اسلام میں حقوق العباد اور بندگی کے تقاضے

رفیع الزمان زبیری  بدھ 15 اگست 2018

سید نذیر بخاری نے ریڈیو اور ٹی وی جرنلسٹ کی حیثیت سے بڑی کامیابیاں حاصل کی ہیں لیکن ان کا اصل کارنامہ اسلام میں حقوق العباد اور بندگی کے تقاضوں پر ان کی کتاب ہے۔

اپنے پیش لفظ میں وہ لکھتے ہیں ’’اسلام کے حقوق العباد یا حقوق انسانی خدا کی طرف سے تفویض کردہ ایک اخلاقی نظام کا حصہ ہیں۔ یہ اخلاقی نظام اپنے دائرۂ کار میں بہت وسیع ہے اور دوسرے نظام ہائے اخلاق میں ایک بہت بڑا اضافہ ہے۔ اس کا پہلا اصول یہ ہے کہ بنیادی حقوق سمیت تمام احکام اہل ایمان کے لیے ہیں۔ دوسرا اصول یہ ہے کہ بنیادی حقوق کے اعتبار سے تمام انسان برابر ہیں اور اسلام کے اخلاقی نظام کا تیسرا اصول یہ ہے کہ انسانی معاملات خالص انصاف اور عدل کی بنیاد پر طے ہوں گے۔ یہ بھی یاد رکھنے کی بات ہے کہ حقوق العباد کی پیروی کے لیے قرآنی احکام کے علاوہ احادیث اور اقوال رسولؐ پر عمل درآمد بھی لازمی ہے کہ خود قرآن کے الفاظ میں اطاعت رسولؐ اطاعتِ اﷲ ہے۔‘‘

نذیر بخاری اپنی کتاب کو حقوق العباد کے وسیع تر مفہوم اور ان کی لازمی ادائی کے تقاضوں پر تفصیل سے روشنی ڈالنے کی ایک کوشش قرار دیتے ہیں۔ وہ یہ بتانا چاہتے ہیں کہ ان حقوق کا دائرہ کار زندگی کے تمام پہلوؤں پر محیط ہے۔ عبادات کو چھوڑ کر انسان کا کوئی روحانی اور جسمانی عمل ایسا نہیں ہے جو قرآن اور حدیث میں دیے گئے انسانی حقوق کے زمرے میں نہ آتا ہو اور دوسروں کے حقوق کا دلی احترام کس طرح خلوص نیت، دیانت داری، نرم دلی اور پوری طرح حامل ایمان ہونے کا متقاضی ہے۔

وہ لکھتے ہیں ’’عدل، فلسفہ اسلام اور اسلامی شریعت کی بنیاد ہے۔ کیونکہ عدل ہی سے ایک پرامن اور ظلم و زیادتی سے پاک معاشرہ تشکیل پا سکتا ہے۔ حقوق العباد کی ادائی میں بھی عدل ایک اساسی حیثیت رکھتا ہے۔ اﷲ تعالیٰ اپنے بندوں کو حکم دیتا ہے (سورۃ النحل 90) عدل کی تعریف کیا ہے؟ عدل کے معنی ہیں افراط و تفریط سے بچتے ہوئے توازن اور تناسب قائم کرنا، یعنی وزن کو دو برابر ایسے حصوں میں تقسیم کرنا کہ کسی بھی حصے میں ذرہ بھر کی کمی و بیشی نہ ہو۔ شریعت کی اصطلاح میں عدل کا مطلب ہے کسی چیز کو اس کے صحیح موقع و محل میں رکھنا۔ قرآن مجید میں عدل اور قسط ہم معنی الفاظ کے طور پر استعمال ہوتے ہیں لیکن جب عدل سے مراد دو آدمیوں میں برابر کا سلوک ہو۔ قسط کے معنی کسی کے حقوق اور واجبات کو پورا پورا ادا کرنا۔

نذیر بخاری نے حقوق کو نام بہ نام گنوانے سے پہلے یہ بتایا ہے کہ اسلام میں حق کا مطلب کیا ہے۔ قرآن میں یہ حقوق صراحت کے ساتھ بیان ہوئے ہیں۔ اقوال رسولؐ میں ان کا تفصیلی ذکر اور اسوۂ حسنہ میں ان کا بالالتزام عمل دیکھنے میں آیا ہے۔ صحابہ کرام نے اعلانیہ ان حقوق کو تسلیم کرکے ان پر پوری طرح عمل کیا ہے، علمائے اسلام نے تفصیل کے ساتھ ان حقوق کو بیان کیا ہے۔ اولیائے کرام نے گہرائی میں جاکر اپنے قول و فعل سے حقوق العباد کی تفصیلاً وضاحت اور پیروی کی ہے اور بتایا ہے کہ انسان کو اپنے معاملات نمٹانے اور دوسروں کے ساتھ برتاؤ میں کن باتوں کا خیال رکھنا ضروری ہے۔قرآن کریم میں ایک انسان کے حقوق جو بیان کیے گئے ہیں ان کی تفصیل بیان کرتے ہوئے نذیر بخاری کہتے ہیں کہ یہ قانون کا درجہ رکھتے ہیں اور اس کے متقاضی ہیں کہ زمین پر اﷲ کی نیابت کرنیوالے ’’اولوالامر‘‘ ان پر عمل کرائیں۔

وہ لکھتے ہیں ’’حقوق انسانی کو اسلام میں فریضہ کی حیثیت حاصل ہے۔ کوئی فرد، کوئی معاشرہ، کوئی حاکم، کوئی حکومت یا کوئی ادارہ (پارلیمنٹ) آپ کو ان حقوق سے محروم نہیں کرسکتا۔ نہ ہی ان کی نوعیت تبدیل کی جاسکتی ہے۔ قرآن میں تخصیص کے ساتھ جن حقوق کی نشان دہی کی گئی ہے انھیں قوانین کی حیثیت حاصل ہے اور مسلمانوں کی پارلیمنٹ کی طرف سے ان میں ترمیم نہیں ہوسکتی ہے۔ اسلام کے حقوق العباد کی یہ بھی امتیازی خصوصیت ہے کہ ان حقوق کی تقسیم میں کسی قسم کی تفریق روا نہیں رکھی گئی ہے۔ اﷲ نے ہر انسان کو یہ حقوق علاقے، رنگ، نسل، ذات پات، مذہب، معاشرے میں مقام اور رتبے کے بندھنوں سے آزاد کرکے دیے ہیں، کیونکہ اسلام میں حقوق العباد کی بنیاد تقویٰ، ایثار، قوانین الٰہی اور منشائے الٰہی پر قائم کی گئی ہے۔ اس لیے حقوق العباد کی ادائیگی عبادت کا درجہ پاتی ہے اور اس سے معاشرے میں نیکی، امن، مساوات اور بھائی چارے کو فروغ ملتا ہے۔

نذیر بخاری نے اسوۂ رسولؐ کو حقوق العباد کے لیے ایک ہدایت نامہ قرار دیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں ’’جہاں قرآن کی آیات میں حقوق العباد کی تشریح نظر آتی ہے وہاں قرآن مسلمانوں اور عام انسانوں کو تلقین کرتا ہے کہ وہ رسول اﷲؐ کے اسوۂ حسنہ اور آپؐ کے فرمودات اور خلق کو سامنے رکھ کر حقوق اﷲ اور حقوق العباد کا ادراک کریں اور ان پر عمل کریں، کیونکہ ’’حقوق‘‘ پر عمل کرنے، حکم کی تائید اور ترغیب اور رہنمائی اسوۂ حسنہ ہی سے ملتی ہے‘‘۔

نذیر بخاری نے اپنی کتاب میں حضور اکرمؐؐ کے فرمودات اور عمل کا تفصیل سے ذکر کیا ہے جن سے حقوق العباد کا پورا خاکہ ابھر کر سامنے آتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ انھوں نے یہ بھی واضح کیا ہے کہ منشائے الٰہی اور اسوۂ حسنہ کیمطابق حقوق العباد کی ادائیگی میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا علم ہونا اور ان سے متعلق امور کی پہچان ہونا بھی ضروری ہے، کیونکہ نیک و بد اور حلال و حرام کا علم عمل صالح کرنے میں مددگار ہوتا ہے۔ نذیر بخاری اس بات پر زور دیتے ہیں کہ حقوق اﷲ کے مثل حقوق العباد کی کماحقہ ادائی صرف وہی افراد کرسکتے ہیں جو واقعی دین دار ہوں، حلال و حرام کی تمیز، عدل کے نظام اور انفاق فی سبیل اﷲ پر پختہ یقین رکھتے ہوں اور قرآن میں باہمی معاملات اور لین دین کے بارے میں جو احکام ہیں ان پر عمل کرنے کے لیے تیار ہوں۔انسانی حقوق کے نفاذ کے سلسلے میں میثاق مدینہ اور حضور اکرمؐ کے خطبہ حج الوداع کی اہمیت کا ذکر کرتے ہوئے نذیر بخاری لکھتے ہیں۔ ’’انسانوں کے روزمرہ کے عمومی اور زیادہ اہم معاملات طے کرنے کے سلسلے میں جہاں میثاق مدینہ حقوق العباد کی ابتدائی دستاویز ہے وہاں انسانی حقوق پر آخری منشور خطبہ حج الوداع ہے جو بغیر امتیاز ہر انسان کو بنیادی حقوق کی ضمانت دیتا ہے، یہ دراصل وہ خطبہ انقلاب تھا جو تمام انسانوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے سرچشمہ ہدایت بن گیا‘‘۔

رسول اﷲؐ نے اپنے اسوۂ حسنہ کے ذریعے انسانوں کے ساتھ جس رحمدلانہ، عادلانہ اور عفو و درگزر کا سلوک کیا نذیر بخاری نے اس کی جھلکیاں پیش کرنے کے بعد آپؐ کے صحابہؓ کا آپؐ کے بعد جو عمل تھا اس کا ذکر کیا ہے۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ اپنی تقاریر میں حقوق اﷲ کی فضیلت بیان کرنے کے ساتھ ساتھ اﷲ کے بندوں کے حقوق کا ذکر کرتے رہتے تھے۔ حضرت عمرؓ کا ایقان تھا کہ عدل اور انصاف کی فرمانروائی کے بغیر حقوق العباد کے تقاضے پورے نہیں کیے جاسکتے اور اس سلسلے میں ظلم و زیادتی کے امکانات کو ختم کرنا لازمی ہے۔ حضرت عثمانؓ نے منصب خلافت سنبھالنے کے بعد اپنے امرا و عمال کو جو ہدایت کی وہ یہ تھی کہ امت کے امور میں غور کرو، ان کا جو حق ہے وہ ان کو دو، جو تمہارا حق ہے وہ تم ان سے لو اور یہی عمل ذمیوں کے ساتھ کرو۔ حضرت علیؓ نے اپنے دور خلافت کے آغاز میں ہی اپنے خطبہ میں مسلمانوں کو حقوق العباد کی پیروی کرنے اور اﷲ کے بندوں کے ساتھ معاملہ کرتے وقت تقویٰ اختیار کرنے کی تلقین فرمائی۔

نذیر بخاری نے اپنی کتاب میں دنیا میں دوسرے مذاہب کے انسانی حقوق کے تصور کا بھی ذکر کیا ہے اور اسلام میں انسانی حقوق کے نظریے پر اسلامک کونسل آف یورپ کے اعلان کا متن پیش کیا ہے، جس میں واضح کیا گیا ہے کہ حقوق العباد کی پیروی مسلمانوں کے عقیدے ہی کا حصہ ہے۔ڈاکٹر خالد مسعود درست فرماتے ہیں کہ اس کتاب کے مخاطب مسلمان ضرور ہیں لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ حقوق العباد کا نظام مسلمانوں تک محدود ہے۔ یہ کتاب دعوت مطالعہ ہے ان کے لیے جو انسانی بنیادی حقوق پر اسلامی تعلیمات کی تفصیل جاننا چاہتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔