بنت حوا ہے، کون پوچھے گا... مار دے!

محمد علی خان  ہفتہ 30 جون 2018
سیکیورٹی گارڈ کے ہاتھوں بس ہوسٹس مہوش کا قتل، خواتین کے ساتھ ہونے والا پہلا واقعہ نہیں۔ ایسے واقعات ہمارے معاشرے میں عام ہوتے جارہے ہیں۔ (فوٹو: سوشل میڈیا)

سیکیورٹی گارڈ کے ہاتھوں بس ہوسٹس مہوش کا قتل، خواتین کے ساتھ ہونے والا پہلا واقعہ نہیں۔ ایسے واقعات ہمارے معاشرے میں عام ہوتے جارہے ہیں۔ (فوٹو: سوشل میڈیا)

سوشل میڈیا پر دو ویڈیوز وائرل ہورہی ہیں جن میں ایک ویڈیو میں نجی ٹرانسپورٹ کمپنی کا سیکیورٹی گارڈ اپنی کمپنی کی بس ہوسٹس کو دورانِ سفر ہراساں کررہا ہے اور مہوش نامی بس ہوسٹس اسے واشگاف الفاظ میں للکار رہی ہے جبکہ دوسری ویڈیو میں فیصل آباد میں واقع کمپنی کے بس ٹرمینل پر اسی سیکیورٹی گارڈ نے تلخ کلامی کے بعد بس ہوسٹس کو گولی مار کر قتل کر دیا اور خود فرار ہوگیا۔

خواتین کے ساتھ ہونے والا یہ کوئی پہلا واقعہ تو نہیں۔ کبھی غیرت کے نام پر قتل، کبھی رشتہ نہ ہونے پر تیزاب گردی، کبھی چولہے پھٹنے سے جھلس جانا، کبھی جائیداد پر قبضے کی خاطر راستے سے ہٹا دینا؛ اور اس طرح کے بیشمار واقعات ہمارے معاشرے میں عام ہوتے جارہے ہیں۔

المیہ یہ ہے کے مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والی، اپنے خاندان کی کفالت کرنے والی بچیاں بھی نام نہاد مردوں کی درندگی سے محفوظ نہیں۔

ایک لمحے کو فرض کیجیے کہ معصوم مہوش کی جگہ ہماری بہن یا بیٹی بھی ہوسکتی ہے۔ یقین کیجیے آپ سے فرض بھی نہیں ہوگا۔ بھلا ہمیں کیا ضرورت ہے کہ ہماری بہن بیٹی یہ گھٹیا کام کرے۔ اگر وہ کوئی جاب کرے گی بھی تو وہ بینکنگ یا ایجوکیشن سے متعلق ہو۔

ایئر ہوسٹس ہو یا بس ہوسٹس، ہراساں کرنے کا عمل دونوں جگہ ہوتا ہے۔ بس مراعات کا فرق ہوتا ہے، عزت اور حقارت کا فرق ہوتا ہے۔

خواتین کو بحیثیت بس ہوسٹس رکھنے کا چلن نجی ٹرانسپورٹ کمپنیوں میں عام ہوتا جارہا ہے۔ بظاہر اس میں کوئی برائی نہیں اور یہ روزگار فراہم کرنے کا معقول ذریعہ بھی ہے۔ سوال صرف اتنا ہے کہ کیا ان بسوں کے ڈرائیور، گارڈ، دیگر عملہ اور سفر کرنے والوں کی اکثریت ان خواتین کو اتنی عزت کا مستحق سمجھتی ہیں جتنی عزت کی وہ اپنی بہن یا بیٹی کےلیے دوسروں سے توقع رکھتے ہیں؟ یقیناً ہرگز ایسا نہیں۔

نام نہاد مردوں کے تخیل میں یہ بات بیٹھ چکی ہے کہ اگر مردوں کے معاشرے میں کوئی عورت اس قسم کی جاب کرے گی تو وہ یقیناً ’’خراب عورت‘‘ ہوگی۔ اسی طرح کے تصورات نرسنگ جیسے مقدس پیشے سے بھی جڑے نظر آئیں گے۔

نئی بات یہ ہوئی ہے کہ پنجاب کے وزیرِاعلیٰ نے بھی اس بیہمانہ قتل کا کا نوٹس لے لیا ہے، وہی نوٹس جو اس سے پہلے خادم اعلیٰ ہر واردات کے بعد لیتے تھے اور نوٹس لیتے ہی سائل کو یقین ہوجاتا تھا کہ اب اس کے مسئلہ کا کوئی حل نکلنے کی رہی سہی امید بھی ختم ہوگئی ہے۔

نگران حکومت کی بنیادی ذمّہ داری تو منصفانہ الیکشن کا انعقاد کروانا ہے مگر ڈاکٹر حسن عسکری جیسی باشعور اور علم دوست شخصیت سے اس بات کی امید کی جاسکتی ہی کہ کم از کم خواتین کے ساتھ پیش آنے والے اس طرح کے واقعات کی بیخ کنی کےلیے اپنا بھرپور کردار ادا کریں گے۔

کیا کبھی ہم نے غور کیا ہے کہ بحیثیت معاشرے کے ذمّہ دار شہری ہمارا کردار کیا ہونا چاہیے؟

محلے کی سطح پر ایسی اجتماعیت کو فروغ دینے کی ضرورت ہے جس میں خواتین کو ایسے کاموں کی طرف راغب کیا جائے جس میں وہ نام نہاد مردوں سے محفوظ رہیں۔ بیوٹی پارلر، ووکیشنل سینٹر، لیڈیز ڈرائیونگ اسکول، ڈے کیئر سینٹر اور ایسے کام جہاں ان کا زیادہ واسطہ خواتین تک ہی محدود رہے۔

حکومتیں اس سلسلے میں زیادہ مؤثر کردار ادا کر سکتی ہیں مگر بدقسمتی سے حکمرانوں کی ترجیح عوام کبھی نہیں رہے۔ ویسے بھی ان کے نزدیک عوام وہ حیاتیاتی جانور ہے جو پانچ سال بعد ووٹ دے کر ان کی سیاسی زندگی کو دوام بخشنے کے کام آتا ہے۔

جیوڈیشل ایکٹوازم کا بھی چرچا ہے، میڈیا کا دور ہے۔ ممکن ہے چیف جسٹس صاحب اس کیس کا بھی نوٹس لے لیں۔ نتائج کیا نکلیں گے؟ کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ کیونکہ ان کا کام نوٹس لینا ہے، انتظامی امور ان کے پاس نہیں اور انتظامیہ کی بھی اولین ترجیح بروقت انتخابات ہی کروانا ہے۔

چھوٹے موٹے واقعات ہوتے رہتے ہیں۔ اگر کہیں کوئی عورت کسی حادثے کا شکار ہو بھی جائے تو کیا فرق پڑتا ہے۔ بس جمہوریت کی گاڑی نہیں رکنی چاہیے، نہیں تو عالمی دنیا ہمیں پتھروں کے زمانے میں بھیج دے گی۔

ویسے سنا ہے کہ پتھروں کے دور میں بھی بنت حوا کو اسی طرح بات بے بات مار دیتے تھے کہ کون پوچھے گا۔ بقول فیض صاحب:

کہیں نہیں ہے، کہیں بھی نہیں لہو کا سراغ

نہ دست و ناخنِ قاتل نہ آستیں پہ نشاں
نہ سرخیِ لبِ خنجر، نہ رنگِ نوکِ سناں

نہ خاک پر کوئی دھبہ نہ بام پر کوئی داغ
کہیں نہیں ہے، کہیں بھی نہیں لہو کا سراغ

نہ صرف خدمتِ شاہاں کہ خوں بہا دیتے
نہ دیں کی نذر کہ بیعانۂ جزا دیتے

نہ رزم گاہ میں برسا کہ معتبر ہوتا
کسی عَلم پہ رقم ہو کے مشتہر ہوتا

پکارتا رہا بے آسرا یتیم لہو
کسی کو بہرِ سماعت نہ وقت تھا نہ دماغ

نہ مدعی نہ شہادت، حساب پاک ہوا
یہ خونِ خاک نشیناں تھا رزقِ خاک ہوا

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

محمد علی خان

محمد علی خان

مصنف سوشل میڈیا ایکٹیوسٹ اور بلاگر ہیں۔ سیاست کا شوق اور ادب کا ذوق رکھتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔