کیا ظلم ہے

کامران عزیز  جمعرات 5 اپريل 2018

کیا ستم ظریفی ہے کہ کرے بغیر ہی بھگتو، اجی مانا کہ زمانہ بدل گیا ہے کہ مگر اندھیر نگری تھوڑا ہی ہے،کیا لوٹ مچی ہوئی ہے جس کو دیکھو ڈالر مہنگا ہوگیا تو نرخ بڑھا دیے، ارے بھاڑ میں جائے یہ ڈالر، ہماری بلا سے آسمان پر پہنچ جائے مگر ہمارا کیا تعلق، پتی، چینی، گھی، تیل، دودھ سب مہنگا کر دیا لٹیروں نے، اب کھائیں کیا گھاس!

یہ کہانی کا کلائمکس ہے مگرکہانی ایسے شروع ہوتی ہے۔

’’ ارے سنیو‘‘ باہر سے چھابڑی والے کی آواز آ رہی تھی۔ اماں کا پارہ بڑا ہائی تھا، میں نے خطرہ بھانپ لیا اورکمرے میں چھپ گیا، اماں کی جوتی اگر پڑ جائے تو نشان ہفتوں نہیں جاتے،آواز ایک بار پھر آئی،اس بار میں نے کانوں میں انگلیاں ٹھونس لیں تاکہ آواز ہی نہ آئے، جب میں نہیں آیا تو کہنے لگیں ناہنجارکہیں نکل گیا ہوگا آوارہ گردی کرنے… پھر پھسڑ پھسڑکی آواز آئی اور دروازہ کھلا، بولیں ارے کیا لایا ہے… وہ کسی دوسرے کے سودے میں مصروف تھا، جواب نہ دے سکا، اماں نے آؤ دیکھا نہ تاؤ، جوتی اٹھائی اور یہ کہتے ہوئے دے ماری کہ کم بخت کیا تجھے سانپ سونگھ گیا ہے، جوتی پڑتے ہی اس کا منہ اور ہاتھ دونوں ایک ساتھ حرکت میں آئے، ہاتھ توگیا کمرکی طرف سلسلانے اور منہ سے نکلا…اللہ…

میں نے موقع غنیمت جانا اور پلک جھپکتے میں اپنے بل سے نکل کر بھاگنا چاہا مگر اماں بھی اماں ہیں،کمال کا ذہن پایا ہے یہاں میں بھاگا وہاں انھوں نے اپنے دوسرے پاؤں سے جوتی نکالی اور دی جما کر… پھرکیا تھا، میں بیٹھ گیا زمین پر سر لیے اور درد سے تڑپنے کا مکرکرنے لگا کیونکہ اتنی لگی نہیں تھی مگر مجھے بھی تو جان چھڑانا تھی، مگر اماں کب چھوڑنے والی تھیں، پکڑکر بیٹھ گئیں مجھے اورکہا حساب دے پورا اور نکال باقی پیسے… میں نے لاکھ کہاکہ اماں ڈالر مہنگا ہونے سے سب چیزوں کے دام چڑھ گئے ہیں۔

اس لیے پیسے نہیں بچے بلکہ الٹا ادھارکرآیا ہوں، مگر وہ ماننے والی تھیں نہ مانیں،کہنے لگیں ابھی پچھلے مہینے اس سے کم پیسوں میں گھر کا سارا سودا سلف آگیا تھا مگر زیادہ پیسے لے کر گیا اور سامان بھی پورا نہ لایا اوپر سے ادھار بھی کرنے کی بات کرتا ہے، اس بار اماں نے پٹائی کا پورا پروگرام بنایا ہوا تھا اور میں نے پٹنے کا کیونکہ اماں کو سمجھانا بہت مشکل تھا، اس لیے میں نے اماں سے صاف کہہ دیا کہ جوتیوں سے مار نہیں کھاؤں گا میں، جوتیاں پاؤں میں پہنتے ہیں اور گندی ہوتی ہیں، مجھے اپنی چھڑی سے ماریں لیکن میں نے کہا نہ کہ اماں بھی اماں ہیں اور ان کے ہاتھ اللہ سلامت رکھے وہ کٹ لگائی کہ میرے سارے طبق روشن ہوگئے۔

جب تھک گئیں اور جیب سے بھی کچھ نہ نکلا اور ادھر ادھر ساری جگہ ڈھونڈ لیں تو انھیں اطمینان ہوگیا کہ واقعی میں سچ کہہ رہا ہوں، پھر میرے پاس آئیں اور پیار اور حیرت سے کہنے لگیں کہ واقعی اتنی مہنگائی ہوگئی تو نے توبتایا ہی نہیں، میں نے جل بھن کرکہاکہ یہی تو بتا رہا تھا کہ ڈالر مہنگا ہوگیا ہے اس لیے سب چیزوں کے دام بڑھ گئے،کہنے لگیں تیری منطق بھی تو نرالی ہے، اب کون یقین کرے گا تجھ پر، ڈالر کیا الا بلا ہے یہ اور اس سے مہنگائی کا کیا تعلق، اب کی بار مجھے بھی ’بڑھکیں‘ مارنے کا موقع مل گیا… میں نے کہا اماں۔ دیکھو…

چند ماہ پہلے دال مل رہی تھی؟ جھٹ بولیں ہاں کیوں نہیں مل رہی تھی، میں نے جھلا کر کہاں ارے اماں اتنی آسانی سے کب ملی تھی، یاد نہیں آپ کو، پاس والی دکان سے آپ لینے گئی تھیں تو دکاندار نے کہا تھا نہیں ہے، پھر مجھے کہا تو میں کتنی دکانیں چھان کر دور کہیں سے جا کر لایا تھا اور کتنی دیر میں آیا تھا، یاد نہیں آپ نے کہاکہ تھا کہ دال لینے گیا تھا یا۔۔۔ اماں بیچ میںبول پڑیں ہاں ہاں، یاد آگیا، اور دال ملی بھی تو مہنگی تھی، بولیں ہاں صحیح کہا اور یہ بھی کہ آپ نے بڑی مشکل سے مان کر دیا تھا، اماں نے سرہلادیا مگر اماں کا صبر جواب دے رہا تھا، اس لیے بولیں ان چیزوں کا اس مہینے کے راشن سے کیا تعلق، تجھے پتہ ہے تیرے ابا کتنی مشکل سے کماتے ہیں اور تو باتیں بنا رہا ہے یہاں… اماں بات پوری تو سن لیں … میں بولا…اچھا جلدی بول۔

اماں جب چیزیں کم ہو جاتی ہیں تو ہم باہر سے منگواتے ہیں، بولیں کیا مطلب، ارے بھئی ہندوستان سے منگواتے ہیں، بھارت کا نام سن کر ان کا رنگ سرخ پڑنے لگا تو میں نے فوراً کہا کہ اماں مثال دے رہا ہوں کہ جب ملک میں چیزیں کم پڑجاتی ہیں تو انھیں چین، ایران اوردوسرے ملکوں سے منگواتے ہیں، وہ آتی ہیں ڈالر میں، ڈالر ہمارے پاس ہیں نہیں… ڈالرکا سن کر انھوں نے سوالیہ نظروں سے میری طرف دیکھا تو میں نے کہاکہ یہ اپنے پسیوں کی طرح ہے مگر یہ امریکا کے پیسے ہیں، تو ہم ان کے پیسے سے کیوں چیزیں باہر سے لیتے ہیں، اماں نے پوچھا، اماں ہمارے پیسے باہر نہیں چلتے، بلکہ سب ملکوں میں اپنے اپنے پیسے چلتے ہیں جیسے سعودی عرب میں ریال چلتا ہے، ہاں ہاں اماں کو عمرہ یاد آگیا۔

میں نے کہاکہ اماں اسی طرح سب ملکوں میں اپنے اپنے پیسے سے چیزیں خریدتے ہیں اور جب کبھی کسی جگہ پرکوئی چیزکم پڑجاتی ہے تو باہر سے منگواتے ہیں اور باہر ان کے ملک کا پیسہ نہیں چلتا، اس لیے سب نے مل کر ایک کرنسی کو باہر سے چیزیں خریدنے کے لیے منتخب کرلیا ہے مگر ڈالر تو امریکا کی کرنسی ہے، اس لیے امریکا یہ کرنسی چھاپتا ہے اور یہ کرنسی ساری دنیا کی کرنسی کہلاتی ہے، اماں بولیں تومیں کیاکروں، میرے گھر میں سامان کیوں مہنگا آیا، میں نے کہاکہ اماں آپ بیچ میں نہ بولیں پہلے پوری بات سنیں۔

پھر میں نے بتانا شروع کیا کہ اس ڈالر سے باہر سے چیزیں خریدتے ہیں جب یہ ڈالر کم پڑجاتے ہیں تو ہمیں یہ بہت مہنگا پڑجاتا ہے، وہ کیسے، اماں نے پوچھا، میں بولا، یہ ڈالر ہمیں اپنی چیزیں باہر بیچنے سے ملتے ہیں کیونکہ یہ ہم نہیں چھاپتے یا پھر جیسے کوئی باہر سے اپنے گھر والوں کے لیے پیسے بھیجتا ہے تو ملتا ہے، یا پھرکوئی باہر سے آکر یہاں کوئی کارخانہ لگائے تو بھی جو پیسے لے کر وہ یہاں خرچ کرتا ہے وہ ڈالرہوتے ہیں، یا پھر ہماری حکومت کسی سے ادھار لے تو بھی ڈالر ملتے ہیں۔

اب ہمارے پاس ان طریقوں سے جو بھی ڈالر آرہے ہیں وہ بہت کم ہیں اور ہمیں چاہیئیں زیادہ بالکل اسی طرح جیسے آپ نے جو پیسے دیے وہ کم تھے اور سامان زیادہ چاہیے تھا، اس لیے مجھے ادھارکرنا پڑے، اسی طرح ہمیں بہت زیادہ چیزیں باہر سے خریدنی پڑ رہی ہیں اور ہمارے پاس ڈالر تھوڑے ہیں۔ ارے سیدھی سیدھی بات بتا، یہ گول مول باتیں مجھے سمجھ نہیں آرہیں اور لگ رہا ہے کہ تونے پیسے کہیں اڑادیے اور اب کہانی سنا رہا ہے۔

میں نے پھر کہاکہ اماں میری بات ابھی ختم نہیں ہوئی، پہلے بات پوری سنیں پھر آپ کو سب سمجھ آجائے گا، پھر وہ میری طرف تیوری چڑھا کر ہاتھ پر گال رکھ کر تجسس کی نگاہ سے دیکھنے لگیں تو میں نے کہاکہ ہمارے پاس ڈالر تھوڑے سے ہیں لیکن ہمارے ملک میں بہت سے لوگ ہیں ولایت کمانے جاتے ہیں جیسے ہمارے محلے سے بھی کئی گئے ہوئے ہیں تو انھیں بھی ڈالر چاہیے ہوتے ہیں، وہ یہاں سے ڈالر لے کر باہر جاتے ہیں اور وہاں جا کر جو پیسے وہاں چلتے ہیں وہ ڈالر دے کر لے لیتے ہیں لیکن ہمارے پاس ڈالر تھوڑے سے ہیں اور لینے والے بہت سارے ہیں، جب وہ ڈالر لینے جاتے ہیں تو انھیں بہت مشکل سے اور زیادہ پیسوں میں ملتے ہیں جیسے’اس دن‘ مجھے دال بہت مشکل سے اور زیادہ پیسوں میں ملی تھی۔

اماں نے حیرت سے کہاکہ اچھا تو یہ ڈالر بھی بکتے ہیں، میں نے کہاکہ ہاں بالکل ایسے ہی جیسے دال چاول بکتے ہیں ویسے ہی بکتے ہیں، اس لیے جب یہ کم ہوتے ہیں تو مہنگے ہو جاتے ہیں، اس لیے جب ہمارے ملک میں چیزیں کم ہو جاتی ہیں تو وہ ہمیں ڈالر میں لینی پڑتی ہیں اور اس لیے ہمیں زیادہ پیسے دے کر لینا پڑتی ہیں لیکن ہمارے ملک میں بہت ساری چیزیں کم ہیں اس لیے یہ ساری چیزیں باہر سے ڈالر مہنگا ہونے کی وجہ سے مہنگی آرہی ہیں اور اس لیے اس مہینے کا راشن بھی بہت مہنگا آیا ہے۔

اماں بولیں یہ تو بڑے ظلم کی بات ہے، میں نے کیاکیا جو میں مہنگی چیزیں خریدوں،کیا ستم ظریفی ہے کہ کرے بغیر ہی بھگتو، اجی ماناکہ زمانہ بدل گیا ہے کہ مگر اندھیر نگری تھوڑا ہی ہے، کیا لوٹ مچی ہوئی ہے جس کو دیکھو ڈالر مہنگا ہوگیا تو نرخ بڑھا دیے، ارے بھاڑ میں جائے یہ ڈالر، ہماری بلاسے آسمان پر پہنچ جائے مگر ہمارا کیا تعلق، پتی ، چینی ، گھی ، تیل ، دودھ سب مہنگا کردیا لٹیروں نے، اب کھائیں کیا گھاس!

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔