خدیجہ صدیقی کا پُر پیچ کیس

سید عاصم محمود  اتوار 24 جون 2018
ایک لڑکی پہ ہوئے قاتلانہ حملے  کے مقدمے کی نت نئے موڑ لیتی حیرت انگیز داستان۔ فوٹو : فائل

ایک لڑکی پہ ہوئے قاتلانہ حملے  کے مقدمے کی نت نئے موڑ لیتی حیرت انگیز داستان۔ فوٹو : فائل

یہ تین مئی 2016ء کی دوپہر تھی جب بائیس سالہ خدیجہ صدیقی کار میں سوار ڈرائیور کے ساتھ لاہور کی مشہور شاہراہ ڈیوس روڈ پہنچی۔ وہ اپنی چھ سالہ بہن صوفیہ کو سکول سے چھٹی کے بعد لینے آئی تھی۔

صوفیہ کو کار میں سوار کرکے خدیجہ خود بھی بیٹھنے لگی تھی کہ اچانک اس پر آفت آپڑی۔ایک موٹر سائیکل قریب آکر رکی اور اس پر سوار ہیلمٹ پہنے نوجوان اتر کر خدیجہ پر چاقو سے وار کرنے لگا۔ اس نے خدیجہ کے گلے اور گردن پر چاقو پے در پے وارکیے۔ دیکھتے ہی دیکھتے لڑکی کا گلا خون سے رنگین ہوگیا۔

اس دوران ڈرائیور حملہ آور کے قریب پہنچ چکا تھا۔ کھینچا تانی میں ہیلمٹ اترگیا۔ حملہ آور ایک خوبصورت نوجوان تھا۔ وہ چاقو لہراتا جائے وقوعہ سے فرار ہونے میں کامیاب ہوگیا۔ نزدیک ہی ایک ہوٹل واقع ہے۔ اس پر لگے سی سی ٹی وی کیمرے نے سارا واقعہ ریکارڈ کرلیا۔مزید برآں ایک سو سے زائد چلتے لوگوں نے بھی اس قاتلانہ حملے کا مشاہدہ کیا۔خدیجہ کو فوراً ہسپتال لے جایا گیا۔ خون زیادہ بہہ جانے کی وجہ سے اس کی حالت تشویشناک تھی۔ تاہم ڈاکٹروں کی بروقت کارروائی اور مہارت کے باعث جان جانے کا خطرہ ٹل گیا۔ خدیجہ کو پچاس سے زائد ٹانکے لگے۔

3 مئی کی شام ہی خدیجہ کے والدین نے نامعلوم حملہ آور کے خلاف سول لائنز پولیس اسٹیشن میں ایف آئی آر درج کرادی۔ 8 مئی کو خدیجہ نے حملہ آور کو شناخت کرلیا…وہ شاہ حسین تھا، اس کا ہم جماعت!دونوں طویل عرصے سے ایک دوسرے کو جانتے تھے۔آپس میں دوستی تھی اور کچھ کچھ پسندیدگی کا جذبہ بھی۔خدیجہ نے سترہ سال کی عمر میں شاہ حسین کو خط لکھ کر اس سے شادی کی خواہش ظاہر کی تھی۔وہ پھر اکٹھے وکالت کی تعلیم دینے والے ایک کالج میں پڑھنے لگے۔ خدیجہ کا کہنا ہے کہ رفتہ رفتہ شاہ حسین اس پر حاوی ہونے کی کوشش کرنے لگا۔

اسی لیے خدیجہ نے اس سے بات چیت بند کردی۔ شاہ حسین کو اس امر پہ تائو آگیا۔ خدیجہ کے بقول یہ غصہ پھر اس پر قاتلانہ حملے کی صورت ظاہر ہوا۔شاہ حسین سپریم کورٹ کے ایک معروف وکیل کا بیٹا ہے۔

یہ وکیل بڑی قومی سیاسی جماعت کا رہنما بھی ہے۔ اس نے 16 مئی کو سیشن کورٹ سے بیٹے کی گرفتاری قبل از وقت ضمانت کروالی۔ خدیجہ کے اہل خانہ نے بھی وکیل کی خدمات حاصل کیں جس نے سیشن کورٹ میں ضمانت منسوخ کرنے کی درخواست دائر کردی۔خدیجہ اور اس کے اہل خانہ کا دعویٰ ہے کہ فوراً ہی مخالف پارٹی انہیں بدنام کرنے کی مہم چلانے لگی۔ اس دوران خدیجہ کی کردار کشی کی گئی جبکہ اس کے وکیل کو ڈرایا دھمکایا گیا کہ وہ یہ کیس نہ لڑے۔ چناںچہ  وکیل خوفزدہ ہوکر پیچھے ہٹ گیا۔ تاہم خدیجہ کے اہل خانہ بھی مالی طور پر مضبوط ہیں۔ نیز انہیں اپنے خاندان کے دیگر افراد کی بھی حمایت حاصل تھی۔ اس لیے فیصلہ کیا گیا کہ یہ کیس ضرور لڑا جائے۔

خدیجہ کی والدہ یہ کیس نہیں لڑنا چاہتی تھیں۔ انہیں ڈر تھا کہ یوں گھرانے کی عزت پر حرف آسکتا ہے۔ مگر خدیجہ کا کہنا تھا کہ وہ انصاف و قانون کی تعلیم پارہی ہے۔ اگر وہی انصاف پانے کے لیے جدوجہد نہیں کرے گی تو معاشرے میں ظالموں کو حوصلہ ملے گا اور وہ پہلے سے زیادہ شیر ہوجائیں گے۔ مزید برآں بقول خدیجہ کے وہ یہ کیس لڑ کر دکھانا چاہتی تھی کہ کمزور و بے بس سمجھے جانے والی پاکستانی عورت بھی اتنی مضبوط اور توانا ہے کہ اپنے حق کی خاطر اثرو رسوخ رکھنے والے طاقتور لوگوں سے ٹکر لے سکے۔

مئی 2016ء میں خدیجہ اور اس کے اہل خانہ نے کیس لڑنے کا فیصلہ کیا، تو پچھلے دو سال کے دوران اس مقدمے میں کئی ڈرامائی موڑ آچکے ہیں۔ یہ مقدمہ بہرحال عیاں کرتا ہے کہ پاکستان میں عدالتی نظام خامیاں رکھتا ہے۔ خاص طور پر کسی مقدمے کا جلد فیصلہ نہ ہونا اس عدالتی نظام کی اہمیت کو زک پہنچاتا ہے۔سیشن کورٹ میں خدیجہ صدیقی کا مقدمہ کچھوے کی چال سے رینگنے لگا۔ کبھی ملزم کا وکیل نہ آتا، کبھی سیشن جج غیر حاضر ہوتے۔ اس دوران ایک سیشن جج کا تبادلہ بھی ہوگیا۔ جب بھی ملزم کا وکیل عدالت آتا، تو اس کے ساتھ تیس چالیس وکلا ہوتے۔ وہ خدیجہ، اس کے اہل خانہ اور وکیل کے خلاف نعرے لگاتے اور دھمکیاں بھی دیتے۔

آخر 23 جولائی 2016ء کو ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج، نسیم احمد ورک نے ملزم شاہ حسین کی ضمانت قبل از گرفتاری منسوخ کردی اور پولیس کو حکم دیا کہ اسے گرفتار کرلیا جائے۔ شاہ حسین عدالت میں موجود تھا اور پولیس بھی، مگر وکلاء اسے اپنے گھیرے میں لیے باہر لے گئے۔ باہر جاکر شاہ حسین فرار ہوگیا۔اب ملزم کے وکلاء نے ضمانت قبل از گرفتاری کرانے کی خاطر لاہور ہائیکورٹ سے رجوع کیا۔ 26 ستمبر 2016ء کو لاہور ہائی کورٹ نے ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج کا فیصلہ برقرار رکھا۔ اسی وقت شاہ حسین کو گرفتار کرلیا گیا۔

ملزم کے وکلا نے ضمانت کرانے کے لیے پھر سیشن کورٹ سے رجوع کیا۔ 30 نومبر کو سیشن کورٹ نے شاہ حسین کی درخواست ضمانت منظور کرلی۔ سیشن جج نے قرار دیا کہ خدیجہ حملہ آور کو اچھی طرح جانتی تھی۔ لہٰذا اس نے اسے شناخت کرنے میں پانچ دن کیوں لگا دیئے؟ اسی بنا پر ملزم کو شک کا فائدہ دیتے ہوئے ضمانت دے دی گئی۔خدیجہ نے اس فیصلے کو ’’انصاف کا قتل‘‘ قرار دیا۔ وہ پھر میڈیا کے پاس پہنچ گئی اور ٹی وی چینلوں اور اخبارات کے ذریعے اپنے مقدمے کی داستان اہل وطن تک پہنچائی۔ سوشل میڈیا میں بھی اس کیس کا چرچا ہوا۔ آخر پنجاب اسمبلی میں بعض خواتین ارکان نے مطالبہ کیا کہ خدیجہ صدیقی کو انصاف دلایا جائے۔

مئی 2017ء میں لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس، منصور علی شاہ نے جوڈیشنل مجسٹریٹ، مبشر اعوان کو حکم دیا کہ وہ خدیجہ صدیقی کا کیس دیکھیں اور اسے دو ماہ میں مکمل کرلیں۔یوں مئی 2017ء سے جوڈیشنل کورٹ میں خدیجہ کے مقدمے کی باقاعدہ سماعت شروع ہوئی۔ یاد رہے، صوبہ پنجاب کے عدالتی نظام میں جوڈیشنل کورٹ سب سے نچلی عدالت ہے۔ اس کا جج جوڈیشنل مجسٹریٹ کہلاتا ہے۔ یہ زیادہ سے زیادہ سات سال قید کی سزا سنانے کا مجاز ہے۔

ملزم کے وکلاء نے جوڈیشنل مجسٹریٹ سے درخواست کی کہ کیس میں اقدام قتل کی دفعہ ختم کردی جائے۔تاہم مجسٹریٹ نے یہ دفعہ ختم کرنے سے انکار کر دیا۔ مقدمہ چلتا رہا۔ 29 جولائی2017ء کے دن مبشر اعوان نے ملزم شاہ حسین کو مجرم قرار دے کر اسے سات سال قید کی سزا سنا دی۔اس فیصلے پر خدیجہ نے اظہار خوشی کیا اور اسے انصاف اور خواتین کے حقوق کی خاطر لڑنے والوں کی جیت قرار دیا۔ فیصلے کے خلاف شاہ حسین سیشن کورٹ پہنچ گیا۔ اب اگلی عدالت میں مقدمہ چلنے لگا۔

اس دوران جائے وقوعہ سے ملنے والے ملزم کے ہیلمٹ کے ڈی این اے رپورٹ سامنے آ گئی تھی۔رپورٹ کے مطابق ہیلمٹ پر لگے خون کے دھبے شاہ حسین کے خون سے مل گئے۔ نیز ہیلمٹ پر لگے بال بھی اسی کے تھے۔ ڈی این اے رپورٹ اور سی سی ٹی وی فوٹیج کے ثبوت سامنے رکھ کر ہی جوڈیشنل مجسٹریٹ نے ملزم کو سات سال قید کی سزا سنائی تھی۔

مارچ 2018ء میں سیشن کورٹ نے مقدمے کا فیصلہ سنایا اور ملزم کی سزا کم کر کے پانچ سال کر دی۔ اس فیصلے کے خلاف دونوں فریق لاہور ہائی کورٹ پہنچ گئے۔ خدیجہ ملزم کو زیادہ سے زیادہ برسوں کی سزا دلوانا چاہتی تھی۔ جبکہ شاہ حسین اپنی سزا ختم کرانا چاہتا تھا۔ اب لاہور ہائی کورٹ میں کیس کا آغاز ہوا۔4 جون کو لاہور ہائی کورٹ کے جج جسٹس سردار احمد نعیم نے ملزم کے خلاف کیس میں ’’جھول‘‘ عیاں کرتے ہوئے شاہ حسین کو بری کردیا ۔اس پر خدیجہ نے ٹویٹ کیا:’’انا للہ وانا الیہ راجعون۔انصاف ذبح ہوا۔‘‘ جج صاحب کے مطابق کیس میں مندرجہ ذیل جھول ہیں جن کی بنا پر ملزم کی بریّت کا فیصلہ دینا پڑا:

٭…لڑکی پر دن دیہاڑے حملہ ہوا مگر اس کے وکلا ایک بھی آزاد گواہ پیش نہیں کر سکے۔(یعنی اجنبی گواہ جو جائے وقوعہ پر موجود ہو)

٭…لڑکی نے تسلیم کیا کہ وہ ملزم کو جانتی تھی۔ کالج اور اس کے باہر بھی دونوں کی تصاویر موجود ہیں۔

٭…لڑکی کا کہنا ہے کہ حملے کے بعد وہ بے ہوش ہو گئی تھی مگر اس کے وکلا یہ بات ثابت نہیں کر سکے۔

٭…جرح کے دوران ہسپتال کے میڈیکل افسر نے تسیلم کیا کہ جب خدیجہ لائی گئی‘ تو اس نے لڑکی سے سوالات کیے۔ لڑکی نے ان کے درست جواب دیئے۔ (گویا لڑکی تب ہوش میں تھی)۔ اس نے پھر ملزم کو دریافت کرنے میں چھ دن کیوں لگا دیئے؟

٭…میڈیکل افسر نے بتایا کہ لڑکی کی گردن و گلے پر 11 زخم تھے۔ مگر دوران مقدمہ خدیجہ نے 23 زخم لگنے کا دعوی کیا (جو غلط بات ہے۔)

٭…ملزم کا چاقو پانچ ماہ بعد دریافت ہوا۔ شک ہے ،کیا یہ وہی ہتھیار ہے جس سے حملہ کیا گیا؟

٭…لڑکی کا کہنا ہے کہ ملزم اسے پریشان اور دق کرتا تھا۔ لیکن خدیجہ ہی نے شاہ حسین کو چار صفحات پر مشتمل خط لکھا تھا اور کہا کہ مجھ سے شادی کر لو۔

٭…گواہوں کے بیانات سے یہ تو عیاں ہے کہ حملہ ہوا۔ مگر ان کے بیانات میں تضاد ہے‘ اس لیے حملے کا حقیقی ماجرا سامنے نہیں آ سکا۔

٭…یہ ممکن ہے کہ تفتیشی پولیس افسر نے کیس خراب کر دیا کیونکہ وہ ملزم کے خون آلود کپڑے اور کار کے میٹ حاصل نہیں کر سکا جو اہم ثبوت ہو سکتے تھے۔

جب لاہور ہائی کورٹ نے ملزم کو بری کیا‘ تو فیصلے کے خلاف میڈیا خصوصاً سوشل میڈیا میں طوفان اٹھ کھڑا ہوا۔ فیصلے پر تنقید کی جانے لگی۔ اگلے دن چیف جسٹس پاکستان ثاقب نثار نے سوموٹو لیتے ہوئے کیس کی تفصیل طلب کر لی۔دس جون کو سپریم کورٹ میں کیس کی سماعت ہوئی۔ چیف جسٹس نے یہ کیس جسٹس آصف سعید کھوسہ کی عدالت میں منتقل کر دیا اور اب مقدمہ وہاں سنا جائے گا۔

دوران سماعت چیف جسٹس نے ملزم کے والد،  تنویر ہاشمی سے استفسار کیا کہ انہوں نے لاہور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن سے سپریم کورٹ کے خلاف قرار داد کیوں اور کیسے منظور کرائی؟ اس قرار داد میں کہا گیا ہے کہ چیف جسٹس نے غیر ضروری طور پر سوموٹو نوٹس لیا اور یہ ایک غیر قانونی اقدام تھا۔ چیف جسٹس نے تنویر ہاشمی سے سوال کیا:’’اگر کسی وکیل کی بیٹی کے ساتھ یونہی معاملہ پیش آئے‘ تو کیا تب بھی آپ  کا رویّہ ایسا ہی ہو گا؟‘‘

اسی موقع پر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے شاہ حسین نے دعویٰ کیا کہ خدیجہ صدیقی اس سے شادی کرنا چاہتی تھی۔ لیکن جب اس نے انکار کیا‘ تو خدیجہ نے اسے جھوٹے مقدمے میں ملوث کر دیا۔خدیجہ نے شاہ حسین کے دعوی کو اپنے خلاف کردار کشی کی مہم کا حصہ قرار دیا۔

خدیجہ صدیقی کا مقدمہ اب سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے۔ تاہم یہ کچھ حقائق ضرور عیاں کر گیا۔ مثال کے طور پر یہ کہ ہمارا عدالتی نظام بہت پیچیدہ ہے اور اسی لیے سائل کو انصاف ملتے ہوئے کئی برس لگ جاتے ہیں ۔ اس تاخیر سے خصوصاً بااثر اور گناہ گار پارٹی کو موقع ملتا ہے کہ وہ شہادتیں مٹانے‘ گواہوں کو ترغیب و تحریض یا دھمکیاں دینے سے کیس خراب کر دے۔ خدیجہ صدیقی کا کہنا ہے کہ اس کے کیس سے یہ امر بھی نمایاں ہوا کہ وکلا ایک مافیا کی شکل اختیار کر چکے ہیں جو مل جل کر اپنے مفادات کے لیے کام کرتے ہیں۔ خدیجہ کا دعویٰ ہے کہ گورنر پنجاب اور ایک سیشن جج نے اسے مخالف پارٹی سے مفاہمت کرنے کا مشورہ دیا تھا۔

اسلام میں عدل و انصاف

انسانی معاشرے کی اہم ترین بنیادوں میں عدل و انصاف بھی شامل ہے۔ اسی لیے قرآن و حدیث میں معاشرے میں عدل و انصاف قائم کرنے پر بہت زور دیا گیا ہے۔ سورہ النسا آیت 135 میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ’’اے ایمان والو! انصاف پر مضبوطی سے قائم رہنے والے بنو۔ اگر تمہارے والدین یا رشتے داروں کے خلاف گواہی دینا پڑے تو پیچھے نہ ہٹو۔ ملزم مال دار ہے تب بھی گواہی دو۔ خواہش نفس کی پیروی نہ کرو کہ یوں عدل کی راہ سے ہٹ جاؤ گے۔ اگر تم گواہی میں پیچ دار بات کرو گے یا حق سے منہ موڑو گے‘ تو اللہ تعالیٰ تمہاری ان حرکتوں کو دیکھ رہا ہے۔‘‘

اسلامی تعلیمات کی رو سے مقدمے کے فریقین وکیل کی خدمات حاصل کر سکتے ہیں۔ لیکن وکیل کو چاہیے کہ وہ مظلوم کا مقدمہ لڑے۔ اگر وہ کسی ظالم یا گناہ گار کو قانون سے بچانے کے لیے اس  کی مدد کرتا ہے‘ تو وہ خود بھی معاشرے میں بے انصافی اور ظلم و جبر کو فروغ دینے والا بن جائے گا۔ وہ بھی ظالم اور گناہ گار کہلائے گا ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’ نیکی اور پرہیزگاری کے کاموں میں ایک دوسرے کی مدد کرو۔ گناہ اور ظلم کے کاموں میں ایک دوسرے کی مدد نہ کرو اور اللہ سے ڈرتے رہو۔ بے شک اللہ نافرمانوں کو سخت سزا دے گا۔(سورہ المائدہ ۔2)

حضور اکرم ﷺکا یہ ارشاد مبارک بھی ہماری عدالتوں کی دیواروں پر طلائی حروف سے لکھا جانا چاہیے: ’’ ماضی میں اقوام عالم اس لیے بھی تباہ ہوئیں کہ وہ طاقتور کا جرم تو معاف کر دیتی تھیں جبکہ کمزور کو بے گناہ ہوتے ہوئے بھی سزا دے دیتیں۔‘‘

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔