حب الوطنی کے سرٹیفکیٹ اور حقوق کی جدوجہد

ایچ ایم کالامی  بدھ 18 اپريل 2018
منظور پشتین، محسن داوڑ اور اس کے ساتھیوں سے بھی سوال ہے کہ آپ کس کے ایجنڈے پر کام کررہے ہیں؟ فوٹو: انٹرنیٹ

منظور پشتین، محسن داوڑ اور اس کے ساتھیوں سے بھی سوال ہے کہ آپ کس کے ایجنڈے پر کام کررہے ہیں؟ فوٹو: انٹرنیٹ

میں ریستوران میں بیٹھ کر بارش رکنے کا بے تابی سے انتظار کر رہا تھا۔ اسی اثنا میں ایک دوست بھاگا بھاگا ریستوران میں گھس آیا۔ اس کی سانسیں پھول رہی تھیں۔ وہ سیدھا میرے پاس آکر بیٹھ گیا اور اٹکی ہوئی آواز میں گویا ہوا: ’’جلدی اپنا موبائل نکالو اور پاکستان زندہ باد کا اسٹیس لگاؤ۔‘‘ یہ سن کر میں چونک گیا اور آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں کہ اچانک میرے ملک پر کہاں سے آفت ٹوٹ پڑی؟ یوں محسوس ہونے لگا جیسے دشمن نے دھرتی ماں کو چاروں طرف سے گھیر لیا ہو۔ اس لیے اب دشمن کو مرعوب کرنے کےلیے سوشل میڈیا پر ایسا پیغام بھیجنا پڑ رہا ہے۔

لیکن ہمت کرکے اعصاب پر قابو پایا اور پوچھ ہی لیا کہ بھائی ہوا کیا ہے کہ ایسے اچانک پاکستان زندہ باد کا اسٹیٹس لگانے کی نوبت آگئی ہے؟ جواباً دوست کہنے لگا کہ کچھ نہیں ہوا، بس ایک نیا ٹرینڈ شروع کردیا گیا ہے۔ اس کا جواب پاکر میرے حواس بحال ہوئے۔ میں نے اسے اپنے تئیں سمجھانے کی کوشش کی کہ بھائی پاکستان سے لازوال محبت کی مثالیں تمام ثبوتوں اور گواہوں کے ساتھ موجود ہیں۔ جب بھی دشمنوں کی نیت میں کھوٹ پڑی تو پاکستانی قوم کا جذبہ اور جنون دشمن کا نام و نشان مٹانے کےلیے کافی ہوگا۔ اسی کی بدولت اب دشمن اپنی نیت ظاہر کرنے سے قبل سو مرتبہ ان نشانیوں کی طرف گھورتا ہے اور نیت بدل کر واپس بل میں گھس جاتا ہے۔

یہ کہہ کر میں نے اپنے دوست کو رخصت کیا اور اطمینان سے واپس اپنے گھر آگیا۔ موبائل نکال کر جیسے ہی فیس بک کھولی تو ’’پاکستان زندہ باد‘‘ کے نعروں سے فیس بک بھرا ہوا دیکھ رہا تھا۔

تھوڑی دیر کےلیے خوشی سے پھولے نہیں سمایا کہ چلو ایک ٹرینڈ ہی سہی، مگر دھرتی ماں سے محبت اور پیار کا جذبہ کتنا مؤثر ہوتا ہے کہ چند لمحوں میں فیس بک ’’پاکستان زندہ باد‘‘ کے نعروں سے اس طرح گونج اٹھا ہے کہ شاید مارک زکربرگ صاحب کو بھی کانوں میں انگلیاں ٹھونسنی پڑیں۔ لیکن کچھ لمحے بعد اپنے ایک قابل سوشل ایکٹیوسٹ دوست مجاہد توروالی کی پوسٹ مع تصاویر دیکھ کر یک دم تشویش میں مبتلا ہوگیا۔

پھر اس کے بعد معلوم کرنے پر پتا چلا کہ پشتون تحفظ تحریک (پی ٹی ایم) کے سخت ناقدین اور اس کے خلاف اٹھنے والے لوگوں کا ایک گروہ مسیجز بھیج کر یہ سب کچھ کروا رہا ہے؛ اور ایسا کرنے کا مقصد خواہ مخواہ پی ٹی ایم کو ایک بھرپور ’’اینٹی اسٹیٹ‘‘ قوت ظاہر کرنا ہے۔ مجھے صد فیصد یقین ہے کہ ہمارے سیکیورٹی ادارے ہر ایرے غیرے کو یہ اختیار نہیں دے سکتے کہ کسے محب وطن قرار دیا جائے اور کس سے زبردستی وطن دوستی کا اظہار کروایا جائے۔ عام آدمی بخوبی جانتا ہے کہ ہمارے اداروں کے پاس اپنے پیشہ ورانہ استعمال کے وہ جواہر موجود ہیں جن کا کوئی تصور بھی نہیں کرسکتا۔

تو پھر کون ہو تم؟ کیا ایجنڈا ہے تم لوگوں کا؟ کیا ثابت کرنا چاہتے ہو؟ آپ کو اسٹیٹ نے یہ اختیار کب دیا ہے کہ آپ حب الوطنی کا سرٹیفکیٹ تقسیم کرتے پھریں؟ اگر آپ کے پاس یہ اختیار ہے، تو اس کا کوئی ثبوت دکھا دیجیے؟ اگر یہ اور اس قبیل کے دیگر سوالات کے جوابات آپ کے پاس نہیں تو پھر ہم پارلیمان میں بیٹھے لوگوں، سیکیورٹی اداروں اور تمام ذمہ داروں سے یہ سوال کرتے ہیں کہ آخر فردِ واحد یا سویلینز کے ایک مخصوص گروہ کو کیوں کھلی چھوٹ دی جارہی ہے جس کی بنیاد پر وہ وطن عزیز میں انتشار پھیلاتے پھریں؟ عام شہریوں کو کیوں کر ذہنی اضطراب کا شکار بنایا جارہا ہے؟

آخر میں منظور پشتین، محسن داوڑ اور اس کے ساتھیوں سے بھی درخواست کرتے ہیں کہ آپ کس کے ایجنڈے پر کام کررہے ہیں؟ ایسا کونسا ایجنڈا ہے اور ایسی کیا اسٹریٹجی ہے جو ہماری سمجھ میں نہیں آرہی؟ بس جو حقوق آپ اور آپ کے ساتھ نکلے ہوئے مظلوم مانگ رہے ہیں، ان میں صداقت کیوں دکھائی دے رہی ہے؟ آپ کے مطالبات آئینی اور قانونی کیوں نظر آرہے ہیں؟ منظور پشتین اور ان کے مخالفین، آپ دونوں سے ہم عوام بس ہاتھ جوڑ کر یہی سوال کرتے ہیں کہ جو دل میں ہے وہی بتائیے اور ہمیں اس ذہنی خلجان سے نکالیے۔

یہ قوم بھوک، افلاس، جنگ و جدل، ناانصافی اور ظلم و بربریت سے نفسیاتی مریض بن چکی ہے۔ اب انہیں آرام کی ضرورت ہے، ایک اور ڈرامے کی نہیں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

ایچ ایم کالامی

ایچ ایم کالامی

ایچ ایم کالامی،خیبر پختونخوا, سوات کوہستان سے تعلق رکھنے والے نوجوان صحافی ہیں اور مختلف اخبارات کے لئے کالم لکھتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔