الیکشن 2018: امید اور اندیشے

محمد مشتاق ایم اے  پير 11 جون 2018
25 جولائی 2018 بروز بدھ کو پولنگ کا دن مقرر کیا جا چکا ہے اور قومی و صوبائی اسمبلیوں کےلیے ایک ہی دن پولنگ ہوگی۔ فوٹو: انٹرنیٹ

25 جولائی 2018 بروز بدھ کو پولنگ کا دن مقرر کیا جا چکا ہے اور قومی و صوبائی اسمبلیوں کےلیے ایک ہی دن پولنگ ہوگی۔ فوٹو: انٹرنیٹ

اللہ اللہ کرکے، گرتے پڑتے اور نشیب وفراز سے گزرتے پاکستان مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے 31 مئی 2018 کو اپنی پانچ سالہ حکومت مکمل کرلی۔ اس کے ساتھ ہی الیکشن کمیشن نے انتخابات کا بگل بھی بجا دیا ہے جس کی وجہ سے رمضان المبارک کے مہینے کے باوجود ملک میں الیکشن کی گہما گہمی شروع ہوچکی ہے۔ آج کل ملک میں گرمی بھی زوروں پر ہے مگر سیاست کو گرمی کی کیا پرواہ ہے اور رمضان المبارک ہونے کی وجہ سے افطار پارٹیوں کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے۔ اب ان سیاسی افطاریوں کے پیچھے کیا نیت کارفرما ہے؟ وہ یا تو سیاسی قائدین جانتے ہیں یا پھر یقیناً اللہ کی ذات بہتر جانتی ہے اور اس کا ثواب نیت کی بنیاد پر دیا جائے گا کیونکہ اعمال کا دارومدار نیت پر ہے۔

حکومت کے خاتمے پر مخالفین اپنے اندر امیدوں کے چراغ روشن کئے ہوئے ہیں کہ اب ان کی باری ہے اور دوسری طرف پانچ سالہ حکومت پوری کرنے والی پارٹی کے نمائندے اس بات پر سینہ پھلائے بیٹھے ہیں کہ انہوں نے گزشتہ پانچ سال میں جو تیر مارے ہیں اس بنیاد پر عوام اگلے پانچ سال کےلیے بھی ان ہی کو دوبارہ منتخب کرکے اسمبلیوں میں بھیجے گی۔ ہر کوئی اپنے اپنے سپنوں کے تاج محل تعمیر کررہا ہے اور اس کے علاوہ وہ کچھ دوسرا دیکھنا ہی نہیں چاہتا۔ حد تو یہ ہے کہ ان پارٹیوں کو بھی اپنی حکومت بنتی نظر آرہی ہے جن کے پاس اتنے امیدوار ہی نہیں کہ وہ انہیں کم ازکم حکومت کےلیے درکار سیٹوں پر الیکشن میں کھڑا کرسکیں، ہار جیت تو اس کے بعد کا معاملہ ہے۔

اب تک کی اطلاعات کے مطابق 25 جولائی 2018 بروز بدھ کو پولنگ کا دن مقرر کیا جا چکا ہے اور قومی و صوبائی اسمبلیوں کےلیے ایک ہی دن پولنگ ہوگی۔ اگر اسی شیڈول کے مطابق بغیر کسی تاخیر کے ان انتخابات کا کامیاب انعقاد ہوجاتا ہے تو یہ بھی ہماری بڑی خوش قسمتی ہوگی کہ پاکستان بننے کے بعد سے اب تک دو اسمبلیوں نے لگاتار اپنی پانچ سالہ مدت پوری کی جو ایک بہت اچھا شگون ہے اور اللہ کا شکر کہ ان دس سال میں کسی جنرل صاحب کے دل میں حکومتی مزے لینے کی خواہش نے انگڑائی نہیں لی ورنہ ابھی تک پھر ہم جمہوریت کو پٹڑی پر لانے کی باتیں کررہے ہوتے اور سیاستدان ایک دوسرے پر الزام کی بارش کررہے ہوتے کہ کس جماعت نے جمہوریت کو ڈی ریل کرنے کی راہ ہموار کی۔

زندہ اور باشعور قومیں ہمیشہ اپنے ماضی سے سبق حاصل کرکے اپنے حال اور مستقبل کو بہتر بنانے کی تگ و دو میں لگی رہتی ہیں اور اس طرح وہ ارتقائی عوامل سے گزرنے کے بعد آخرکار اپنے عوام کو شعور کے اس اسٹیج تک لے آتی ہیں کہ وہ قوم پھر ترقی یافتہ قوموں کی صف میں کھڑی ہو جاتی ہے۔ اس سلسلے میں ہماری بدقسمی کہ ہماری سیاسی پارٹیوں اور ان کے قائدین نے آج تک ایسی کوئی رسم نہیں ڈالی کہ جس کی بدولت اس عوام کو ایک قوم بنایا جا سکے۔ ہمارے قائدین کا مطمع نظر صرف اور صرف اقتدار کا حصول رہا ہے کیونکہ ان کے نزدیک اگر وہ حکومت میں ہیں تو سب ٹھیک ہے ورنہ ملک کی انتہائی بری حالت ہے۔ اس بات کا ثبوت یہ ہے کہ ہر بننے والی حکومت ابھی پوری طرح سے اپنے آپ کو سنبھال بھی نہیں پاتی کہ اپوزیشن پارٹیاں نہ صرف ان کی ٹانگیں کھینچنا شروع کردیتی ہیں بلکہ ذرا ذرا سی بات پر اس سے استعفیٰ طلب کرنے لگتی ہیں جیسے یہ کوئی گڈے گڑیا کا کھیل ہو، کہ جھٹ شروع اور پٹ ختم۔ سیاستدانوں کی یہی روش ہمارے ملک میں کئی بار فوجی حکومتوں کا سبب بنی کیونکہ فوجی حکومت بھی سیاسی جماعتوں کا کندھا استعمال کرتی ہے۔ اس بدقسمتی سے حکومت مخالف جماعتیں نہ صرف فوجی حکومت کی حمایت کرتی رہی ہیں بلکہ اس میں شامل ہوکر ایسے ایسے بیان دیتی رہی ہیں کہ ایک جمہوریت پسند شخص کی سمجھ میں نہیں آتی کہ وہ سر کو روئے یا جگر کو پیٹے۔

اب اگر ہم اپنے ملک میں ہونے والے پچھلے تمام انتخابات کا جائزہ لیں تو کوئی ایک بھی ایسے انتخابات نہیں جن میں دھاندلی، ہارس ٹریڈنگ، پری پول رگنگ اور کرپشن کے الزامات نہ لگے ہوں۔ ہم نے سنا ہے کہ شاید 1970 کے انتخابات دوسرے انتخابات سے قدرے بہتر ہوئے تھے مگر ہم ایسے بھی شفاف انتخابات کا کیا کریں کہ جن کے نتیجے میں آدھا ملک ہی کھو دیا جائے۔

انتخابات کا عمل جہاں لوگوں کو اپنی رائے دینے اور مرضی کے لوگوں کو حکومت میں آنے کا موقع دیتا ہے وہیں اگر بغیر رکاوٹ کے اگلے انتخابات اپنے مقررہ وقت پر ہونے کا سلسلہ جاری رہے تو ہر سیاستدن عوامی رائے کی چھلنی سے گزر کر آئے گا تو ایک تو اسے معلوم ہو گا کہ عوام کی طاقت کے بغیر میرے لیے یہاں پہنچنا ممکن نہیں لہذا وہ اِدھر اُدھر کے ہتھکنڈے استعمال نہیں کرے گا اور دوسری طرف اس سے ہر ووٹر کے شعور میں اضافہ ہوگا اور سیاسی تربیت کے نتیجے میں وہ ہر آنے والے انتخابات میں پہلے سے بہتر رائے قائم کرنے کی پوزیشن میں ہوگا۔ لیکن ان سب باتوں کےلیے جمہوریت اور مقررہ وقت پر انتخابات کا تسلسل بہت ضروری ہے۔

اس وقت سب سے زیادہ ضرورت اس امر کی ہے کہ جو ادارے انتخابات کرانے کے ذمہ دار ہیں وہ اس بات کی اہمیت کو سمجھیں کہ یہ محض ایک رسمی کارروائی نہیں کہ جو ہر پانچ سال بعد دوہرائی جانی ہوتی ہے بلکہ یہ پل صراط ہے جسے پار کرنا ہے، اس سے آپ کے ملک کے ایک ایک شہری کا مستقبل وابستہ ہے۔ سب اداروں کو اپنی ذمہ داری ایسے سر انجام دینی چاہیے کہ انتخابات پر کوئی بھی شخص انگلی نہ اٹھاسکے۔ اس سلسلے میں سب سے زیادہ ذمہ داری بلاشک و شبہ الیکشن کمیشن آف پاکستان پر عائد ہوتی ہے۔ اس ادارے کو بخوبی علم ہے کہ پچھلے انتخابات کے بعد سیاسی پارٹیوں نے اس پر بھی الزامات کی بارش کی تھی اور دس طرح کے اعتراضات اٹھائے گئے تھے۔ ان انتخابات کے نتیجے میں جہاں امید کا ایک در کھلا ہے وہیں وہ پرانے سارے اندیشے بھی سر اٹھائے کھڑے ہیں جن کی بدولت ملک پورے پانچ سال ایک ہیجانی کیفیت کا شکار رہا اور ایک دوسرے پر الزامات کی بارش ہوتی رہی۔ یہ سلسلہ گزشتہ حکومت کے خاتمے کے آخری دن تک جاری رہا۔

ہم امید کرتے ہیں کہ اب کی بار ان الزامات کی نوبت نہیں آئے گی اور انتخابات کے انعقاد کو کامیاب بنانے کےلیے ہر فرد اور ادارہ اپنی ایمانداری سے پوری کوشش کرے گا۔ اس سلسلے میں نیچے دئے گئے اقدامات ممد و معاون ثابت ہوسکتے ہیں۔ ویسے بھی پچھلے انتخابات کے بعد اداروں نے بہتر حکمت عملہ اپنانے کا فیصلہ تو یقیناً کرلیا ہوگا تاکہ اس بار ان اندیشوں کا راستہ بند کیا جاسکے۔

الیکشن کمیشن انتخابات کو آزادانہ، منصفانہ اور غیر جانبدارانہ بنانے کےلیے پوری کوشش کرے اور اس راستے میں حائل رکاوٹوں کے ساتھ آہنی ہاتھوں سے نمٹنے کےلیے درکار وسائل کا بھرپور استعمال کرے تاکہ کوئی فریق بھی اس پر انگلی نہ اٹھاسکے۔

الیکشن کمیشن اپنے طے کردہ ظابطہ اخلاق پر سختی سے عمل درآمد کروائے۔ جو فریق اس کی خلاف ورزی کرے اس کے خلاف فوراً کارروائی کرے۔

امیدواروں کے کاغذات کی فول پروف جانچ پڑتال کی جائے تاکہ بعد میں مسائل کھڑے نہ ہوں۔

آئین کے آرٹیکل 62 اور 63 کو اگر قائم رکھنا ہے تو امیدواروں کی جانچ پڑتال کرتے وقت اس بات کو مدنظررکھا جائے کہ وہ اس پر پورے اترتے ہیں یا نہیں، بجائے اس کے کہ بعد میں وہ ان آرٹیکلز کے تحت ساری عمر کےلیے نااہل ہوتے رہیں۔

سیاسی پارٹیوں کے جلسوں میں گالی گلوچ اور غیر مہذب زبان پر پابندی لگائی جائے اور جو باز نہ آئے اس فورا سبق سکھا کر دوسروں کےلیے مثال بنایا جائے۔ ملک اور اس کے اداروں کے اوپر کیچڑ اچھالنے کی ہرگز اجازت نہ دی جائے اور اسے ہر گز برداشت نہ کیا جائے۔

انتخابات منعقد کرانے والے عملے کی جدید طرز پر تربیت کرائی جائے تا کہ وہ ہر مرحلہ آسانی کے ساتھ سرانجام دے سکے۔

انتخابات کے دوران امیدوار کے انتخابی خرچ پر گہری نظر رکھی جائے اور اس کو پابند کیا جائے کہ وہ اس کی خلاف ورزی نہ کرسکے۔

مختلف حساس پولنگ اسٹیشنز پر امن و امان برقرار رکھنے کے بھرپور اقدامات کئے جائیں تاکہ وہاں پولنگ کو کسی صورت رکوایا نہ جاسکے۔

انتخابی عملے کے معاوضے میں خاطر خواہ اضافہ کیا جائے تاکہ وہ خوشی سے یہ ڈیوٹی سرانجا دے نہ کہ مجبوری کی کیفیت میں۔

انتخابی نتائج کی فراہمی کا ایسا طریقہ کار وضع کیا جائے کہ کسی فریق کو کوئی ابہام نہ رہے اور اسے فوری طور پر نتائج کی کاپی مہیا کردی جائے۔

تمام سیاسی جماعتوں کو یکساں انتخابی میدان مہیا کرنے کےلیے ضروری اقدامات کئے جائیں تاکہ کل کوئی اس بات کا گلہ نہ کرسکے۔

انتخابات کے بعد کی شکایات کےلیے ایک سیل قائم کیا جائے جو فوراً شکایات کا جائزہ لے کر فیصلے میں تاخیر نہ کرے۔

دھاندلی کی شکایات کا فوراً جائزہ لیا جائے اور روزانہ کی بنیاد پر کیسوں کی سماعت کرکے جتنی جلدی ممکن ہو ان پر فیصلہ کیا جائے۔

اعلیٰ عدالتوں میں جانے والے کیسوں کا بھی فوری فیصلہ کیا جائے اور تاخیری حربے استعمال کرنے والے فریق کی کوشش کو ناکام بنایا جائے۔

سب امیدواروں اور پارٹیوں کو انصاف کے ایک ہی معیار پر پرکھا جائے اور بلا تاخیر انصاف کی فراہمی یقینی بنائی جائے۔

آنے والی حکومت کی بھی ذمہ داری ہوگی کہ بعد میں اٹھائے جانے والے سوالات کے جوابات دینے کے شفاف انتظامات کرے اور فریق مخالف کو مطمئن کرے تاکہ اس کی غلط فہمی دور ہو سکے۔

آنے والی اپوزیشن سے بھی یہ اپیل کی جاسکتی ہے کہ وہ اپنا کردار ملکی ترقی کے حوالے سے ادا کرے اور مخالفت برائے مخالفت کی پالیسی اختیار نہ کرے۔

نئی حکومت سے یہ بھی گزارش ہے کہ ملک کے بجٹ کو تقسیم اور استعمال کرتے وقت انصاف سے کام لے بلکہ پسماندہ علاقوں کو اگر ان کے تناسب سے بھی کچھ زیادہ دے دیا جائے تو یہ بہت احسن اقدام ہو گا۔

سیاسی جماعتوں کے قائدین اپنے کارکنوں کو صبر اور تحمل کی تلقین کریں اور انہیں مخالف لوگ اور مخالف رائے کو برداشت کرنے کا درس دیں۔

انتخابات کے بعد مخالف کو گالی گلوچ اور غیر مہذب زبان اور القابات سے نوازنے سے پرہیز کیا جائے۔

سوشل میڈیا پر بیٹھے جاہل اسکالر حضرات جو سیاسی اور مذہبی منافرت پھیلانے میں مصروف رہتے ہیں، ان کو لگام دینے کا بندوبست کیا جائے۔

صرف اپنے آپ کو فرشتہ اور دوسروں کو شیطان کہنے اور سمجھنے کی روش ترک کردینی چاہیے اس سے جگ ہنسائی کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا۔

اپنے آپ کو ملک کا وفادار اور باقی سب کو غدارسمجھنے کی بیماری سے بھی نجات پانا ملکی ترقی کےلیے اشد ضروری ہے۔

آخر میں سب سے اہم بات کہ حکومتی اور اپوزیشن جماعتیں ملک کی ترقی میں اپنا کردار ادا کریں اور کھینچا تانی کی سیاست کو خدا حافظ کہہ دیں۔

ہم امید کرتے ہیں کہ ان شاء اللہ ہمارے آئندہ انتخابات پہلے سے بہتر ہوں گے اور اس کےلیے ہر فرد اور ہر ادارہ اپنا بھرپور مثبت کردار ادا کرے گا کیونکہ صرف اسی طرح حقدار کو اس کا حق ملے گا اور وہ سارے اندیشے جو ہمارے ذہنوں کے کونوں کھدروں میں کروٹیں لے رہے ہیں، وہ اپنی موت آپ مرجائیں گے۔ اللہ ہمارے ملک کا حامی و ناصر ہو۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

محمد مشتاق ایم اے

محمد مشتاق ایم اے

بلاگر ایک کالم نگار، سیاسی، سماجی اور کاروباری تجزیہ کار ہیں۔ سیاست، مذہب، تعلیم اور دوسرے سماجی موضوعات میں دلچسپی رکھتے ہیں اور ان ہی پر زیادہ لکھتے ہیں۔ انہیں ٹوئٹر آئی ڈی @MMushtaq28 پر فالو کیا جاسکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔