خواہشات کے پُجاری

انسان کی وحشت اور درندگی اس کی اپنی خوف ناک خواہشات کی اندھی پرستش کا نتیجہ ہے


July 27, 2018
انسان کی وحشت اور درندگی اس کی اپنی خوف ناک خواہشات کی اندھی پرستش کا نتیجہ ہے۔ فوٹو: فائل

MULTAN: خواہشات سے خالی، لطافتوں سے عاری اور رنگینیوں سے ناآشنا ویران دنیا میں جب انسان نے جھجھکتے ہوئے اپنا پہلا قدم رکھا تو اس کے کانپتے دل میں کئی فکرانگیز سوالات اٹھے۔ مجھے کس نے بنایا ہے، کس نے بھیجا ہے، بھیجنے کا مقصد کیا ہے اور اختتام و نتیجہ کیسا ہوگا؟

انسان کے بے تاب باطن کی متجسس رگ، جو خدا نے ابتدا ہی سے اس میں ودیعت کی تھی، ان سوالوں کے جوابات کی متلاشی تھی۔ لہذا اپنی روحانی تسکین اور دنیاوی تقاضوں کی تکمیل کے لیے انسان نے تگ و دو کا آغاز کردیا، پھر یہیں سے زندگی کی ابتداء ہوئی۔ الہامی علم اور اپنے گرد و نواح پر تدبّر کے ذریعے انسان نے بے شعوری سے باشعوری کی طرف سفر کیا۔

اس ان تھک سفر کے دوران انسان نے بہت کچھ سیکھا، بہت کچھ سمجھا، نئی راہیں دریافت کیں، نئی جہتوں سے روشناس ہوا، نئی سمتوں سے آشنائی حاصل ہوئی، ایجادات سے آگاہی ملی اور بے پناہ علوم و فنون سے واقفیت حاصل ہوئی۔ وہ انسان جو کبھی بھانت بھانت کی بولیاں بولتا تھا، اب اس نے مختلف زبانوں کی گرامر تشکیل دے دی۔ اس طویل سفر کے دوران انسان نے مشاہدہ کیا کہ کائنات کی ہر چیز کسی نا کسی شے کی آرزو مند ہے اور اس طرح رفتہ رفتہ انسان نے بھی خواہش کرنا سیکھ لیا۔ اے کاش، کے کلمے کا ورد اس کی سرشت میں داخل ہوگیا۔ خواہش اس کے خصائل و عادات کا حصہ بن گئی۔ روزمرہ کے معاملات میں سہولت اور اضافے کی تمنا اس کا وطیرہ بن گیا۔

اب یہاں پر ایک سوال پیدا ہوتا ہے '' کیا انسان ابتدائے کائنات سے ہی خواہش پرست تھا ؟ ''

اس کا جواب شاید نفی میں ہے، گردش روزگار اور آہستہ آہستہ ہونے والے وسائل کی ترقی نے انسان کی رگِ خواہش کو جلا بخشی ہے۔ عہدوں کی خواہش، اقتدار کی تمنا، صلے کی آرزو، طاقت کی ہوس، ایک بھوک ... بہ قول شخصے :

'' ضروریات تو فقیروں کی بھی پوری ہوجاتی ہیں، مگر خواہشات بادشاہوں کی بھی تکمیل نہیں پاتیں۔''

خدا نے انسان کو ایسا جسم عطا کیا ہے جو اپنے قامت، اعضاء اور دماغ کے اعتبار سے انسانی زندگی بسر کرنے کے لیے موزوں ترین تھا۔ اس کو دیکھنے، سننے، چُھونے اور سونگھنے کے ایسے حواسِ خمسہ عطا کیے جو اپنے تناسب اور خصوصیات کی بنا پر اس کے لیے بہترین ذریعۂ تعلیم بن سکتے تھے۔ اس کو قوتِ عقل و فکر، قوتِ استدلال و استنباط، قوتِ خیال و احساسات، قوتِ حافظہ، قوتِ تمیز، قوتِ فیصلہ اور ایسی ذہنی قوتیں عطا کیں جن کی بہ دولت وہ دنیا میں اپنی ذمے داریاں نبھانے کے قابل ہوا۔

انسان کو پیدائشی بدمعاش اور جبلّی گناہ گار بناکر نہیں بھیجا گیا، بل کہ راست اور پارسا فطرت پر پیدا کیا۔ انسان کی فطرت میں کوئی خلقی کجی نہیں رکھی گئی جو اس کو راہِ مستقیم اختیار کرنے سے روکے۔

'' پھر سمجھ دی اس کو ڈھٹائی کی اور بچ کر نکلنے کی۔''

انسان کے جسمانی و مادی وجود کے ساتھ ایک روحانی و اخلاقی وجود بھی ہے جس کے بہ دولت معاشرہ موجودہ شکل میں ہے اور رفتہ رفتہ مزید وسعت اور ترقی پا رہا ہے۔ ملائکہ انسان کے سامنے اس کے روحانی وجود کے سبب ہی سجدہ ریز ہوئے، جس کی سراسر بنیاد علمِ دین و دنیا ہے۔

'' اور سکھلا دیے اللہ نے آدم کو نام سب چیزوں کے، پھر سامنے کیا ان سب چیزوں کو فرشتوں کے اور فرمایا مجھے ان کے نام بتاؤ اگر تم سچے ہو۔ بولے پاک ہے تُو، ہم کو معلوم نہیں مگر جتنا کہ تُونے سکھایا ہے۔''

یہاں پر گزشتہ صدی کے باطل نظریات بھی قابلِ تردید ہیں۔ جن کے مطابق انسان محض ایک حیوانی وجود رکھنے والا وہ جانور ہے جس کی ضروریات و خواہشات باقی جان داروں ہی کی طرح ہیں مگر ان کا ذریعۂ تکمیل تھوڑا مختلف ہے۔ گویا انسان محض ایک حیوانی وجود ہی نہیں رکھتا بل کہ اپنے اندر غیر معمولی روحانیت، قلبی احساسات، جنسی میلانات اور دلی تمنائیں بھی رکھتا ہے جس پر انسان کو مکمل اختیار دیا گیا ہے۔

بہ قول شیخ سعدی شیرازی: '' انسان ایک ایسا وجود ہے جس میں جسمانی تقاضے اور صفاتِ ملائکہ گندھی ہوئی ہیں۔''

انسان کے باطن میں خواہشات و میلانات لہریں لے رہی ہیں اور یہ اس کی اپنی ذات پر منحصر ہے کہ وہ '' اے کاش'' کے گھوڑے کو بے لگام چھوڑے یا کسرِ نفسی سے کام لے۔ انسان کو خواہشات پر قابو رکھنے میں مکمل بااختیار بنایا گیا ہے۔ انسان کی وحشت اور درندگی اس کی اپنی خوف ناک خواہشات کی اندھی پرستش کا نتیجہ ہے۔ انسان کا اولین فریضہ یہ ہے کہ ایسی خواہشات جو نفرت کا بازار گرم کرنے میں اس کو متحرک کریں، ان کا گلا گھونٹے۔ انسانی باطن میں قبیح اور دہشت انگیز خواہشات کی پیدائش کی بنیادی وجہ وسوسۂ شر ہے۔

اس کے عناصر جب ایک غافل یا خالی الذہن آدمی کے اندر اثرانداز ہوتے ہیں تو پہلے اس میں برائی کی خواہش پیدا ہوتی ہے۔ پھر مزید وسوسۂ اندازی اس بُری خواہش کو بُری نیت اور بُرے ارادے میں تبدیل کر دیتی ہے۔ پھر اس سے آگے جب وسوسے کی تاثیر بڑھ جاتی ہے تو ارادہ و عزم بن جاتا ہے اور آخری قدم پھر عملِ شر ہے جو نتیجتاً انسان کو وحشت کی خوف ناک راہوں پر دھکیل دیتا ہے۔

یہاں پر قاری کے ذہن میں اس سوال کا اٹھنا ناگزیر ہے کہ اگر خواہشات ہی معصیات کا منبع ہیں تو ابلیس اور جن و انس کا کیا کردار ہے ؟؟

چوں کہ انسانی وحشت وسوسۂ شر کی بہ دولت ہے جو خدا نے ابتدا ہی سے انسانی روح میں ودیعت کیا تھا۔ شیطان کا کردار محض اتنا ہے کہ ان شرارتی رجحانات اور وسواس الخناس کو متحرک کرکے گناہوں پر مائل کرتا اور نفسِ سُو کو تقویت دیتا ہے۔

'' اے ایمان والو! شراب، جُوا، بُت، پانسے یہ سب ناپاک کام اعمالِ شیطان سے ہیں، سو ان سے بچتے رہنا تاکہ تم نجات پاؤ۔ شیطان تو یہ چاہتا ہے کہ جوئے اور شراب کے سبب تمہارے درمیان تلخی اور رنجش ڈالے اور تمہیں اللہ کی یاد سے روکے تو تم ان کاموں سے باز رہو۔''

لہٰذا انسان اپنے گناہوں کا ملبہ صرف ابلیس پر نہیں ڈال سکتا کیوں کہ اس کے باطن میں موج زن خواہشات پر اسے مکمل اختیار دیا گیا ہے۔ ان خواہشات کواپنے قابو میں کرکے ناصرف خود وحشت سے محفوظ رہ سکتا ہے بل کہ شیطانی قوتوں کا بھی بہ آسانی مقابلہ کرسکتا ہے۔ خواہشات ایک بھوک کا نام ہے، دائمی بھوک۔ کہا جاتا ہے کہ جب ایک خواہش مرتی ہے تو دوسری کو جنم دے دیتی ہے۔

تمام انسانی خواہشات میں سب سے زیادہ وحشت زدہ اور درندہ انگیز جنسی خواہشات اور اس کے متعلقات ہیں۔ انسان بھوک اور پیاس تو برداشت کرسکتا ہے مگر جنسی جذبے کو دبا نہیں سکتا۔ اس خواہش نے انسان کو درندگی اور وحشت کی تاریک پستیوں میں دھکیل دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تمام الہامی و غیر الہامی مذاہب و ادیان نے جنسی خواہشات پر دست رس حاصل کرنے کی لیے مختلف جائز طریقے اور احکامات صادر کیے ہیں۔ انسان کے انتہا پسندانہ رویے کی بنیادی وجہ خواہشات کی تکمیل سے زیادہ خواہشات کی بندگی ہے۔ یعنی خواہشاتِ نفس کو خدا بنالینا اور یہ بھی حقیقت کے اعتبار سے ویسا ہی بڑا شرک ہے جیسا کہ کسی بُت کو پُوجنا یا کسی مخلوق کو معبود بنالینا۔

ارشاد نبویؐ کا مفہوم ہے:

'' اس آسمان کے نیچے اللہ کے سوا جتنے بھی معبود پُوجے جارہے ہیں۔ ان میں اللہ کے نزدیک بدترین مخلوق وہ خواہشِ نفس ہے جس کی پیروی کی جارہی ہو۔'' (طبرانی )

جو شخص اپنی خواہشات کو عقل کے تابع رکھتا ہو اور عقلِ سلیم کے مطابق معاملات حل کرتا ہو وہ اگر کسی قسم کے خرافات میں مبتلا ہو تو اسے سمجھا کر راہِ راست پر لایا جاسکتا ہے اور یہ اعتماد بھی بجا طور پر کیا جا سکتا ہے کہ وہ راہِ راست اختیار کرنے کے بعد اس پر ثابت قدم بھی رہے گا۔ مگر بندۂ نفس اور خواہشات کا غلام شُتر بے مہار ہے۔ اسے اس کی خواہشات جدھر لے جا رہی ہیں وہ انہی کے ساتھ بھٹکتا رہے گا۔ اسے سرے سے یہ فکر ہی نہیں کہ صحیح و غلط اور حق و باطل میں تمیز کرے۔ پھر بھلا کون اسے سمجھا کر راستی کا قائل کرسکتا ہے اور بالفرض وہ بات مان بھی لے تو اسے کسی ضابطۂ اخلاق کا پابند بنانا کسی عام انسان کے بس کا روگ نہیں۔

قرآن حکیم میں ارشاد کا مفہوم ہے: '' پھر کیا تم نے کبھی اْس شخص کے حال پر بھی غور کیا جس نے اپنی خواہشِ نفس کو اپنا خدا بنا لیا اور اللہ نے علم کے باوجود اسے گم راہی میں پھینک دیا اور اْس کے دل اور کانوں پر مُہر لگا دی اور اْس کی آنکھوں پر پردہ ڈال دیا؟ اللہ کے بعد اب اور کون ہے جو اُسے ہدایت دے؟ کیا تم لوگ کوئی سبق نہیں لیتے؟'' (الجاثیہ)

یہاں پر یہ نتیجہ نکالنا بیجا نہ ہوگا کہ خواہشاتِ انسانی زندگی کا اہم جزو ہیں جن کی مسلمہ حقیقت سے کسی صورت انکار نہیں کیا جاسکتا۔ مگر عقل کا فتور اور خواہشات کی اندھی تقلید انسان کو وحشت کے خوف ناک سمندر میں بُری طرح ڈبو دیتی ہے۔ اس سلسلے میں اجتماعی کے برعکس انفرادی کوشش و جدوجہد زیادہ قابل عمل اور اہمیت کی حامل ثابت ہوتی ہے۔

حافظ حُسین عبداللہ

مقبول خبریں