تخت لاہور کو بھی ’خٹک‘ چاہیے

حسنین انور  ہفتہ 28 جولائی 2018
پنجاب کو ایسے حکمران کی ضرورت ہے جس میں سب کو ساتھ لے کر چلنے اور اس سے بڑھ کر ساتھ نباہنے کی خوبی ہو۔ فوٹو: انٹرنیٹ

پنجاب کو ایسے حکمران کی ضرورت ہے جس میں سب کو ساتھ لے کر چلنے اور اس سے بڑھ کر ساتھ نباہنے کی خوبی ہو۔ فوٹو: انٹرنیٹ

پاکستان میں تازہ ترین انتخابات کے بعد جہاں وفاقی سطح پر صورتحال دلچسپ ہوئی، وہیں خاص طور پر پنجاب میں تو دلچسپ ترین ہوچکی ہے۔ پاکستان مسلم لیگ اور تحریک انصاف کے درمیان انیس بیس کا فرق ہے، جوڑ توڑ عروج پر ہے اور دیکھنا یہ ہے کہ حتمی ’آکڑے‘ کس پارٹی کو حاصل ہوتے ہیں۔

جہاں تک تخت لاہور کے پرانے والی وارثوں یعنی ’ن لیگ‘ والوں کی بات ہے تو انہیں صرف ایک محاذ پر لڑائی کا چیلنج درپیش ہے جو حکومت سازی کےلیے مطلوبہ اکثریت کا حصول ہے۔ اگر وہ اس میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو ان کے پاس بنا بنایا وزیراعلیٰ یعنی حمزہ شہباز موجود ہیں کیونکہ نواز شریف کی عدم موجودگی میں شہباز شریف کی قومی اسمبلی میں موجودگی انتہائی ضروری ہوگی اس لیے انہیں نہ چاہتے ہوئے بھی صوبائی سیاست سے نکل کو خود کو قومی لیڈر کے طور پر پیش کرنا ہوگا۔ ایسے میں موروثی سیاست کے علمبرداروں کے پاس صرف ایک ہی چوائس باقی بچتی اور وہ حمزہ شہباز ہیں جن کی ٹریننگ ان کے والد محترم گزشتہ پانچ برس کے دوران کرتے رہے ہیں۔

دوسری جانب تحریک انصاف ہے؛ اور وہ مطلوبہ آکڑے جمع کرنے کی پوزیشن میں بھی ہے۔ وہ یہ کر بھی سکتی ہے اور اگر وفاق میں حکومت بنارہی ہے تو پھر ضروری ہے کہ حقیقی تبدیلی کے لیے تخت لاہور بھی پی ٹی آئی کے پاس ہی ہو۔ اس لیے کسی بھی صورت میں پی ٹی آئی کو پنجاب کی حکومت سے دستبردار نہیں ہونا چاہیے مگر پی ٹی آئی کی آزمائش صرف پنجاب اسمبلی میں مطلوبہ اکثریت کا حصول ہی نہیں بلکہ اس کےلیے اصل ’عشق‘ کے امتحاں اور بھی ہیں۔

ہر پارٹی میں کچھ حقیقی مجنوں ہوتے ہیں، کچھ چُوری کھانے والے مجنوں ہوتے ہیں۔ اس وقت تخت لاہور پر کچھ چُوری کھانے والے مجنوؤں کی رال بہت تیزی سے ٹپک رہی ہے اور اپنی اس خواہش کو زبان بھی دے رہے ہیں۔ اور اس کےلیے اہم ترین وزارتوں کو ’لات‘ بھی مار رہے ہیں۔ کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جنہیں پارٹی میں آئے ہوئے جمعہ جمعہ 8 دن بھی نہیں ہوئے اور جو انتخابی معرکے میں ’پنڈال‘ تک نہیں بھرپائے، وہ بھی ’خادم اعلیٰ‘ کے منصب پر فائز ہونے کے سنہری خواب اپنی آنکھوں میں سجا چکے ہیں۔

کچھ ایسے بھی ہیں جنہوں نے بظاہر اپنے منہ سے کچھ نہیں کہا مگر اپنے حواریوں کے ذریعے یہ بات میڈیا میں پھیلا چکے ہیں کہ وہ بھی تخت لاہور پر ’قبضہ‘ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔

صورتحال واقعی خاصی دلچسپ ہے۔ ماضی قریب میں یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ شاید پاکستان میں وزارت عظمیٰ سے بھی زیادہ پاور فل وزارت اعلیٰ ہے۔ اڈیالہ جیل میں آرام کرنے والے مسلم لیگ کے ’روحانی‘ سربراہ اگرچہ وزیراعظم پورے پاکستان کے تھے مگر اپنی کامیابیوں کےلیے ہمیشہ ہی وہ پنجاب کے ترقیانی منصوبوں کو پیش کرتے رہے۔ ان کی حکومت میں ملتان اور اسلام آباد کی میٹرو بس سروس ریکارڈ مدت میں مکمل ہوئی مگر کراچی میں کھدی سڑکیں ان کے پورے ملک کا وزیراعظم ہونے کی ’چغلی‘ کھارہی ہیں۔

ویسے بھی اٹھارویں ترمیم کے بعد صوبوں کو مالیاتی خود مختاری حاصل ہوچکی، ان کا جو جی چاہے وہ کرسکتے ہیں۔ چند ایک چیزیں ہی وفاق کے پاس ہیں۔ اس لیے حقیقی تبدیلی لانے کےلیے تخت لاہور کا پاس ہونا انتہائی ضروری ہے۔

عمران خان نے جب پرویزخٹک کو خیبر پختونخوا کا وزیراعلیٰ مقرر کیا تو ان کی عمر، صحت اور ماضی میں مختلف جماعتوں کی جانب سے ’اسٹیٹس کو‘ کا حصہ رہنے کی وجہ سے شدید اعتراضات ہوئے مگر اگلے پانچ برس میں عمران خان کا فیصلہ بڑی حد تک درست ثابت ہوا۔ ایک مخلوط حکومت کو آخری لمحات تک جس خوش اسلوبی سے پرویز خٹک نے چلایا، وہ اس پر واقعی خراج تحسین کے مستحق ہیں۔ اگرچہ اس دوران ’تبدیلی‘ اتنی تیزی سے نہیں آئی جس کی توقع کی جارہی یا دلائی جارہی تھی، مگر پھر بھی صوبے میں تروتازہ ہوا کے جھونکے محسوس ہونے لگے اور یہ اسی کا ثمر ہے کہ پی ٹی آئی کے پی کے میں کلین سویپ کرنے میں کامیاب رہی۔

پنجاب میں بھی پی ٹی آئی کو اب بالکل ویسی ہی صورتحال درپیش ہے۔ یہاں اسے مخلوط حکومت بنانی ہوگی اور یہ کوئی راز نہیں کہ جو اتحادی ہوتے ہیں، ان کی مانگیں مزدوروں کے مطالبات سے بھی زیادہ ہوتی ہیں۔ ان سب کو مطمئن رکھنا ہی کارنامہ نہیں بلکہ اس کے ساتھ اپنا وہ مقصد حاصل کرنا ہی عظیم کارنامہ ہے جس کی وجہ سے لوگوں نے آپ کو ووٹ دیا ہے۔

پنجاب کو بھی اس وقت پرویز خٹک جیسے سلجھے ہوئے اور انتہائی ٹھنڈے مزاج کے حامل حکمران کی ضرورت ہے، جس میں ’میں‘ نہ ہو، جو جذباتی نہ ہو، جو ظاہری نمود و نمائش کا خواہاں نہ ہو، جس کی بات خود سے شروع ہوکر خود پر ختم نہ ہوتی ہو اور سب سے بڑی اور اہم ترین چیز یہ کہ اس کا کوئی ’خفیہ ایجنڈہ‘ نہ ہو۔ جس میں سب کو ساتھ لے کر چلنے اور اس سے بڑھ کر ساتھ نباہنے کی خوبی ہو۔ جو عوام کو طاقت کا سرچشمہ سمجھے، اپنا ’مرید‘ نہیں۔

عمران خان کےلیے ملک کی باگ ڈور سنبھالنے اور اس کو چلانے سے پہلے اہم ترین چیلنج تخت لاہور کے درست وارث کا انتخاب ہے۔ اس وقت دوڑ میں آگے جتنے بھی ’گھوڑے‘ ہیں، ان میں تو کوئی دم خم نہیں۔ عمران کو بڑا فیصلہ لینا ہوگا، اگر ’نااہل‘ مردوں کے مقابلے میں ایک ’سمجھدار‘ عورت کو ذمہ داری سونپ دی جائے تو اس میں کوئی مضائقہ بھی نہیں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

Husnain Anwer

حسنین انور

بلاگر بیس سال سے میدان صحافت میں ہیں اور ایکسپریس گروپ سے منسلک ہیں۔ انہیں ٹویٹر ہینڈل@sapnonkasodagar پر فالو اور [email protected] پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔