلاق کا ذکر ضرور کیا جاتا ہے۔ اگر اس کے سامنے نہ بھی ہو تو اس کی غیر موجودگی میں اس کے تعارف کے طور پر یہ حوالہ ضرور موجود ہوتا ہے۔ یہ منفی رویہ معاشرے میں شدت کے ساتھ موجود ہے۔ کہیں تو اس کی شدت اس قدر شدید ہے کہ اسے ایک کلنک کے ٹیکے کے طور پر مستقل طور پر کسی کی شخصیت اور کردار کے ساتھ جوڑ دیا جاتا ہے، اور کہیں اس کی شدت بس ایک حوالے تک ہی محدود رہتی ہے۔

ہمارے معاشرے میں کسی بھی ایسے شخص سے اس کی طلاق کی وجہ دریافت کرنا، اس کے بارے میں تبصرہ کرنا اور طلاق شدہ شخص کی شخصیت اور کردار پر الزام دھر دینا ایک بہت ہی آسان فعل ہے۔ معاشرے کے اس رویے کی وجہ سے طلاق شدہ فرد مجبور ہو جاتا ہے کہ وہ خود کو بے قصور ثابت کرے۔ وہ یہ ثابت کرے کہ وہ ناکام نہیں ہے بلکہ اس کو اس امر پر مجبور کر دیا گیا تھا کہ وہ طلاق کا انتخاب کرتا، اور اس کے لیے آسان اور سہل ترین طریقہ سابقہ جیون ساتھی کو برا کہنا اور اس کی ان خامیوں کو سامنے لانا ہے جن کو سامنے لانے سے شاید اردگرد کے افراد کی اس کے بارے میں منفی سوچ میں کچھ کمی آ سکے۔

ہمارے ہاں عمومی طور پر شادیاں والدین کی مرضی سے طے کی جاتی ہیں اور دو اجنبیوں کو ایک بندھن میں باندھ کر انہیں کہہ دیا جاتا ہے کہ انہیں یہ بندھن اب ساری زندگی نبھانا ہوگا، چاہے ان کی شخصیت میل نہ کھاتی ہو، یا ان کی زندگی کی ترجیحات مختلف ہی کیوں نہ ہوں، یہ بندھن توڑ دینا مسئلے کا حل نہیں گردانا جاتا۔ خاندان اور سماج کے دباؤ کی وجہ سے بہت جلدی طلاق تو واقع نہیں ہوتی، بعض صورتوں میں ایک شخص یا شادی کے بندھن میں بندھے دونوں افراد ایک سمجھوتے کے تحت رشتے کو کسی طرح گھسیٹتے جاتے ہیں اور بالآخر انتہائی ابتر صورتحال پر پہنچ کر یہ بندھن توڑنا ہی پڑتا ہے۔ اس کے بعد معاشرے میں ان سے جڑا ہر شخص اپنا فیصلہ سنانے کےلیے کہ آیا صورتحال واقعی ابتر تھی یا نہیں، پوری تفصیلات جاننا چاہتا ہے؛ نتیجہ پھر سے سابقہ جیون ساتھی کو برا بھلا کہنے اور اس کی کردار کشی پر ہی متنج ہوتا ہے۔

اس بارے میں میری اسلام آباد کے رہائشی علی (فرضی نام) سے بات ہوئی تو انہوں نے بتایا کہ طلاق کے بعد انہیں دور دراز کے رشتہ داروں نے خاص طور پر ریستورانوں میں کھانے پر مدعو کیا تاکہ ان سے ان کی طلاق کا قصہ سن سکیں۔ علی نے کہا کہ میں اس بارے میں تحفظات کا شکار تھا کہ کہیں لوگ مجھے ایک زیادتی کرنے والا شخص تو نہیں سمجھ رہے، اس لئے میں نے ہر ایک کے سامنے صفائی پیش کی کہ میری سابقہ جیون ساتھی میرے لیے کس حد تک بری ثابت ہوئیں اور میں نے کتنا کچھ برداشت کیا۔ انہوں نے بتایا کہ میں صدماتی کیفیت میں تھا اور اس بارے میں لوگوں کے سامنے بات کرنے سے میرا غصہ بڑھتا جاتا تھا اور میں جذباتی انتشار کا شکار ہونے کی وجہ سے ہمدردی اور تماش بینی کے بیچ فرق کرنے سے قاصر تھا اور اپنی سابقہ زندگی کے تمام واقعات لوگوں کے سامنے لے آیا۔

تانیہ (فرضی نام) نے اس بارے میں ایک مختلف رخ کے حوالے سے بات کی۔ اس نے بتایا کہ ان کی طلاق انتہائی ظلم اور زیادتی کے بعد وقوع پذیر ہوئی، مگر وہ اس حوالے سے بات کرنا پسند نہیں کرتی تھیں۔ کہتی ہیں کہ ایسے میں لوگوں نے ان کے پاس آ کر کچھ ایسی باتیں کیں کہ ان کا سابق شوہر ان پر طلاق دے دینے کے باوجود الزامات بھی لگا رہا ہے، تو ان الزامات کا جواب دینے کے لیے انہیں لوگوں کے سامنے اس کی کردار کشی کرنا پڑی۔ مگر اس کردار کشی کی جنگ کا ان کے بچوں کی شخصیت پر بہت منفی اثر پڑا اور وہ عدم تحفظ کا شکار ہو گئے۔

عام طور پر بچوں کی تربیت کرتے ہوئے ہم ان کی جذباتی تربیت ہر توجہ نہیں دیتے. اس لیے بڑے ہو جانے پر بھی بہت سے افراد یہ بات نہیں سمجھ سکتے کہ وہ اپنے جذبات کو مثبت طریقے سے کیسے قابو میں لائیں۔ دوسروں کے جذبات کا احترام کیسے کریں اور غصہ اور صدمہ کے جذبات کو کیسے مثبت رخ پر موڑیں، اس بارے میں نہ تو سکھایا جاتا ہے اور نہ ہی کوئی رہنمائی میسر ہے۔

سمجھنے کی بات یہ ہے کہ طلاق ایک رشتے یا زندگی کے ایک باب کا اختتام ہو سکتا ہے، مگر زندگی کا نہیں۔ زندگی کو ایک مثبت سوچ اور رویے کے ساتھ گزارنا چاہیے۔ شادی یا طلاق کسی بھی دو افراد کے انتہائی ذاتی معاملات ہیں جن کا معاشرے کے سامنے اعلان تو ضروری ہے، مگر اس کے پس منظر پر روشنی ڈالنا اور ان کے بارے میں وضاحت طلب کرنا کسی بھی شخص کا حق نہیں۔

ہمیں دوسروں کی ذاتی حدود کے احترام کو سمجھنے کی، تماش بینی کی عادت کو ترک کر کے مثبت سرگرمیوں میں شامل ہونے کی اور اپنے کام سے کام کیسے رکھا جائے، یہ سیکھنے کی شدید ضرورت ہے۔ اگر کسی کی زندگی میں کوئی مثبت کردار نہیں ادا کر سکتے تو کم از کم منفی کردار بھی ادا مت کریں۔

اس کے علاوہ ہمارے ہاں ازدواجی زندگی کے دوران یا اس کے ختم ہو جانے کے بعد مدد کرنے والے رہنماؤں، نفسیاتی ماہرین اور تھیراپسٹس کی بھی تعداد میں اضافہ ہونا چاہیے تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کی ان تک پہنچ اور رسائی ممکن ہو سکے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

مقبول خبریں