خوبصورت یادوں کی چیخ و پُکار

آج کے پاکستان میں تازہ ہونے والی یہ اجنبی یادیں اس قدر گھبرا جاتی...


Abdul Qadir Hassan August 15, 2012
[email protected]

KARACHI: مجھے ٹھیک سے یہ تو یاد نہیں کہ آزادی کے بعد یہ پہلی چودہ اگست تھی یا دوسری لیکن مجھے اتنا ضرور یاد ہے کہ حضوری باغ تھا' سامنے لاہور میں مغلوں کا قلعہ تھا پشت پر شاہی مسجد تھی اور سامنے قلعے میں ایک بہت ہی بڑا گرانڈیل بند دروازہ تھا جسے اس دن کھولنا تھا اس تقریب کی قیادت پنجاب کے گورنر سردار عبدالرب نشتر کر رہے تھے اور میں ایک دیہاتی لاہور کو دیکھنے یہاں آیا ہوا تھا۔

امن و امان کی یہ حالت تھی کہ گورنر آئے اور چلے گئے مگر اس دیہاتی لڑکے تک سے کسی نے نہ پوچھا کہ تم کون ہو اور یہاں کیا کر رہے ہو۔ بس میں ایک پاکستانی تھا اور میری صفائی اور سیکیورٹی کے لیے اتنا ہی کافی تھا۔ یہی وہ خوبصورت یادیں ہیں جو آج جب دل دماغ میں تازہ ہوتی ہیں تو روتی پیٹتی چیختی چلاتی محسوس ہوتی ہیں۔ آج کے پاکستان میں تازہ ہونے والی یہ اجنبی یادیں اس نئے ماحول میں اس قدر گھبرا جاتی ہیں کہ چیخنا چلانا شروع کر دیتی ہیں۔ یادوں کا بھی دل ہوتا ہے۔
جس تقریب کا میں ذکر کر رہا ہوں وہ کئی لحاظ سے ایک تاریخی تقریب تھی۔ قلعہ کا یہ مسجد اور حضوری باغ کی سمت کھلنے والا دروازہ شاید سکھوں کے دور سے بند تھا۔ یوں تھا کہ جمعے کو بادشاہ ہاتھی پر سوار اس دروازے سے باہر نکلتا تھا اور مسجد میں نماز جمعہ ادا کر کے واپس اسی راستے سے قلعہ میں داخل ہو جاتا تھا۔

اس دروازے کو عالمگیری دروازہ کہا جاتا تھا کہ نماز جمعہ کے لیے اورنگ زیب نے قلعے کی ایک دیوار میں یہ دروازہ نصب کرایا تھا جسے بند کر دیا گیا لیکن آج جب قیام پاکستان سے کئی دروازے کھل گئے تو یہ دروازہ بھی کھلا اور ایک مسلمان حکمران نے یہ فرض ادا کیا۔ اردو فارسی اور اسلامی علوم اور تعلیمات کے شناسا سردار نشتر سے زیادہ بہتر اور کون تھا جو یہ کام کرنے کا حقدار ہوتا۔ گورنر نشتر نے جو تقریر کی اس کا ایک فارسی شعر مجھے آج تک یاد ہے جس کا مفہوم ہے کہ تم دروازے کے کواڑوں کی چرچر کی آواز کو دروازہ بند ہونے کی آواز سمجھتے ہو جب کہ میں اسے دروازہ کھلنے کی آواز سمجھتا ہوں۔

تفاوت است میان شنیدن من و تُو
کہ تو بستن در و من فتح باب می شنوم

اب شعر ایسے موقع پر کسی سردار نشتر کو ہی یاد آ سکتا تھا جو گورنر ہائوس میں بھی ایک مسافر بن کر رہتا اور اس کا بیٹا جمیل نشتر ہر روز گورنر ہائوس سے سنٹرل ماڈل اسکول تک سائیکل پر جاتا تھا۔ یہ محمد علی جناح کے پیروکار تھے۔ اس کی طرح کی دیانت و امانت کے زندہ پیکر۔ ان دنوں کے پاکستان کی ایسی یادیں اگر آج دل و دماغ میں تازہ ہوں اور وہ چیخیں چلائیں نہیں تو کیا کریں۔

سردار عبدالرب نشتر جب تک لاہور میں رہے وہ ہر جمعہ کسی نہ کسی مسجد میں ادا کرتے تھے۔ ایک بار وہ نیلا گنبد میں جمعہ ادا کرنے آئے جہاں مفتی محمد حسن بانی جامعہ اشرفیہ خطبہ دے رہے تھے نمازیوں میں میں بھی موجود تھا۔ گورنر کی آمد پر صفوں میں ہلچل پیدا ہوئی تو مفتی صاحب نے نمازیوں کو ڈانٹا کہ 'من بہ تو مشغول تو با عمر و زید' یہ جملہ شیخ سعدی کا ایک عاشقانہ جملہ ہے جو وہ دمشق کی ایک درسگاہ میں کسی خوش رو لڑکے پر مائل ہو گئے اور اس سے بات کرنی چاہی لیکن وہ اپنے سبق میں مصروف رہا۔ شیخ نے شکایت کی کہ میں تمہارے اوپر فدا ہوں اور تو عمر و زید کی گردان میں پڑا ہوا ہے۔

یہ گردان عربی نحو کا ایک سبق ہے۔ گورنر نشتر اپنی گورنری کے زمانے میں ہمارے شہر سرگودھا بھی گئے جہاں ایک تقریب میں جس میں میرے انکل خان بہادر ملک نور محمد بھی موجود تھے نشتر صاحب نے کہا کہ جس طرح میں آج آپ کا گورنر ہوں اسی طرح علی گڑھ میں خان بہادر صاحب ہمارے گورنر ہوا کرتے تھے۔ بعد میں میرے بزرگ نے نشتر صاحب سے کہا کہ آپ نے مجھے تو پریشان ہی کر دیا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب لوگ ایسی تعریفیں سن کر گھبرا جاتے تھے۔ آج اگر کوئی کسی کی تعریف نہ کرے تو وہ یہ فرض خود ہی ادا کرنا شروع کر دیتا ہے۔ ہمارے کئی ایک کالم نگار ایسی تعریف کے بہت لالچی ہوتے ہیں ان کی در مدح خود قسم کی تحریر پڑھ کر میں اپنے گھر بیٹھا شرمندہ ہوتا رہتا ہوں۔

ہم لوگوں نے فیض احمد فیض ایسا استاد دیکھا جس نے میں کا لفظ اپنی لغت سے حذف کر دیا تھا اور ہم کا لفظ استعمال کرتے تھے کیونکہ ان کو 'میں' کے لفظ سے تکبر کا شبہ ہوتا تھا۔ ایک بار میرے اخبار کے ایک مضمون میں مالک و ایڈیٹر کا نام آ گیا اس مضمون کے شروع میں ایڈیٹر نے یہ نوٹ شایع کرایا کہ ایڈیٹر کا نام دینا ہماری روایت نہیں لیکن ایک تاریخی مجبوری کے تحت یہ نام چھاپا جا رہا ہے۔ یہ مضمون مرحوم عبدالسلام خورشید کا تھا جو پنجاب مسلم اسٹوڈنٹس ایسوسی ایشن کی تاریخ پر لکھا گیا تھا۔ میں یہاں احساس کمتری کے ایسے ایسے شہکار دیکھتا ہوں کہ سخت تعجب ہوتا ہے۔ آپ جیسے بھی ہیں آپ کی تحریر اس کی گواہی دے رہی ہے اس گواہی میں اپنی گواہی شامل کرنے کی کیا ضرورت ہے۔

یہ کام قارئین پر چھوڑ دیں۔ بہر کیف بدلتے ہوئے اس زمانے میں سب جائز ہے اور جو وقت کی ضرورت اور آواز ہے وہی درست ہے۔ میں نے بچپن میں ہیر وارث شاہ کا ایک نسخہ دیکھا تھا جس میں کہیں کہیں چند اشعار کو اس عنوان کے تحت درج کیا جاتا تھا 'شاعر در مدح خود می گوئد' کہ شاعر اب اپنی تعریف میں کہتا ہے۔ بات خوبصورت پاکستان کے قابل رشک دور کی خوبصورت یادوں سے شروع ہوئی تھی نہ جانے کہاں نکل گئی آج کے پاکستان کی طرح۔

مقبول خبریں