کراچی کا مستقبل
دوسرے صوبوں سے کراچی آنے والوں میں جرائم پیشہ لوگوں کی ایک بڑی تعداد شامل رہتی ہے۔
کراچی دو کروڑ سے زیادہ انسانوں کا ایک ایسا شہر ہے جس میں پاکستان کے مختلف شہروں اور چاروں صوبوں آزاد کشمیر، گلگت، چترال سے تعلق رکھنے والے شہری ہی نہیں رہتے بلکہ افغانستان سے آنے والے لاکھوں افغان باشندے بھی رہتے ہیں۔
اس کے علاوہ بنگالی، برمی اور دنیا کے کئی دوسرے ممالک سے آنے والے لاکھوں لوگ بھی اس مائی باپ شہر کی آغوش میں سمائے ہوئے ہیں جن کی زبانیں الگ الگ ہیں جن کے کلچر الگ الگ ہیں، ایسے میگا سٹی میں شہریوں کو امن اور آشتی سے رکھنے کے لیے حکمرانوں میں بڑی سوجھ بوجھ، رواداری اور دور اندیشی ضروری ہے۔ یہ اسی وقت ممکن ہے جب حکمرانوں کی پہلی ترجیح عوامی مفادات ہوںگے اگر حکمرانوں کی ترجیح عوام کے اجتماعی مفادات کے بجائے ذاتی جماعتی اور طبقاتی مفادات بن جائے تو شہر محبت، امن و آشتی کا گہوارہ بننے کے بجائے اختلافات، منافرت، تعصبات کی آماجگاہ بن جاتے ہیں۔
عام آدمی خواہ اس کا کسی شہر،کسی صوبے،کسی ملک سے تعلق ہو وہ بڑے صنعتی شہروں میں روزگار کے لیے آتا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہمارا حکمران طبقہ باہر سے آنے والوں کے لیے روزگار،کاروبار رہائش وغیرہ کا انتظام کرتا ہے؟ اس انتہائی حساس سوال کا جواب نفی میں ہے۔ حکمران طبقات نے ایسی کوئی ذمے داری نہ ماضی میں اٹھائے ہیں نہ حال میں اٹھاتے نظر آرہے ہیں۔ ان کی پہلی اور آخری ترجیح ذاتی اور جماعتی مفادات رہے ہیں جس کا نتیجہ یہ ہے کہ اس شہر میں عوام کے درمیان محبت اور یکجہتی کے بجائے اجنبیت، تعصب اور نفرت کے جذبات فروزاں ہیں۔
حکمرانوں کی طرف سے روزگار اور رہائش کے انتظامات نہ ہونے کی وجہ سے کچھ بستیوں کا ایک لا متناہی سلسلہ موجود ہے۔ جہاں نہ سیوریج سسٹم ہے نہ پانی کی فراہمی کا کوئی انتظام ہے نہ بجلی کا کوئی مستقل انتظام ہے۔ ہر شخص ایک ادھوری اور اذیت ناک زندگی گزار رہا ہے، اس اذیت ناک زندگی میں جرائم کی پرورش ایک فطری امر ہے آج کراچی جرائم کا اڈہ بن گیا ہے تھانے ان مجرموں کی پناہ گاہیں بنی ہوئی ہیں۔ جس شہر میں تھانے نیلام ہوتے ہیں اور زیادہ بولیاں دینے والے تھانے خرید لیتے ہیں اس شہر میں جرائم کی صورتحال کس قدر سنگین ہوسکتی ہے اس کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔
اس حوالے سے ایک المیہ یہ ہے کہ پڑھے لکھے نوجوان جب نوکریوں کی تلاش میں ناکام ہوجاتے ہیں تو ان کے لیے جرائم کے راستے کے علاوہ کوئی راستہ نہیں رہ جاتا، آج مجرموں کا سروے کیا جائے تو یہ دردناک حقیقت سامنے آتی ہے کہ مجرموں کی اس بھیڑ میں روزگار سے محروم تعلیم یافتہ نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد شامل نظر آئے گی۔
دوسرے صوبوں سے کراچی آنے والوں میں جرائم پیشہ لوگوں کی ایک بڑی تعداد شامل رہتی ہے جو گروہ بناکر جرائم کا منظم ارتکاب کرتے ہیں انتظامیہ کی دانستہ چشم پوشی اور ملی بھگت سے جرائم پیشہ افراد اس قدر دلیر ہوگئے ہیں کہ عام آدمی ان کے سامنے بے بسی کی تصویر بنا رہتا ہے۔ آج کل جس دھڑلے سے جرائم ہورہے ہیں اس کا اندازہ دیکھ کر کیا جاسکتا ہے۔
ہمارے حکمرانوں کو یہ شکایت رہتی ہے کہ کچھ لوگ لسانی سیاست کرکے ملک کے لیے مشکلات پیدا کررہے ہیں بلاشبہ لسانی اور قومیتوں کی سیاست ملک و قوم کے لیے فالِ نیک نہیں لیکن ہماری سیاست کا عالم یہ ہے کہ اپنی سیاسی ضرورتوں کے تحت حکمران طبقات لسانی سیاست کرنے والوں کے کبھی اتحادی بن جاتے ہیں کبھی مخالف بن جاتے ہیں۔
ہمارے حکمران طبقات نے انگریزوں کے نقش قدم پر چلتے ہوئے لڑاؤ اور حکومت کرو کی پالیسی اپنالی ہے اس مفاداتی پالیسی کا نتیجہ یہ ہے کہ لسانی اور قومیتی سیاست ہمارے ملک میں مستحکم ہوگئی ہے مفاداتی سیاست کا تقاضا یہ ہوتا ہے کہ قوم کو مختلف حصوں میں بانٹ کر رکھا جاتا ہے، یہ کیسا المیہ ہے کہ ہر زبان بولنے والے مختلف قومیتوں سے تعلق رکھنے والے غریب لوگ ایک ہی طبقے یعنی غریب طبقے سے تعلق رکھتے ہیں لیکن بد بخت سیاست دان انھیں لسانیت اور قومیت کا زہر پلاکر ایک دوسرے کے سامنے کھڑا کردیتے ہیں اور خود مال بناتے ہیں۔
افغانستان میں ہونے والی دہشت گردی سے گھبراکر لاکھوں افغانی پاکستان آگئے ان میں وہ دولت مند بھی شامل تھے جو منشیات اور اسلحے کا کاروبار کرتے تھے اس کاروبار سے جو بھاری دولت انھوں نے حاصل کی اس سے کراچی میں وہ کاروبار بھی کررہے ہیں اور قیمتی جائیدادیں بھی خرید رہے ہیں کراچی کی ہر مارکیٹ میں یہ حضرات دکانیں خرید کر کامیاب بزنس کررہے ہیں اور غریب مزدوری کر رہا ہے۔ سڑکیں کھود رہا ہے، مارکیٹوں میں مزدوری کر رہا ہے اور ان کا کچھ حصہ جرائم کی دنیا کا باسی بھی بن گیا ہے۔
میں نے نشاندہی کی تھی کہ میڈیا میں لسانی سیاست کی مذمت کرنے والے اپنی سیاسی ضرورتوں اور مفادات کی خاطر لسانی سیاست کرنے والوں سے دوستیاں بھی بڑھاتے ہیں اور ان کے اتحادی بھی بن جاتے ہیں۔ شہر میں اعلیٰ تعلیم یافتہ اور ہنرمند ہزاروں نوجوان ڈگریاں لیے مارے مارے پھررہے ہیں اور نان میٹرک، میٹرک پاس لوگ اعلیٰ عہدوں پر براجمان ہیں کیا یہ نا انصافیاں رنگ نہیں لائیںگی۔ ابھی 12مئی کا دن منایا گیا 2007 میں جو کچھ ہوا وہ ایک افسوسناک المیہ تھا لیکن اس کو جو فکر دیا گیا وہ اس المیے سے زیادہ گہرا المیہ ہے۔
سرمایہ دارانہ نظام نے حصول دولت کا جو کلچر پیدا کردیا ہے اس نے انسانوں کو حیوان بناکر رکھ دیا ہے۔ مراعات یافتہ طبقات دولت کے حصول کی اس اندھی دوڑ میں ایک دوسرے سے آگے نکلنے میں مصروف ہیں اور غریب طبقات خواہ ان کا لسانی اور قومیتی تعلق کسی لسانی یا قومیتی گروہوں سے ہو بھوک، بیماری، بیکاری جیسی لغشوں میں گرفتار ہیں اوپر کی سطح پر نہ لسانی تفریق ہے نہ قومیتی تفریق ہے نہ فقہی تفریق ہے یہ طبقہ ایک جیسی پوش بستیوں میں رہتا ہے ان کی آپس میں رشتے داریاں بھی ہیں لیکن غریب طبقات کو تعصب اور نفرت کے سمندر میں دھکیل دیا گیا ہے اگر یہی صورتحال رہی تو کراچی کا مستقبل بڑا مخدوش ہوگا۔