احتساب اور مشکلات

اس میں کوئی شک نہیں کہ احتساب ہو رہا ہے لیکن اس کا دائرہ بہت محدود ہے اور رفتار احتساب بہت دھیمی ہے۔


Zaheer Akhter Bedari May 12, 2018
[email protected]

اس میں کوئی شک نہیں کہ ملک میں کڑا احتساب ہورہا ہے ابھی یہ احتساب شنوائی کے مرحلے میں ہے کہ اشرافیہ نے احتساب کے خلاف ایک طوفان اٹھا رکھا ہے۔ ہر روز نئے نئے حوالوں سے احتساب کرنے والوں پر الزامات کی بارش ہورہی ہے اور الزامات اور الزامی زبان تمام اخلاقی حدود کو پار کرکے محض یہ ثابت کرنے پر تلی ہوئی ہے کہ انھیں ناکردہ گناہوں کی سزا دی جارہی ہے ۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ احتساب ہو رہا ہے لیکن اس کا دائرہ بہت محدود ہے اور رفتار احتساب بہت دھیمی ہے اور رعایتوں کا استعمال احتساب کی روح کو مجروح کررہا ہے۔ سابق وزیراعظم بجا طور پر یہ شکوہ کررہے ہیں کہ احتساب یکطرفہ ہے کیونکہ اعلیٰ سطح ملزموں کی تعداد سیکڑوںمیں نہیں ہزاروں میں ہے، حکمران طبقات جب کرپشن کا ارتکاب کرتے ہیں تو ملک کے تمام قومی اداروں تک یہ کرپشن پھیل جاتی ہے ، آج ملک کے ایک سرے سے لے کر دوسرے سرے تک قومی ادارے اربوں کی کرپشن کے الزامات میں ملوث نظر آرہے ہیں لیکن احتساب کی گاڑی اس قدر سست رفتاری سے چل رہی ہے کہ ملزمان سزا سے بہت دور نظر آتے ہیں۔

پاکستان میں چونکہ حکمران اشرافیہ پہلی بار احتساب کی زد میں ہے لہٰذا اس کا واویلا نہ غیر فطری ہے نہ غیر متوقع اگر احتساب کرنے والے اس ملک کو کرپشن سے نجات دلانا چاہتے ہیں تو انھیں غیر ضروری احتیاط سے بچنا چاہیے ،کیونکہ احتیاطی احتساب نہ صرف یہ کہ بے نتیجہ ہوتا ہے بلکہ ملزموں کو اس قدر دلیر بنادیتا ہے کہ وہ تمام قانونی اخلاقی حدوں کو پار کر جاتے ہیں جس کا منطقی نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ عوام کا قانون اور انصاف پر سے اعتماد اٹھ جاتا ہے اور ایسی صورتحال ملک کو انارکی اور مزاحمت کی طرف لے جاتی ہے یہ ایک انتہائی خطرناک صورتحال ہے۔

احتساب کی زد میں آنے والے ہزار طریقوں سے احتساب سے بچنے کی کوشش کرتے ہیں جن میں بلیک میلنگ بھی شامل ہے۔ ہوسکتا ہے ہمارے سابق وزیراعظم سادگی میں فرمارہے ہوں کہ میرے سینے میں بے شمار راز دفن ہیں جنھیں میں افشا کرسکتا ہوں ۔ محترم کی بات سو فی صد درست ہوسکتی ہے کہ ہمارے طرز حکمرانی کی بنیاد رازوں پر استوار ہے لیکن اس حوالے سے سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ قیمتی راز انھوں نے عشروں سے اپنے سینے میں کیوں چھپا رکھے ہیں ہمارے ، سابق وزیراعظم تین بار اس ملک کے بلاشرکت غیرے حکمران رہے ہیں ایسے قیمتی رازوں کو انھوں نے اپنے دور حکمرانی میں کیوں افشا نہیں کیا؟ بلا شبہ جو راز ہمارے سابق وزیراعظم کے سینے میں محفوظ ہیں ان کی نوعیت قومی ہوسکتی ہے اور اگر ایسا ہی ہے تو ان قومی رازوں کو چھپانا قومی مفاد میں ہے۔

اس وقت اصل مسئلہ یہ ہے بلکہ احتساب کی کامیابی کا دارومدار اس پر ہے کہ احتساب بلا امتیاز ہو مکمل ہو ادھورا نہ ہو۔ احتسابی قوتوں کو پاکستان جیسے ملک میں بڑی احتیاطیں برتنی پڑتی ہیں لیکن اصل مسئلہ یہ ہے کہ اگر احتساب احتیاطی یا ادھورا ہو تو اس کا مقصد ختم ہوجاتا ہے اور جہاں تک مقصد کی بات ہے ہر ایسے احتساب کا مقصد ملک کوکرپشن سے نجات دلانے کے علاوہ کیا ہوسکتا ہے۔

امتیازی احتساب کا گلہ احتساب کی زد میں آنے والے فطری طور پر کرتے ہیں لیکن جب حقائق سامنے ہوں تو پھر گلہ غیر منطقی نہیں رہتا۔ کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ شاید ہی ہمارے ملک میں کوئی منتخب حکومت ایسی ہو جس پر اربوں کی کرپشن کے الزامات نہ ہوں ، اگر یہ بات درست ہے تو پھر ایک ہی حکومت کو احتساب کی زد میں لانا نہ صرف نا انصافی ہے بلکہ غیر منطقی بھی ہے ، اس قسم کا ادھورا انصاف کرپشن ختم کرنے کے بجائے نئی مشکلات سامنے لے آتا ہے۔

یہ بات یقین کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ جو طاقتیں اس نیک کام کا بیڑہ اٹھا رہی ہیں ان کے سامنے ایک واضح پلان اور اس پر عمل در آمد کی پوری حکمت عملی ہوگی اور 70 سال سے کرپٹ حکمرانوں کی کرپشن سے بیزار کروڑوں عوام احتسابی طاقتوں کی پشت پر لوہے کی دیوار بنے اس لیے کھڑے ہیں کہ وہ ملک میں رائج کرپشن کے اس ظالمانہ نظام کا خاتمہ چاہتے ہیں لیکن موجودہ صورتحال میں عوام کے ذہنوں میں بھی یہ خیال پیدا ہونا فطری ہے کہ کیا ایک خاندان یا ایک حکومت کے احتساب سے ملک میں کرپشن ختم ہوجائے گی؟

یہ شکوہ صرف احتساب کی زد میں آنے والی اشرافیہ کا ہی نہیں بلکہ اس ملک کے 20 کروڑ عوام کا بھی ہے کہ احتساب بلا امتیاز اور مکمل ہو، ادھورے احتساب سے احتساب کے مقاصد ہی پورے نہیں ہوںگے بلکہ احتساب کا شکار ہونے والوں کے اعتراضات کو جواز مل جائے گا۔

اس حقیقت میں ذرا برابر شبہ نہیں کہ اس ملک کی حکمران اشرافیہ عوام کے خون پسینے کی دولت کو باپ کی جاگیر کی طرح لوٹ رہے ہیں اور لوٹ مارکر یہ ظالمانہ سلسلہ اب ختم ہونا چاہیے ، لیکن ذرا سی بے احتیاطی اس عظیم مقصد کو نقصان پہنچاسکتی ہے۔ ان حالات میں احتسابی طاقتوں کو ایک ایک قدم احتیاط سے اٹھانا ہوگا کیونکہ یہ کام ملک میں پہلی بار ہورہاہے اور کرپٹ اشرافیہ ہر قیمت پر اس مہم کو ناکام بنانا چاہتی ہے۔

اس حوالے سے سب سے پہلے عوام اور میڈیا کو اعتماد میں لینے کی ضرورت ہے کیونکہ عوام اور میڈیا شکوک و شبہات میں مبتلا رہے تو احتسابی طاقتوں کے لیے مشکلات پیدا ہوسکتی ہیں اس میں ذرا برابر شک نہیں کہ اس ملک کے عوام احتساب کی مکمل حمایت کرتے ہیں اور میڈیا بھی مثبت کردار ادا کر رہا ہے۔

اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ ایک ہی وقت میں تمام منفی طاقتوں کے خلاف کریک ڈاؤن کیا جائے بلکہ جنگی حکمت عملی کا بھی یہی تقاضا ہوتا ہے کہ سب سے پہلے سب سے بڑے مخالف کو قابو کیا جائے تاکہ اس کے طبقاتی اتحادیوں کے حوصلے پست ہوں کیونکہ ایک ہی وقت میں ساری منفی طاقتوں کے خلاف لڑائی ساری منفی طاقتوں کو متحد کرنے کا خطرہ پیدا کردیتی ہے ۔ اسی لیے بڑے دشمن کو پہلے پھر اسی طریقے سے حالات کے مطابق ایک ایک کا صفایا کیا جاتا ہے لیکن پہلا قدم کمزور یا غیر منصوبہ بند ہو تو ایسے ہر کام میں مشکلات پیدا ہوسکتی ہیں۔

حالات اور مشاہدات سے یہی اندازہ ہو رہا ہے کہ احتسابی طاقتیں غیر ضروری احتیاط اور تحفظات کا مظاہرہ کررہی ہیں ہوسکتا ہے یہ طریقہ ان کی حکمت عملی کا حصہ ہو لیکن اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں کہ اس قسم کی غیر ضروری احتیاط سے عوام بد دلی کا شکار ہوجاتے ہیں اور ایسے نازک وقت میں عوام کی طرف سے بد دلی مصیبت کھڑا کرسکتی ہے۔

اس حوالے سے پنجاب کے وزیراعلیٰ شہباز شریف نے یہ سوال اٹھایا ہے کہ زرداری پر اربوں کی کرپشن، سوئس بینکوں اور سرے محل کے حوالے سے جو الزامات ہیں، اس کا احتساب کیوں نہیں کیا جارہا ہے ۔ چیف منسٹر پنجاب اس حقیقت سے واقف ہیں کہ موجودہ حالات میں زرداری کے خلاف کوئی اقدام ان کی طاقت کو 11=1x1 بنادے گا اور احتسابی طاقتیں بھی اس حقیقت سے واقف ہوںگی لہٰذا وہ محتاط طریقے سے قدم آگے بڑھا رہی ہیں۔ دوسرا خطرہ یہ ہے کہ پنجاب کے عوام موجودہ حکمرانوں کے مرہون منت یا ہمدرد ہیں جن کی ہمدردیوں کا سیاسی استعمال ہوسکتا ہے وہ اس خطرے سے احتسابی قوتیں یقینا واقف ہوںگی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں