یہ جیون بھی کیا جیون ہے!

عبداللطیف ابو شامل  اتوار 10 جون 2018
’’عروج‘‘ کے سوال کا جواب کون دے گا۔ فوٹو: فائیل

’’عروج‘‘ کے سوال کا جواب کون دے گا۔ فوٹو: فائیل

اس کی ماں نے اس کا نام ’’عروج‘‘ رکھا تھا۔ نہ جانے یہ کیسا عروج ہے؟ اسے معلوم نہ تھا کہ اس کی بیٹی کے لیے زندگی ایسی کٹھن، دشوار اور جان لیوا ہوگی، اسے سفاک رویوں کی بے حس گھاٹیوں سے گزرنا ہوگا۔ جہاں اس کا ہر دن نیا جہنم تخلیق کرے گا اور راتیں سیاہی کا عذاب لیے نمودار ہوں گی، وہ پل پل مرے گی، اسے کیا کچھ سہنا ہوگا۔

وہ زندہ ہی کب ہے جو میں اسے زندہ لکھ دوں۔ اسے تو ایسے گناہ کی سزا دی جا رہی ہے جو اس نے کیا ہی نہیں ہے۔ اس کی پیدائش کے دنوں میں اس کے گھر والوں کو امید تھی کہ لڑکا پیدا ہوگا مگر وہ پیدا ہوگئی۔ لڑکی ہونا اس کا جرم بن گیا اور اسے معتوب ہونا پڑا۔ اسے سب نے دھتکار دیا۔ جی ہاں! باپ نے بھی جو بیٹیوں پر جان نثار کردیتا ہے۔ میں اس باپ کو کیا کہوں۔ میں اسے کوئی نام نہیں دے سکتا۔

کیا حالات اب بھی نہیں بدلے۔ کیا ہم اب بھی اس دور میں زندہ ہیں جہاں لوگ اپنی بیٹیوں کو زندہ درگور کردیا کرتے تھے۔ مجھے کہنے کی اجازت دیجیے کہ وہی دور اچھا نہیں تھا جب بیٹیوں کو اپنے ہاتھوں سے زمین میں زندہ گاڑھ دیا جاتا تھا۔ پل پل مارنے سے ایک ہی بار مار دینا زیادہ بہتر نہیں تھا؟

میری ہر سانس پھانس بن کر گلے میں اٹک گئی تھی۔ سینہ شق ہوگیا ہے اور دھڑکنیں گم ہوگئی ہیں۔ ہم تو اس کے امتی ہیں جس نے ایسا کرنے والوں سے منہ پھیر لیا تھا۔

میں اس کی آپ بیتی کیسے لکھوں، کہاں سے اتنی ہمت لاؤں، کیا اپنے سینے میں دل کو پتھر کرلوں اور سانس روک لوں۔ انیس سال کی عمر میں اس نے جو کچھ سہا ہے وہ دو سطروں میں کیسے بیان کردوں۔ وہ تو ہر پل مصلوب رہی ہے، اس کا دکھ کیسے اس صفحے پر بکھیر دوں۔

وہ اتنی خوددار ہے کہ مجھے پورے دو ماہ اسے سمجھانے میں لگے تب جاکر وہ اپنی کہانی سنانے پر آمادہ ہوئی اور جب میں نے اس کی کہانی آپ کو سنانے کی اجازت طلب کی تو وہ پھر بہ ضد تھی کہ میں ایسا نہ کروں۔ لیکن میں آپ کو یہ زخم دکھانا چاہتا ہوں۔ کیا آپ میں اتنی سکت ہے؟ وہ اپنے ماں باپ اور چھوٹے بھائیوں کے ساتھ گندی اور انتہائی بدبودار ندی کے کنارے ایک کمرے کے مکان میں رہتی ہے۔ جہاں پر پل بھر بیٹھنا بھی دشوار ہے۔ ایک زرد رنگ کا مدقوق بلب ماحول کو پراسرار اور رنجیدہ بناتا ہے۔ اسے پینے کا پانی بھی خاصی دور جاکر پختہ مکانوں سے حاصل کرنا پڑتا ہے۔

دیکھیے عروج کیسے زندہ ہے اور ان حالات کا مقابلہ کیسے کر رہی ہے۔ وہ آئینہ بن کر کھڑی ہے اور یہ جانتی ہے کہ وہ حالات اور رویوں کو نہیں بدل سکتی۔ مگر وہ ظلم کے مقابل کھڑی تو ہے۔

میری پیدائش کے موقع پر میرے دادا کو توقع تھی کہ لڑکا پیدا ہوگا اور انھوں نے اپنے تئیں مستقبل کے منصوبے بھی بنا لیے تھے لیکن میں پیدا ہوگئی۔ ان کا کہنا تھا پہلے بھی لڑکی پیدا ہوئی اور اب بھی لڑکی۔ بس پھر کیا تھا ان کا رویہ میری امی سے تلخ ہوگیا۔ میں نے جب ہوش سنبھالا تو یہی سنا۔ کہاں سے آگئی یہ مصیبت۔ میں دادا کے پاس جاتی تو وہ مجھے جھڑک دیتے کہ دور ہٹ جاؤ، چلی جاؤ یہاں سے۔ آخر میں انسان ہوں۔ مجھے احساس ہوگیا کہ دادا مجھے اچھا نہیں سمجھتے۔ اچھا تو دور کی بات وہ مجھے انسان بھی نہیں سمجھتے تھے۔ بچپن سے ہی میں ان حالات کا شکار ہوگئی۔

مجھے دکھ ہوتا تھا۔ میں نے بچپن ہی سے یہ سنا ہے کہ میری قسمت خراب ہے، نصیب ہی اچھا نہیں ہے۔ دوسری طرف والدہ تھیں۔ وہ مجھے دیکھ دیکھ کر روتی تھیں۔ میں بس گم سم ہوگئی تھی اور مجھے احساس ہوگیا تھا کہ میں ناکارہ ہوں۔ مجھ سے کوئی پیار نہیں کرتا۔ میں منحوس ہوں۔

روز روز کی لڑائی سے میری والدہ تنگ آگئیں تو انھوں نے مجھے نانی کے گھر بھیجنے کا فیصلہ کیا۔ میری نانی لاہور میں رہتی ہیں۔ میں نے تیاری کی اور میری والدہ مجھے لاہور لے آئیں۔ نانی کے سپرد کردیا۔ سچی بات بتاؤں۔ مجھے بہت اچھا لگا تھا کہ جہنم سے نجات مل گئی۔ مگر پھر بھی میں یہی کہوں گی کہ میری قسمت ہی خراب ہے۔ کچھ دن اچھے گزرے اور پھر مجھے خالہ کے گھر بھیج دیا گیا۔ خالہ سسرال کے ساتھ رہتی تھیں، پوری فیملی تھی۔

میں بھی بڑی ہوگئی تھی، بارہ سال کی۔ اپنا اچھا برا سمجھتی تھی۔ مجھ جیسا بچہ تو بہت جلدی بڑا ہوجاتا ہے۔ میری خالہ کے دیور جن کی عمر تئیس سال تھی وہ بھی ہمارے ساتھ رہتے تھے۔ پھر گھر والوں نے یہ فیصلہ کیا کہ میری ان کے ساتھ شادی کردی جائے۔ اس طرح میری شادی میری خالہ کے دیور سے بارہ سال کی عمر میں کردی گئی اور یوں میری اور خالہ کی ساس ایک ہی ہوگئی۔ ہمارے معاشرے میں لڑکیوں سے کوئی نہیں پوچھتا بلکہ جہاں گھر والوں کی مرضی ہوتی ہے وہاں ان کی شادی کردی جاتی ہے۔ نہ عمروں کا فرق دیکھا جاتا ہے، مجھ سے بھی نہیں پوچھا گیا۔ میں نے بھی صبر و شکر کرکے اس فیصلے کو قبول کرلیا۔

اس کے بعد یہ ہوا کہ مجھے حکم دیا گیا کہ میں سر جھکا کر رکھوں۔ اپنی ساس کی خدمت کروں۔ وہ چاہے کچھ بھی کریں، کہیں، میں خاموش رہوں۔ بلکہ مجھ پر احسان کیا گیا اور کہا گیا کہ تم تو بے سہارا ہو، تمہارے ماں باپ بھی تم سے تنگ ہیں۔ ہم نے تمہیں سہارا دیا ہے۔ بس پھر ہم تھے اور کام تھا۔

شوہر ایک تو وہ مجھ سے دگنی عمر کا تھا۔ پھر ظاہر ہے وہ آدمی تھا۔ باہر گھومتا تھا، سگریٹ پیتا تھا۔ شراب اور جوا اس کے کام تھے۔ اور کیا بتاؤں؟ میرا نکاح دو سال رہا۔ اس دوران میں نے بہت ظلم سہا بلکہ سب کچھ برداشت کیا۔ یہ دیکھ کر میری خالہ بہت دکھی ہوتی تھیں۔ انھوں نے میری ماں کو ساری بات لکھ دی۔ ماں تو ماں ہوتی ہے، وہ برداشت نہ کرسکی اور مجھے لینے لاہور پہنچ گئی۔ مجھے دیکھ کر بہت روئی اور پھر ساتھ کراچی لے آئی۔ یہاں پہنچ کر انھوں نے کہا کہ میری بچی واپس نہیں جائے گی۔ پھر میری طلاق کا مطالبہ کردیا۔ میں خود بھی یہی چاہتی تھی۔ ہم نے طلاق کا مطالبہ کیا تو ایک نئی مصیبت کھڑی ہوگئی۔ وہ طلاق دینے پر تیار نہیں تھے۔ انھوں نے ہمیں دھمکیاں دیں کہ تمہیں غنڈوں کے ذریعے گھر سے اٹھالیں گے۔ میرے خالو نے دھمکی دی کہ تمہاری خالہ کو بھی طلاق دے دیں گے۔

یہ کریں گے وہ کردیں گے، روزانہ عذاب۔ لیکن پھر کچھ اچھے لوگ آگے بڑھے اور مجھے عدالت کے ذریعے طلاق ہوگئی۔ لوگ طلاق کا سن کر روتے ہیں۔ میں نے خوشیاں منائیں، اللہ نے مجھ پر اپنا کرم کیا۔ میری دعائیں کام آگئیں۔ دوسری طرف لوگوں کی باتیں تھیں۔ میں کیا دہراؤں آپ کو خوب معلوم ہے ہمارے معاشرے میں طلاق یافتہ عورتوں کے لیے لوگ جو جملے استعمال کرتے ہیں وہ میں اپنی زبان سے ادا نہیں کرسکتی۔ جو لوگ دوسروں کے لیے ایسے کلمات کہتے ہیں اگر ان کے گھر میں ایسا ہوجائے تو پھر وہ مظلومیت کا ڈھول پیٹتے ہیں۔ ہمارا معاشرہ تضادات سے بھرا پڑا ہے۔

گھر کے وہی حالات تھے۔ وہی صبح وہی شام۔ ہر وقت اخراجات کا رونا۔ میری والدہ کام کرتی تھیں۔ والد صاحب نے تو بہت پہلے کام کرنا چھوڑ دیا تھا۔ اب ایک عورت کی کیا کمائی ہوتی ہوگی جس سے گھر کا خرچ چلتا۔ ہر وقت رونا تھا اور ہم تو رونے کے عادی ہوگئے ہیں۔ جب انسان کچھ نہیں کرسکتا وہ رو تو سکتا ہے۔ اگر وہ روئے بھی نہیں تو گھٹ کر مر جائے۔

والد ایک فیکٹری میں ویلڈر تھے۔ کسی نے انھیں کہا کہ کچھ پیسے جمع کر لو اور دبئی نکل جاؤ، یہاںکیا رکھا ہے۔ انھوں نے کمپنی سے استعفیٰ دے دیا، وہاں سے کچھ فنڈ ملا تو ایک ایجنٹ کو دے دیا کہ دبئی لے جائے گا۔ ایجنٹ فراڈی نکلا اور یوں میرے والد بے روزگار ہوگئے۔ وہ اس واقعے سے بہت رنجیدہ تھے۔ آہستہ آہستہ وہ بیمار ہوگئے اور کام کے قابل نہ رہے۔ پھر وہ ٹھیک بھی ہوگئے مگر وہ کم ہمت ہیں۔ حالات سے منہ چھپاتے ہیں۔ اب تو انھیں بستر پر بیٹھ کر کھانے کی عادت ہوگئی ہے۔ ان کی عمر پینتالیس سال ہوگی مگر وہ کہتے ہیں میں بوڑھا ہوگیا ہوں۔ کام نہیں کرسکتا۔ امی کہتی ہیں جاؤ کوئی کام تلاش کرو۔ وہ صبح امی سے پیسے لے کر جاتے ہیں اور شام کو واپس آکر کہتے ہیں کام نہیں ملا، بہت بے روزگاری ہے۔

امی ابو کے تعلقات بہت خراب ہیں۔ ہر وقت لڑتے رہتے ہیں۔ میرے والد کا تو اب صرف ایک کام ہے، میری ماں کو مارنا۔ اس لیے کہ وہ مرد ہے، وہ مار سکتا ہے، گالی دے سکتا ہے۔ آپ مردوں کو تو دنیا کے سارے اختیار حاصل ہیں۔ پھر مردوں کے اختیار کو کون چیلینج کرسکتا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ یہ اختیارات اسے خدا نے دیے ہیں اور عورتیں صرف دکھ سہنے کے لیے پیدا کی گئی ہیں۔

جب حالات خراب ہوجائیں تو صرف ہاتھ پر ہاتھ دھر کے بیٹھنے سے کبھی صحیح نہیں ہوتے۔ انسان کو کوشش اور ہمت کرنی چاہیے۔ میں نے بھی یہی کام کیا اور اللہ کا نام لے کر نکل کھڑی ہوئی۔ میری ایک کزن نے مجھے مشورہ دیا کہ میں ’’سیلز گرل‘‘ بن جاؤں۔ اس نے مجھے اس کام کے متعلق ابتدائی باتیں سمجھائیں۔ میری قسمت اچھی تھی کہ مجھے گارمنٹس کے بڑے اسٹور پر جاب مل گئی۔ میں نے انھیں جھوٹ بولا تھا کہ میں پہلے بھی سیلز گرل کا کام کرچکی ہوں، مگر جب پہلے گاہک سے میں نے بات کی تو اسٹور کے مالک سمجھ گئے کہ مجھے کچھ نہیں آتا۔ مگر انھوں نے میرا حوصلہ بڑھایا کہ تم جلد کام سیکھ جاؤ گی۔

اور ساتھ ہی ڈانٹا بھی کہ تم نے جھوٹ کیوں بولا تھا۔ وہ اچھے لوگ تھے۔ انھوں نے میری حوصلہ افزائی کی اور میں کام سیکھ گئی۔ میرے ساتھ کے سارے لوگوں نے مجھ سے بہت تعاون کیا۔ پھر اس اسٹور کی دوسری برانچ گلشن اقبال میں کھل گئی تو مجھے وہاں بھیج دیا گیا۔ وہاں کے منیجر اچھے آدمی نہیں تھے۔ ہر وقت کچھ نہ کچھ کہتے رہتے تھے۔ مجھے مجبوراً وہ کام چھوڑنا پڑا۔ بہت دھکے کھائے، بہت کچھ سہا۔ کبھی ٹیلی فون آپریٹر رہی، کبھی بچوں کو قرآن شریف پڑھایا۔ کبھی کسی بوتیک میں کام کیا۔ بہت کام کیے، میں نے ہمت نہیں ہاری۔

ہمارے معاشرے میں لڑکیاں اگر کام کے لیے بھی باہر نکلیں تو وہ بدکردار کہلاتی ہیں۔ یہ لوگ یہ نہیں دیکھتے کہ اگر کوئی مجبوری نہ ہو تو باہر دھکے کھانے کی آخر کیا ضرورت ہے۔ کسی کو آخر کیا پڑی ہے کہ وہ باہر جائے اور بارہ گھنٹے کام کرے۔ پھر جب ہم کام کے لیے کسی دفتر جاتی ہیں تو وہ لوگ ہمیں عجیب نظروں سے دیکھتے ہیں اور بعض تو خود ہی انٹرویو بھی شروع کردیتے ہیں۔ ہمارے لباس سے لے کر ناک نقشے تک سب کچھ زیر بحث آتا ہے۔ ایسے ایسے بے تکے سوالات کیے جاتے ہیں کہ میں بتا نہیں سکتی۔ لاکھ مشکلات ہیں آپ کو کیا کیا بتاؤں۔

مجھے تو اب مردوں کا نام لینا بھی اچھا نہیں لگتا۔ لیکن مجبوری ہے کام تو کرنا ہی ہے۔ اچھے اچھے لوگوں کو میں نے ایسی بے ہودہ گفت گو کرتے سنا ہے کہ شرم آتی ہے۔ مجھے تو نوے فی صد سے بھی زیادہ جن لوگوں سے واسطہ پڑا ہے وہ مجھ سے دوستی کے طلب گار تھے۔ اکثر کا کہنا تھا تم جوان ہو، خوب صورت ہو اس کا فائدہ اٹھاؤ۔ چھوڑو کام وام کو، بولو کتنے پیسے چاہییں۔ تم پیسے لیتی جاؤ اور ہماری خواہشات پوری کرتی جاؤ۔ ہم بھی خوش اور تم بھی خوش۔ یہ ہے ہمارا اسلامی معاشرہ اور یہ ہے پاکستان۔ دیکھنے میں کتنے شریف اور کرتوت دیکھو تو شیطان بھی شرم کے مارے پانی ہوجائے۔ میں یہ ساری باتیں سنتی اور ان سے کہتی آپ کو شرم آنی چاہیے۔ آپ کی بھی کوئی بہن ہوگی۔

اسی کا خیال کرلو۔ مجھے ایسی بے غیرتی کی زندگی سے باعزت موت اچھی لگتی ہے۔ آدمی روز روز مرنے سے ایک ہی دفعہ مر جائے تو کیا برا ہے اور پھر مجھ جیسی لڑکی کو زندگی کیا پیاری ہوگی۔ کیا سکھ دیکھا ہے زندگی میں جو مجھے زندگی سے پیار ہو جائے۔ میں تو خود اس زندگی سے تنگ ہوں، اتنے سارے بھیڑیوں کا مقابلہ کرنا مجھ جیسی بے سہارا اور تنہا لڑکی کے لیے بہت مشکل ہے لیکن مجھے اپنے پروردگار سے ایک ہی امید ہے کہ وہ مجھے ہمیشہ محفوظ رکھے گا۔ بس وہی میری قوت ہے، وہی میری آس ہے۔

میری ماں ہائی بلڈ پریشر کی مریضہ بن گئی ہے۔ کیا سکھ دیکھا ہے اس نے۔ باپ کام نہیں کرتا۔ وہ ہر احساس سے عاری ہوگیا ہے۔ میں اور میری ماں کچھ کام کر رہے ہیں۔ گھر کا خرچ بہت زیادہ ہے اور ہم دونوں کی آمدنی بہت کم۔ نہ میں اپنی ماں کا علاج کرا سکتی ہوں، نہ خرچ پورا کرسکتی ہوں۔ اتنی تنگی ہے کہ بتا نہیں سکتی۔ میں پیسے پیسے کی بچت کرتی ہوں۔ کام کے اوقات میں دوپہر کا کھانا نہیں کھاتی۔ مرغی ہمارے گھر میں کہیں سال میں ایک مرتبہ پکتی ہے۔ عید سر پر ہے۔ میں نہیں جانتی کہ کیا ہوگا۔ بس زندگی کی گھڑیاں ہیں جو گزار رہی ہیں۔ آپ بھی میرے لیے دعا کیجیے کہ خدا مجھے اب اس دنیا سے اٹھالے۔

میں صبح جب گھر سے کام پر نکلتی ہوں تو محلے کے لڑکے میرے پیچھے ہوتے ہیں۔ کبھی آپ میرے ساتھ چل کر ان کی باتیں سنیں۔ وہ ساتھ ساتھ چلتے ہیں اور کہتے ہیں۔ کیا کروگی اتنا کما کر۔ کبھی ہماری طرف بھی پیار بھری نظروں سے دیکھ لو۔ اور جب رات کو میں گھر لوٹتی ہوں تو کہتے ہیں آؤ ہمارے پاس بیٹھ جاؤ تم تو بہت تھکی ہوئی لگ رہی ہو۔ کہاں سے آرہی ہو۔ تم تو تیزگام کی طرح چلتی ہو۔ یہی حال بسوں کا ہے۔ بعض تو مجھے میری کام کی جگہ تک چھوڑنے آتے ہیں۔ یہاں بے سہاروں کا کوئی نہیں ہے بلکہ یہاں پر ہم جیسوں کو زندہ ہی نہیں رہنا چاہیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔