مبارکباد کے منفرد پیغامات

ایسا محسوس ہوتا ہے کہ دونوں ملک پاکستان کی نئی قیادت عمران خان سے متنازع مسائل پر حقیقت پسندانہ رویے کی امید رکھتی ہے۔


Zaheer Akhter Bedari August 09, 2018
[email protected]

دو ملکوں کی خصوصی مبارکباد۔ کوئی پارٹی انتخابات جیت کر حکومت بنانے کی تیاری کررہی ہوتی ہے تو دوست اور مخالف سب ملکوں کی طرف سے پارٹی لیڈر کو مبارکباد کے پیغام ملتے ہیں۔ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کو بھی دنیا کے مختلف ملکوں کے رہنماؤں کی طرف سے مبارکباد کے پیغامات مل رہے ہیں لیکن دو ملکوں یعنی افغانستان اور بھارت کے سربراہوں کی جانب سے جو پیغام مبارکباد ملے ہیں ان کی اہمیت اس لیے منفرد ہے کہ یہ پیغام روٹین کے مبارکباد کے پیغام نہیں ہیں بلکہ ان کے اندر ایک معنویت ایک خصوصی پیغام موجود ہے۔ ان دونوں ملکوں سے پاکستان کے تعلقات عشروں سے سنگین حد تک خراب چلے آرہے ہیں ۔

اس تناظر میں اگر ان پیغامات کا جائزہ لیا جائے تو امید کی ایک کرن ان پیغامات میں نظر آتی ہے اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ دونوں ملک پاکستان کی نئی قیادت عمران خان سے متنازع مسائل پر حقیقت پسندانہ رویے کی امید رکھتی ہے ۔ یہ پیغامات اپنے اندر ایک مثبت ترغیب کے حامل نظر آتے ہیں اس سے پہلے کہ ہم ان پیغامات کے مثبت پہلوؤں پر غور کریں ان پیغامات پر ایک نظر ڈالنا چاہتے ہیں۔

افغان صدر اشرف غنی نے اپنے ایک ٹویٹ پیغام میں کہاہے کہ ہم نے ماضی کو بھلاکر دونوں ملکوں کے خوشحال سیاسی، سماجی اور معاشی مستقبل کے لیے ایک نیا سنگ بنیاد رکھنے پر اتفاق کیا ہے۔ افغان صدر نے عمران خان کو افغانستان کے دورے کی دعوت دیتے ہوئے کہا ہے کہ آپ افغانستان میں نہایت مقبول خاص طور پر افغان نوجوانوں کے ہیرو ہیں آپ کی مقبولیت کی وجہ سے افغانستان میں کرکٹ کو فروغ حاصل ہوا ہے۔ دونوں ملک باہمی بھائی چارے، ہمسائیگی اور دوستی کے دیرینہ رشتوں میں بندھے ہوئے ہیں۔ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے اشرف غنی کی طرف سے دی گئی دورہ افغانستان کی دعوت قبول کرلی ہے ۔

عمران خان نے دورہ افغانستان کی دعوت کو قبول کرتے ہوئے کہاہے کہ پاکستان افغانستان میں مکمل امن اور خوشحالی کا خواہاں ہے۔ تحریک انصاف دونوں برادر اسلامی ملکوں کے درمیان تعلقات میں سرگرمی اور تحریک لائے گی۔ پاکستان میں افغان سفیر نے اپنے ٹویٹ میں کہاہے کہ افغان صدر اشرف غنی نے ہمسایہ ممالک کو مزید قریب لانے کے لیے عمران خان کے بیان کو خوش آیند قرار دیا ہے۔ عمران خان نے اڈیالہ جیل میں قید سابق وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کی جلد اور مکمل صحت یابی کی دعا کی ہے۔

اب ذرا بھارت پر ایک نظر۔ بھارت کی وزارت خارجہ کے ترجمان دریش کمار نے امید ظاہر کی ہے کہ پاکستان کی نئی حکومت خطے کو پر امن اور محفوظ بنانے کی کوشش کرے گی، بھارتی وزارت خارجہ کے ترجمان نے کہا ہے کہ بھارت خوشحال اور ترقی پسند پاکستان کا خواہش مند ہے ہم امید کرتے ہیں کہ نئی حکومت جنوبی ایشیا کو محفوظ و مستحکم اور دہشت گردی سے پاک خطہ بنانے کے لیے تعمیری کردار ادا کرے گی۔ نئی حکومت سے توقع ہے کہ وہ دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کو بہتر بنانے کے لیے کوشش کرے گی یہاں ہم افغانستان کی ایک مسجد میں دھماکے کا ذکر کریںگے جس میں 39 افراد جاں بحق اور 81 افراد زخمی ہوگئے ہیں یہ روزانہ کا معمول بن گیا ہے۔

افغانستان ہمارا پڑوسی مسلم ملک ہے جو عشروں سے دہشت گردی کا شکار ہے۔ دونوں برادر ملک ایک دوسرے پر دہشت گردی میں ملوث ہونے کا الزام لگاتے آرہے ہیں لیکن افغانستان کے صدر اشرف غنی نے عمران خان کو مبارکباد کا پیغام دیتے ہوئے جن خیالات کا ذکر کیا ہے اس سے اشرف غنی کی عمران خان سے غیر متوقع امیدوں کا اظہار ہوتا ہے۔ بد قسمتی سے افغانستان کے معاملات میں بھارت کے بڑھتے ہوئے عمل دخل سے پاکستانی حکومتوں کو شکایت بھی رہی ہے اور وسوسے بھی رہے ہیں با ایں ہمہ اشرف غنی نے عمران خان کو مبارکباد کو جو پیغام بھیجا ہے وہ ماضی کے پس منظر میں غیر معمولی اور امید افزا نظر آتا ہے یوں محسوس ہوتا ہے کہ افغان صدر اشرف غنی نے عمران خان سے غیر معمولی امیدیں وابستہ کرلی ہیں۔ ا

س کی وجہ یہ ہے کہ عمران خان کی شہرت محض ایک اعلیٰ درجے کے کرکٹر کی ہی نہیں بلکہ ایک ایسے کھرے انسان کی بھی ہے جو سرمایہ دارانہ نظام کی دوغلی اور مصلحت پسندانہ سیاست کا مخالف ہے۔ اشرف غنی کا یہ بیان کہ عمران خان افغان عوام میں بہت مقبول ہیں اور افغانستان کا نوجوان طبقہ عمران خان کو اپنا ہیرو مانتا ہے اس بیان سے ظاہر ہوتا ہے کہ افغان صدر دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کی بہتری میں عمران خان سے غیر معمولی توقعات رکھتے ہیں اور امید کرتے ہیں کہ عمران خان سرمایہ دارانہ جمہوریت کے دوغلے پن کا مظاہرہ نہیں کریںگے بلکہ خلوص سے دونوں ملکوں کے تعلقات بہتر بنانے کی کوشش کریںگے۔

اس وقت بھارت کے وزیراعظم کا تعلق انتہائی نچلے طبقے سے ہے اور وہ یقینا نچلے طبقات کے المناک مسائل سے پوری طرح واقفیت رکھتے ہوںگے انھیں اندازہ ہوگا کہ دونوں ملکوں کے لگ بھگ ایک ارب سے زیادہ انسان بھوک افلاس، بے کاری اور جہل کے پنجوں میں کس طرح جکڑے ہوئے ہیں اور اس کا ایک بڑا سبب مسئلہ کشمیر ہے۔ دنیا کی تاریخ میں بڑی سے بڑی جابر طاقتیں طاقت کے ذریعے عوام کو زیادہ عرصے تک غلام بنائے نہیں رکھ سکتیں۔ اس پس منظر میں بھارتی حکمران طبقہ اپنی 8 لاکھ فوج کے ذریعے کشمیری عوام کو کب تک اپنا غلام بنائے رکھ سکتا ہے۔ بھارت کی اولین قیادت نے اپنی حیات کے دوران مسئلہ کشمیر حل نہ کرکے جو غلطی کی تھی اس کی سزا برصغیر کے دونوں ملکوں کے عوام 70 سال سے بھگت رہے ہیں۔

دونوں ملک ہتھیاروں کی دوڑ میں جو اربوں کھربوں روپے ضایع کرتے آرہے ہیں اگر اس بھاری سرمائے کو دونوں ملکوں کی اقتصادی حالت بہتر بنانے پر صرف کیا جاتا تو یقینا عوام غربت، افلاس، بے کاری کے پنجوں سے آزاد ہوسکتے تھے لیکن سرمایہ دارانہ نظام کے ایجاد کردہ قومی مفادات کے پھندے میں جکڑا ہوا بھارت کا حکمران طبقہ کشمیر کے حوالے سے اپنی بے لچک پالیسی بدلنے کے لیے تیار نہیں، پاکستان کا نیا سربراہ عمران خان ایک سچا اور کھرا انسان ہے اگر بھارتی قیادت افغان صدر کی پیروی کرتے ہوئے عمران خان سے مخلصانہ بات چیت کی ابتدا کرے تو یقینا اس کے مثبت نتائج بر آمد ہوسکتے ہیں۔

مقبول خبریں