بھارت کا لاڈلا

حافظ محمد زبیر  منگل 15 مئ 2018
نواز شریف کی بھارت سے محبت یک طرفہ نہیں بلکہ بھارت کو بھی نواز شریف کا دفاع کرتے کئی باردیکھا گیا ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

نواز شریف کی بھارت سے محبت یک طرفہ نہیں بلکہ بھارت کو بھی نواز شریف کا دفاع کرتے کئی باردیکھا گیا ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

’’عدلیہ کا لاڈلا عمران خان‘‘ ایوان سے اٹھتے اس نعرے کی گونج ابھی ختم نہیں ہوئی تھی کہ بھارت کے لاڈلے نے وہ کام کیا کہ پوری قوم حیرت میں مبتلا ہوگئی۔ ’’بھارت ماتا کی جے‘‘ یہ نعرہ بھارتی قوم اپنے ملک سے وفا کا ثبوت دیتے ہوئے لگاتی ہے لیکن ہمارے میاں محمد نواز شریف کی کیا ہی بات ہے جو اس نعرے کے بغیر ہی بھارت سے اپنی وفاداری نباہنے میں بھارتیوں سے کم نہیں۔ پاکستان کے خلاف نواز شریف کا یہ پہلا بیان نہیں، پہلے بھی نواز شریف پاکستان اور پاک افواج کے خلاف کئی بار ہرزہ سرائی کرچکے ہیں۔

نواز شریف کی بھارت سے محبت یک طرفہ نہیں بلکہ بھارت کو بھی نواز شریف کا دفاع کرتے کئی باردیکھا گیا۔ یہ بات اس وقت پاکستانیوں کے سامنے کھل کر آئی جب نواز شریف کے خلاف پاناما کیس پر بننے والی جے آئی ٹی میں ثبوتوں کے انبار پیش کیے گئے اور جے آئی ٹی میں ثبوت پیش ہونے کی دیر تھی کہ بھارت میں صف ماتم بچھ گی۔ تشویش کی یہ لہر نہ صرف بھارتی حکمرانوں میں پائی گئی بلکہ بھارتی میڈیا بھی اپنے حواس کھو بیٹھا۔

ایک بھارتی اخبار ٹائمز آف انڈیا نے اس وقت خبر شائع کی کہ نوازشریف مسند اقتدار سے الگ ہوئے تو کشمیر کی جدوجہدآزادی کو مزید تقویت ملے گی اور کشمیریوں کی آزادی کو روکنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہوجائے گا۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ ان دنوں پاک بھارت کشیدہ تعلقات کے باوجود نواز مودی تعلقات بہترین رہے۔

نواز شریف کا اس طرح پاکستان کے خلاف کھل کر سامنے آنا کچھ لوگوں کےلیے تعجب کی بات نہیں کیونکہ ڈاکٹر طاہرالقادری اپنی تقاریر میں بارہا اس بات کا ذکر کرچکے ہیں کہ نواز شریف اقتدار میں آئے نہیں، لائے گئے ہیں۔ اس میں ہمسایوں اور 7 سمندر پار کے دوستوں کی ہیوی انویسٹمنٹ شامل ہے، قوم تصویر کے اس رخ کو ذہنوں سے اوجھل نہ ہونے دے۔

نواز شریف نہ صرف پاکستان کےلیے بلکہ کشمیری عوام کی جدوجہدِ آزادی کےلیے بھی خطرے کا باعث بن سکتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ نواز شریف کشمیر کےلیے خطرے کا باعث کیسے؟

1947 سے بھارت کے کشمیر پر غاصبانہ قبضے کو کشمیری عوام نے کبھی تسلیم نہیں کیا اور اب تک لاکھوں کشمیری شہید ہوچکے ہیں اور مسلسل قابض بھارتی افواج کی بربریت کا شکار ہیں۔ پاکستان ہمیشہ کشمیریوں کے حق میں دنیا بھر میں آواز بلند کرتا آیا ہے اور گزشتہ کئی سال سے اقوام متحدہ میں پاکستان کشمیریوں کے حق کےلیے لڑ رہا ہے۔ جب بھی اقوام متحدہ کا اجلاس ہوا، پاکستان کے نمائندے کشمیر کے حوالے سے اپنا دو ٹوک مؤقف پیش کرتے آئے ہیں لیکن جب بھی پاکستان کی نمائندگی نواز شریف نے کی، نہ صرف کشمیر کے حوالے سے بلکہ لائن آف کنٹرول کی کشیدہ صورتحال پر بھی واضح مؤقف دینے میں ناکام رہے۔

مولانا فضل الرحمن نواز شریف کی منتخب کردہ کشمیر کمیٹی کے چیئرمین کی حیثیت سے کئی سال سرکاری خزانے پر بوجھ بنے رہے، جو کشمیر مسئلے کا حل تو دور کی بات کشمیری عوام پر ہونے والے مظالم پر مذمت کرنا بھی گوارا نہیں کرتے۔ نواز شریف اور فضل الرحمن نے کشمیریوں پر ہونے والے بدترین ظلم پر مسلسل خاموشی اختیار کیے رکھی جس نے انڈیا کے حوصلے اتنے بڑھا دیئے کہ انہوں نے پہلی بار کشمیریوں پر کیمیکل حملے شروع کیے جو انسانی حقوق کی سنگین ترین خلاف ورزی ہے۔

نواز شریف پاکستان کےلیے سیکیورٹی رسک بن چکے ہیں۔ ان کی پاکستان اور پاکستانی اداروں کے خلاف مہم جوئی دشمنوں کا ایجنڈا ہے۔ نواز شریف عوام اور اداروں کے درمیان فاصلے پیدا کرکے دشمنوں کو کھل کھیلنے کا موقع دے رہے ہیں۔

پاکستانی عوام بھارتی وزیراعظم کی اچانک لاہور آمد کیسے بھول سکتے ہیں جب نواز شریف کی نواسی مہرالنساء صفدر کی رسم مایوں منعقد کی گئی جس میں نوازشریف سمیت، وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف اور سابق وزیرخزانہ اسحاق ڈار سمیت اہم رہنماﺅں نے شرکت کی۔ مہرالنساء کی مایوں کی تقریب میں بھارتی وزیراعظم نریندر مودی بھی شریک ہوئے۔ اس موقعے پر دھوم دھڑکے، ہلے گلے، موج مستی اور گانے بجانے کا بھی خاص اہتمام کیا گیا۔

ایسا نہ صرف کشمیری عوام بلکہ لائن آف کنٹرول پر ہر روز بھارتی درندگی کا نشانہ بننے والے پاکستانیوں کے خون سے غداری ہے۔ شیخ مجیب کے نقش قدم پر چلنے والے اس سیاسی سنپولیے کا اژدھا بننے سے پہلے سر کچلنا ہوگا۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔