غلام

طلال مجتبیٰ حیدر  بدھ 15 اگست 2018
ان بابوؤں کی تربیت ہی اس قانون کے تحت ہوتی ہے جو برٹش سرکار نے ایک غلام قوم کو قابو کرنے کےلیے بنایا تھا۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

ان بابوؤں کی تربیت ہی اس قانون کے تحت ہوتی ہے جو برٹش سرکار نے ایک غلام قوم کو قابو کرنے کےلیے بنایا تھا۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

’’بیٹا میں چاہتی ہوں کہ ہمارے باغ کو ڈائریکٹ نہر کا پانی پہنچے۔‘‘ یہ ایک ماں کی اپنے بیٹے سے چھوٹی سی خواہش تھی۔ بیٹا کوئی عام آدمی ہوتا تو ماں کو سمجھا بجھا کر منالیتا، لیکن بیٹا ایک سرکاری افسر تھا اور وہ بھی گریڈ بیس کا۔ جواب دیا، ’’ماں جی پہنچ جائے گا۔‘‘ اگلے ہی دن اپنے اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے محکمہ انہار کو لائن حاضر کرلیا گیا اور اس افسر کے گھر نہر کا پانی پہنچانے کےلیے فیزیبلٹی رپورٹ بننے لگی۔ مشورہ دیا گیا کہ اگر نہر سے نکلنے والے کھالے کا موگا نیا بنایا جائے تو پانی کا پریشر تیز ہوجائے گا اور افسر ’’صاب‘‘ کے گھر تک پہنچ جائے گا۔ اگلے ہی دن تیزی سے کام بھی شروع ہوجاتا ہے۔ نیا موگا بن کر تیار ہوجاتا ہے اور اس میں پانی بھی چھوڑ دیا جاتا ہے۔

پریشر زیادہ ہونے سے پانی تو افسر صاب کے گھر پہنچ گیا لیکن پلاننگ کی کمی کی وجہ سے نہر کی مٹی کھالے میں جانے سے اس کا لیول اونچا ہوگیا اور پانی اس کے کناروں سے باہر آنے لگا جس سے پورا علاقہ نہر بن گیا۔ تھوڑی دیر میں نہری پانی افسر صاب کے باغ کو سیراب کرنے کے بعد بند ہوگیا کیوں کہ نالے میں صرف مٹی رہ گئی تھی جس سے پانی بند ہوگیا۔

افسر صاب نے پھر عملے کو لائن حاضر کرلیا اور خوب سنائیں کہ یہ کام ہے تمہارا! عملے نے اپنا مدعا بیان کیا کہ صاب جی، کھالے کے راستے میں جو گھر آتے ہیں انہوں نے کھالے کے اوپر تھڑے بنائے ہوئے ہیں جن کی وجہ سے بھل صفائی میں مشکل آتی ہے۔ باقی جو آپ کا حکم!

’’توڑ دو!‘‘ افسر صاب نے نادر شاہی حکم صادر کردیا۔

میں یہاں کسی دور دراز گاؤں کا ذکر نہیں کر رہا بلکہ یہ پنجاب کے دوسرے بڑے شہر فیصل آباد کے سب سے پوش ایریا پیپلز کالونی کا واقعہ ہے؛ اور افسر صاب کے حکم سے جو تھڑے توڑے جارہے تھے، وہ ان گھروں کے انٹری گیٹ تھے جو ہاؤسنگ قوانین کے مطابق بنائے گئے تھے۔ لیکن صاب کا حکم جو تھا!

ایک ہی دن میں سرکار نے ساری کاغذی کارروائی مکمل کرکے کام شروع کردیا۔ علاقہ مکینوں نے احتجاج کیا تو انہیں حکم نامہ دکھادیا گیا۔

کام جاری ہوا، سیکڑوں کی تعداد میں عوام مہینوں خوار ہوئے اور قوم کے لاکھوں روپے اس چھوٹی سی خواہش کی نذر ہوگئے۔ نالے کی دوبارہ صفائی کروا کر پانی دوبارہ چھوڑا گیا لیکن نتیجہ وہی ’’ڈھاک کے تین پات‘‘ سے مختلف نہ رہا۔ ہزاروں لوگوں کو تنگ کرنے اور لاکھوں روپے ضائع کرنے کے بعد افسر صاب نے گھر کے لان کو سیراب کرنے کےلیے سرکاری ٹینکر لگوالیا۔

یہ واقعہ دارصل اس گھٹیا سوچ کی عکاسی کرتا ہے جو یہ بڑے بڑے افسران، عوام کےلیے رکھتے ہیں۔ ان بابوؤں کی تربیت ہی اس قانون کے تحت ہوتی ہے جو برٹش سرکار نے ایک غلام قوم کو قابو کرنے کےلیے بنایا تھا؛ جس میں اگر کسی ڈپٹی کمشنر کے ہاتھوں کوئی مر بھی جاتا تھا تو اس پر صرف دو روپے جرمانہ عائد کیا جاتا تھا۔

انگریز تو چلا گیا لیکن اپنے بابو یہاں چھوڑ گیا کہ ہم آزاد تو ہوجائیں لیکن پھر بھی غلام ہی رہیں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔