ووٹ کی عزت اور ووٹر کی الجھن

ووٹ کو عزت دینے کا مطالبہ اسی ووٹر سے کیا جارہا ہے جس کی اہلِ سیاست کی نظروں میں کوئی عزت نہیں


حکمرانوں اور سیاستدانوں کو ’’دوٹ کو عزت دو‘‘ کی مالا جپتے ہوئے یہ احساس ہونا چاہیے کہ مسندِ اقتدار پر بٹھانے والے تو بیچارے ووٹرز ہی ہوتے ہیں۔ (فوٹو: فائل)

لیجیے! وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے واشگاف انداز سے ایک مرتبہ پھر اپنے اِس عزم کو دہراتے ہوئے کہا ہے کہ ''ووٹ کو عزت دو'' آئندہ انتخابات میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کا منشور اور نعرہ ہوگا۔ اُنہوں نے بڑے وثوق سے کہتے ہوئے یہ بھی یقین دلایا ہے کہ کوئی پاکستانی ایسا نہیں ہوگا جو یہ نہ چاہے گا کہ ووٹ کو عزت نہ دی جائے؛ اور ساتھ ہی اس اُمید کا اظہار بھی کر دیا ہے کہ اِس نعرے اور منشور کی بنیاد پر پاکستان مسلم لیگ (ن) ہی الیکشن میں بھرپور کامیابی حاصل کرے گی۔ وزیراعظم صاحب نے جو کہا، یہ اُن کا اپنا بیانیہ ہے جو اُن کی اپنی نظروں میں تو درست ہے مگر اَب اِس پر قوم کو سوچنا ہے کہ آئندہ اِسے کیا کرنا ہوگا؟

سیاستدانوں کی باہمی چپقلش میں کبھی کبھی ایسا لگتا ہے جیسے میری ارضِ مقدس پاکستان میں سب کچھ ٹھیک چل رہا ہے۔ مگر پھر اچانک ہی سیاستدانوں اور اداروں کے درمیان جاری کھینچا تانی اور تناؤ کی کیفیت دیکھ کر اندر ہی اندر یہ احساس کچوکے لگانے لگتا ہے کہ نہیں، کچھ بھی ٹھیک نہیں! ستر سال سے قوم اِسی مخمصے اور تذبذب میں مبتلاہے اور یہ ابھی تک کسی نکتے پر نہیں پہنچ سکی ہے کہ ہمارے یہاں کیا ٹھیک ہے اورکیا غلط؟ یعنی مایوسی کی ایک زنجیر ہے جو پاؤں میں پڑی ہوئی ہے۔ آج مُلک میں جو کچھ سیاستدانوں اور اداروں کے درمیان ہو رہا ہے، یہ ایک ایسا اُلجھاوا ہے جس کی گُتھی سب ایک ساتھ مل کر سُلجھانا چاہ رہے ہیں لیکن یہ بجائے سُلجھنے کے مزید اُلجھتی ہی جارہی ہے۔ آج ہمیں اِس پریشان کن صورتِ حال سے ضرور نکلنا ہوگا ورنہ ہم اپنا کل بہتر نہیں بنا سکیں گے۔

بہرکیف، بھلا 28جولائی 2017 کے بعد نااہل سیاست دانوں کی یہ بھی کوئی بات ہے؟ ''ووٹ کو عزت دو'' سوچیے یہ بات سیاستدان کس سے کہہ رہے ہیں؟ شاید اِنہیں خود بھی یہ نہیں پتا کہ یہ کس سے اور کیوں کہہ رہے ہیں؟ آج بس سبھوں کی زبان پر یہی ہے کہ ووٹ کو عزت دو، یعنی اِن کے نزدیک انہیں ایوان تک پہنچانے والے ووٹ کی عزت نہ کبھی پہلے تھی اور نہ آج ہے۔

ارے جنابِ محترم! یہ ووٹ کی عزت اور احترام ہی تو ہیں جن کے بل بوتے پر آپ ایوانوں میں قدم رنجا فرماتے ہیں۔ اگر ووٹ کی عزت نہ ہوتی اور یہ مقدس و محترم نہ ہوتا تو کوئی مائی کا لعل ایوانوں میں قدم نہیں رکھ سکتا۔ہارنے والے سے کوئی پوچھے کہ ووٹ کی کیا عزت ہوتی ہے؟ جیتنے والا تو الیکشن جیت کر ووٹ اور ووٹرز کی عزت کو ہی بھول جاتا ہے؟ یقین نہ آئے تو کبھی تنہائی میں دل پر ہاتھ رکھ کر اپنا محاسبہ کرکے دیکھ لیجیے، تب ضمیر کی جو آواز آئے گی وہ یہی ہوگی کہ ہاں! تم نے اپنی جیت کے بعد نہ ووٹ کو خود عزت دی اور نہ ووٹر کو اہمیت و عزت دینے کا سوچا ہے۔ اگر تمہاری نظر میں ووٹ کی عزت ہوتی تو تم پانچ سال میں صرف دو تین مرتبہ ایوان میں جانے کے بجائے ایوان میں اپنی حاضری اور موجودگی کے مطلوبہ اہداف پورے کرتے؛ اپنی جیت کے بعد ووٹ کی بے توقیری تو پہلے آپ نے کی ہے اور اَب آپ کس منہ سے ووٹ کو عزت دو کی بات کر رہے ہیں اور یہ نعرہ لگا رہے ہیں کہ اگلے متوقع الیکشن ''ووٹ کو عزت دو'' کے نعرے پر پاکستان مسلم لیگ (ن) لڑے گی۔

درحقیقت ووٹ کی عزت یہی ہے کہ جب ووٹر اپنے مقدس ووٹ کا دیانتدارانہ استعمال کرکے اپنی پسند کے اُمیدوار کو قومی فریضہ اور امانت سونپتا ہے جو اسمبلی رکنیت کی صورت میں ہوتی ہے، تو اسے پوری ذمہ داری کے ساتھ نبھایا جائے۔ مگر بڑے افسوس کی بات یہ ہے کہ گزشتہ ستر سال سے ہمارے یہاں الیکشن سے پہلے، یعنی اپنے حلقے کے ووٹرز سے ووٹ لینے تک، اُمیدوار کی نظر میں ووٹرز کی اہمیت ہوتی ہے لیکن، معاف کیجئے گا، جیسے ہی انتخابات کے نتائج آتے ہیں اور کوئی اُمیدوار کامیاب ہوجاتا ہے تو اِس کے نزدیک ووٹرز کی قدر و منزلت صفر اور ووٹ کا تقدس بلند ہوجاتا ہے۔ وہ اپنی جیت کےلیے حاصل ہونے والے ووٹوں کے شمار ہی کو عزت دیتا ہے۔ اِس سے تو کل اور آج کا کوئی بھی امیدوار انکاری نہیں ہوگا۔ مگر اَب یہ اِسے نہ مانے تو اور بات ہے۔ البتہ، حقیقت یہی ہے کہ آج نااہل حلقے اور اِن کے چیلے چپاٹے جس طرح ''ووٹ کو عزت دو'' کا نعرہ لگا رہے ہیں، اِن سمیت دوسروں نے کب اپنی جیت کے بعد ووٹ سے زیادہ ووٹرز کو عزت دی ہے۔

آج دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں جہاں اِنسان اور اِنسانیت کی خدمت کا جذبہ موجود ہے وہیں سیاستدان اِنسان اور اِنسانیت کی خدمت کے جذبے سے سرشار ہوکر میدانِ سیاست میں اُترتے ہیں۔ اِسی لیے اُن ترقی یافتہ ممالک اور معاشروں میں سیاستدانوں کے نزدیک ووٹ سے زیادہ ووٹرز کو عزت دو کا نظریہ پروان چڑھا ہے۔

اس کے برعکس، ہماری ارضِ وطن پاکستان میں سیاستدان ہر پانچ سال بعد ہونے والے الیکشن میں اربوں کی سرمایہ کاری کرتے ہیں اور پھر جمہوریت کی آڑ میں قومی خزانے سے لوٹ مار کرتے ہیں؛ آف شور کمپنیاں اور اقامے بناتے ہیں، اپنے اور اپنے خاندان والوں کےلیے بیرونی ممالک کے شہرت یافتہ اور اچھی ساکھ کے حامل بینکوں میں کھاتے کھلواتے ہیں اور اِن میں ساری قومی دولت منتقل کرواتے ہیں۔ اِس طرح قومی خزا نے سے لوٹ مار کرکے یہ اپنی اور اپنے اہلِ خانہ کی خدمت کرتے ہیں اور یہ سلسلہ چلتا رہتا ہے۔

مگر جب اِن کے سیاہ کرتوتوں پر قومی ادارے اِن کا احتساب کرتے ہیں اور اِنہیں قانونی گرفت میں لاکر نااہل قرار دیتے ہیں تو پھر یہ اپنی سُبکی مٹانے کےلیے "مجھے کیوں نکالا؟" کی تکرار کرتے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ معصوم ووٹرز کو اپنے سیاسی و ذاتی مقاصد کےلیے اُکساتے ہیں اور چیخ چلا کر "ووٹ کو عزت دو" کا ٹیکہ لگاتے نہیں تھکتے۔

حکمرانوں اور سیاستدانوں کو ''دوٹ کو عزت دو'' کی مالا جپتے ہوئے یہ احساس ہونا چاہیے کہ مسندِ اقتدار پر بٹھانے والے تو بیچارے ووٹرز ہی ہوتے ہیں۔ وہی ووٹرز کہ جنہیں ان اہلِ سیاست نے اپنی جیت کے بعد مسائل در مسائل کے دلدل میں دھنسا دیا ہے۔ یہ اِن بدعقل اور اندھے ووٹرز ہی کی بددعائیں ہیں کہ آج حکمرانوں اور سیاست دانوں کے گرد احتساب کا گھیرا تنگ سے تنگ ہوتا جا رہا ہے اور اَب جیسے جیسے انتخابات کے دن قریب سے قریب تر آتے جارہے ہیں تو کرپٹ عناصر، آف شور کمپنیوں اور اقامے والے، اربوں کھربوں روپے کی قومی دولت لوٹ کر سوئس بینکوں میں رکھنے اور قومی خزانہ لوٹ کھانے والے، اپنے اللے تللے میں غریبوں کی خون پسینے کی کمائی کو اُڑانے والوں کا کڑے سے کڑا احتسابی عمل جاری رہنا چاہیے، تب ہی پاکستان کی سرزمین ناپاک اور کرپٹ عناصر سے چھٹکارا پائے گی۔

ورنہ یہ اگر بچ نکلے تو پھر یہ ناسور اور ناپاک عناصر پہلے سے زیادہ طاقتور ہوکر قومی خزانے پر کوبرا سانپ بن کر بیٹھ جائیں گے اور مزے کریں گے جبکہ ملک و قوم مایوسیوں کے گندے بدبودار دلدل میں زندہ درگور ہوجائیں گے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں