- پختونخوا کابینہ؛ ایک ارب 15 کروڑ روپے کا عید پیکیج منظور
- اسلام آباد ہائیکورٹ نے پی ٹی آئی رہنما کو عمرے پرجانے کی اجازت دے دی
- وزیر اعظم نے مشترکہ مفادات کونسل کی تشکیل نو کر دی
- پنجاب گرمی کی لپیٹ میں، آج اور کل گرج چمک کیساتھ بارش کا امکان
- لاہور میں بچے کو زنجیر سے باندھ کر تشدد کرنے کی ویڈیو وائرل، ملزمان گرفتار
- پشاور؛ بس سے 2 ہزار کلو سے زیادہ مضر صحت گوشت و دیگر اشیا برآمد
- وزیراعلیٰ پنجاب نے نوازشریف کسان کارڈ کی منظوری دے دی
- بھارتی فوجی نے کلکتہ ایئرپورٹ پر خود کو گولی مار کر خودکشی کرلی
- چائلڈ میرج اور تعلیم کا حق
- بلوچستان؛ ایف آئی اے کا کریک ڈاؤن، بڑی تعداد میں جعلی ادویات برآمد
- قومی ٹیم کی کپتانی! حتمی فیصلہ آج متوقع
- پی ایس 80 دادو کے ضمنی انتخاب میں پی پی امیدوار بلامقابلہ کامیاب
- کپتان کی تبدیلی کیلئے چیئرمین پی سی بی کی زیر صدارت اہم اجلاس
- پاکستان کو کم از کم 3 سال کا نیا آئی ایم ایف پروگرام درکار ہے، وزیر خزانہ
- پاک آئرلینڈ ٹی20 سیریز؛ شیڈول کا اعلان ہوگیا
- برج خلیفہ کے رہائشیوں کیلیے سحر و افطار کے 3 مختلف اوقات
- روس کا جنگی طیارہ سمندر میں گر کر تباہ
- ہفتے میں دو بار ورزش بے خوابی کے خطرات کم کرسکتی ہے، تحقیق
- آسٹریلیا کے انوکھے دوستوں کی جوڑی ٹوٹ گئی
- ملکی وے کہکشاں کے درمیان موجود بلیک ہول کی نئی تصویر جاری
کچھووں کا واپس اپنی جائے پیدائش پر پہنچنے کا معما حل
نارتھ کیرولائنا: یہ ایک حیرت انگیز بات ہے کہ کچھوے وہیں انڈے دینے آتے ہیں جہاں وہ آنکھ کھولتے ہیں۔ سائنس دانوں نے اب یہ معما حل کرلیا ہے۔
کچھووں کے ماہرین نے طویل وقت لگا کر یہ بات نوٹ کی ہے کہ جس ساحل پر کچھوے انڈوں میں سے باہر آتے ہیں، ان میں موجود مادائیں بالغ ہونے پر انڈے دینے کےلیے اسی ساحل کا رخ کرتی ہیں، تاہم اس کی سائنسی وجہ سامنے نہیں آسکی تھی۔ اب دریافت ہوا ہے کہ اس کی وجہ زمینی مقناطیسی میدان ہے۔ کچھوے کے بچے جس ساحل پر پیدا ہوتے ہیں وہ وہاں کے ارضی مقناطیسی خطوط اپنے دماغ میں محفوظ کرلیتے ہیں۔
ایک نئی تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ لوگر ہیڈ سمندری کچھوے کے ایک ہی ساحل پر جنم لینے والے بچے جینیاتی طور پر ایک دوسرے سے مماثلت رکھتے ہیں۔
امریکا میں چیپل ہِل میں واقع یونیورسٹی آف نارتھ کیرولائنا میں حیاتیات کے پروفیسر کینتھ لومین نے برسوں کے غور اور تحقیق کے بعد کہا ہے کہ لوگر ہیڈ کچھوے بحرِ اوقیانوس کے دو کناروں کے درمیان آتے اور جاتے رہتے ہیں اور یہ بہت دلچسپ جاندار ہیں۔ ان میں سے جو کچھوا جس ساحل پر پیدا ہوتا ہے وہ وہیں لوٹ کر آتا ہے یا پھر اسی ساحل پر جاتا ہے جس کا مقناطیسی میدان اس سے مشابہ ہوتا ہے۔
تحقیق کی تفصیلات ’کرنٹ بائیالوجی‘ نامی جریدے میں شائع ہوئی ہیں جن سے ان نایاب کچھووں کے تحفظ میں بھی مدد ملے گی۔ تحقیق کے مطابق مقناطیسی میدان ہی ان کچھووں میں جینیاتی یکسانیت کی وجہ بنتا ہے خواہ ساحل کیسے ہی ہوں اور ان کی دیگر تفصیلات کتنی ہی مختلف کیوں نہ ہوں۔
کچھووں کے دماغ میں مقناطیسی میدان محسوس کرنے کا ایک زبردست نظام ہوتا ہے اور وہ اسی کی بدولت پیدا ہوتے ہی اپنے پہلے گھر کا مقناطیسی نقشہ ذہن میں بٹھالیتے ہیں جو ہمیشہ ان کی رہنمائی کرتا ہے اور وہ اسی ساحل پر انڈے دینے کےلیے بار بار آتے ہیں۔ گویا ہم کہہ سکتے ہیں کہ ارضی مقناطیسی میدان ان جانوروں میں قدرتی ’جی پی ایس‘ کا کام کرتا ہے۔
لومین کے مطابق یہ ایک اہم دریافت ہے جس سے لوگرہیڈ کچھووں کو سمجھنے میں مدد ملے گی، لیکن واضح رہے کہ ساحل پر بجلی کی لائنوں اور بڑی عمارتوں سے ان کی طویل نقل مکانی کو نقصان پہنچ سکتا ہے اور وہ بھٹک سکتے ہیں۔ اسی طرح سامن، شارک، پرندے اور خود شہد کی مکھیاں بھی ارضی مقناطیسی میدان کو استعمال کرتے ہیں۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔