تکبّر کی مذمت

’’ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ تہبند کو ازراہ تکبّر لٹکانے والے کی طرف دیکھے گا بھی نہیں۔‘‘ (متفق علیہ)


May 04, 2018
’’ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ تہبند کو ازراہ تکبّر لٹکانے والے کی طرف دیکھے گا بھی نہیں۔‘‘ (متفق علیہ)۔ فوٹو : فائل

KARACHI: حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے روایت ہے کہ نبی کریمؐ نے فرمایا، مفہوم : '' جس کے دل میں ذرّہ برابر بھی کبر ہوگا وہ جنّت میں داخل نہیں ہوگا۔ اس پر ایک شخص نے پوچھا کہ آدمی پسند کرتا ہے کہ اس کا لباس بھی اچھا ہو، جوتے بھی عمدہ ہوں، کیا یہ بھی تکبّر میں داخل ہے ؟ آپؐ نے ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ خود جمیل ہے اسے جمال و نفاست پسند ہے (یہ کبر نہیں ہے) کبر تو یہ ہے کہ اتراہٹ کے مارے حق ہی کا انکار کردے اور لوگوں کو ذلیل سمجھنے لگے۔'' (مسلم)

جناب حارثہ بن وہبؓ راوی ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا، مفہوم: '' میں تمہیں بتاتا ہوں کہ دوزخ میں کون کون لوگ ہوں گے، وہاں سب سرکش بخیل اور متکبّر ہی ہوں گے۔'' (متفق علیہ)

جناب ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، مفہوم : '' قیامت کے دن اللہ تعالیٰ تہبند کو ازراہ تکبّر لٹکانے والے کی طرف دیکھے گا بھی نہیں۔'' (متفق علیہ)

جناب ابوسعید خدریؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، مفہوم: '' جنت و دوزخ میں بحث ہوئی۔ دوزخ کہنے لگی میرے ہاں تو بڑے بڑے جابر اور متکبّر لوگ فروکش ہوں گے۔ جنت بولی، میرے ہاں تو ضعیف و نادار لوگ ہی جگہ پا سکیں گے۔ اس بحث کا فیصلہ فرماتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا: جنت! تُو میری رحمت ہے، تیرے ذریعے میں جس پر چاہوں گا رحم کروں گا، اور اے دوزخ ! تُو میرا عذاب ہے، میں جس پر چاہوں گا تیرے ذریعے اسے عذاب دوں گا، البتہ تم دونوں کا یہ حق مجھ پر لازم ہے کہ دونوں کو بھر دوں گا۔'' (مسلم)

جناب ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، مفہوم: '' ایک شخص (امم سابقہ میں سے) لباس فاخرہ پہنے دل ہی دل میں خوش ہوتا، سر میں کنگھی کیے (بال سنوارے) متکبّرانہ چال سے چلا جا رہا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے اچانک اسے زمین میں دھنسا دیا اور اب وہ قیامت کے دن تک دھنسا ہی رہے گا۔''

(بخاری و مسلم)

تکبّر کے درجات :

امام غزالیؒ نے اپنی شہرہ آفاق کتاب '' کیمیائے سعادت'' میں تکبّر کے درجات کا تفصیلی ذکر گیا ہے۔

٭ پہلا درجہ وہ تکبّر ہے جو خدا پر ہو جیسے نمرود، فرعون، و ابلیس کا تکبّر۔ اور ان کا تکبّر جنہوں نے خدائی کا دعویٰ کیا اور بندگی سے ننگ و عار رکھی۔

٭ دوسرا درجہ رسول مقبول ﷺ پر تکبّر ہے جیسا کہ کفار مکہ نے کیا اور کہا کہ ہم ایسے آدمی کے سامنے سر نہیں جھکائیں گے۔ خدا نے ہماری طرف فرشتے کو رسول بنا کر کیوں نہیں بھیجا۔

٭ تیسرا درجہ یہ ہے کہ آدمی اور بندوں پر تکبّر کرے اور انہیں چشمِ حقارت سے دیکھے اور حق بات نہ مانے، یہ اگرچہ دو درجوں سے کم ہے لیکن پھر بھی دو سبب سے بُرا ہے ایک تو یہ کہ بزرگی خدا ہی کی صفت ہے، دوسرا یہ کہ تکبّر حق بات قبول کرنے سے آدمی کو باز رکھتا ہے۔

تکبّر کے اسباب :

علماء اور مفسرین فرماتے ہیں کہ تکبّر کے چند اسباب ہیں۔

تکبّر کا پہلا سبب علم ہے :

بہت کم علماء ہیں جو تکبّر سے خالی ہیں۔ حضور اکرم ؐ کا ارشاد گرامی ہے، ہر چیز کے لیے کوئی نہ کوئی آفت ہے، علم کی آفت تکبّر ہے۔ صوفیائے کرام فرماتے ہیں جس علم سے تکبّر پیدا ہو وہ علم جہل سے بھی بدتر ہے، کیوں کہ حقیقی علم وہ ہے جتنا بڑھے گا خوف الٰہی اتنا ہی بڑھے گا، کیوں کہ ارشاد ربانی کا مفہوم ہے: '' اللہ سے اس کے بندوں میں وہی ڈرتے ہیں جو علم والے ہیں۔'' بندوں سے مراد ساری مخلوق و انسان ہیں اس معلوم ہوا کہ علماء دین بہت مرتبے والے ہیں کہ رب نے اپنی خشیت و خوف ان میں منحصر فرمایا۔ جسے بھی خوف خدا نصیب ہوگا وہ سچے عالموں کے ذریعے، مگر مراد علم والوں سے وہ ہیں جو دین کا علم رکھتے ہیں جن کے عقائد و اعمال درست ہوں۔ (تفسیر ابن کثیر)

تکبّر کا دوسرا سبب خاندان و نسب پر فخر کرنا :

تکبّر کی یہ بیماری بہت عام ہے۔ حضرت ابوذر غفاریؓ فرماتے ہیں کسی آدمی سے میرا جھگڑا ہوا، میں نے اسے کالی عورت کے بیٹے کہہ کر پکارا۔ حضورؐ نے یہ سن کر فرمایا: اے ابوذر یہ مت بھولو کسی گوری کے بیٹے کو کالی کے بیٹے پر فضیلت نہیں ہے۔ یہ سننا تھا کہ مجھ پر خوف طاری ہوا، اسی وقت میں اس آدمی کے پاس پہنچا اور کہا۔ اٹھو اور اپنا پیر میرے منہ پر رکھو تاکہ میرے قول کا بدلہ ہو جائے۔

تکبّر کا تیسرا سبب حسن و جمال:

حسن و جمال سے غرور اور گھمنڈ پیدا ہوتا ہے۔ اس مرض میں خوب صورت مرد بھی گرفتار رہتے ہیں، مگر عورتیں سب سے زیادہ اس مرض میں گرفتار رہتی ہیں۔

تکبّر کا چوتھا سبب مال و زر :

دولت مند لوگ غریبوں کو حقارت کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ اپنی بڑائی اور گھمنڈ میں مست رہتے ہیں۔

تکبّر کی علامات:

٭ جب تک کوئی دوسرا آدمی اس کے ساتھ نہ ہو تب تک کہیں اکیلا جانا نہ چاہے۔ ٭ متکبّر چاہتا ہے کہ لو گ اس کے سامنے کھڑے ہوں اور اس کے واسطے سروقد کھڑے ہوا کریں۔ حضور اکرمؐ اس امر سے کراہت فرماتے تھے۔ حضرت علیؓ فرماتے ہیں جو کوئی دوزخی کو دیکھنا چاہے اس سے کہہ دو کہ اس آدمی کو دیکھ لے جو خود تو بیٹھا ہوا ور لو گ اس کے سامنے کھڑے ہوں۔

٭ متکبّر کسی کی ملاقات کو نہیں جاتا۔ حضرت سفیان ثوریؒ مکہ معظمہ پہنچے تو حضرت ابراہیم بن ادہمؒ نے ان کو بلایا کہ یہاں آکر مجھ سے حدیث روایت کرو۔ وہ چلے آئے حضرت ابراہیمؒ نے کہا میں نے چاہا کہ تمہاری تواضع آزماؤں۔

٭ متکبّر کبھی یہ نہیں چاہتا کہ فقیر اس کے پاس بیٹھیں۔

٭ متکبّر اپنے گھر میں کچھ کام نہیں کرتا۔ ہمارے حضور اکرمؐ سب کام خود کرتے تھے۔

٭ متکبّر سودا بھی بازار سے خود اپنے گھر نہیں لے جاتا۔ ایک دن حضورؐ نے کوئی چیز لی اور خود لے جا رہے تھے، ایک شخص نے چاہا کہ میں لے چلوں۔ آپؐ نے نہیں دیا اور فرمایا کہ جس کی چیز ہے اسی کا لے جانا بہتر ہے۔ حضرت عمر فاروقؓ بائیں ہاتھ میں گوشت لٹکا کے اور دائیں ہاتھ میں درّہ لے کر بازار جاتے تھے۔

٭ جب تک اچھے کپڑے نہیں ہوں متکبّر باہر نہیں نکلتا۔ خلیفۂ دومؓ کو دیکھا گیا کہ ان کی چادر میں پیوند لگے ہیں۔اللہ تعالیٰ ہمیں اس مہلک بیماری سے اپنی حفظ و امان میں رکھے۔ آمین

مولانا رضوان اللہ

مقبول خبریں