سادگی اور سادہ لوحی میں فرق

شہلا اعجاز  جمعـء 14 ستمبر 2018

اس کا نام فنگ لنی کوئی، درج تھا والد کا نام ہشی پنگ سوئی اور قیام کے ملک میں چائنا، مین لینڈ لکھا تھا، تاریخ اجرا چوبیس اپریل دو ہزار سترہ اور چوبیس اپریل دو ہزار ستائیس تک اس کی میعاد ختم ہوجانی تھی۔ کارڈ کے ماتھے پر پاکستان کا نام ہرے رنگ سے لکھا چمک رہا تھا ۔ یہ ایک شناختی کارڈ ہے جسے حکومت پاکستان نے جاری کیا ہے جس میں شناختی نمبر بھی درج ہے یہ ایک چینی شخص کے نام پر ہے جس میں اس کی تصویر بھی چسپاں ہے ۔ شاید سوشل میڈیا پر آپ نے بھی دیکھا ہو۔

ہمیں اپنے ملک سے بہت پیار ہے اور اس کی حفاظت کرنا خیال رکھنا، ہم سب کا قومی فریضہ ہی نہیں بلکہ عبادت بھی ہے، سبز ہلالی پرچم تلے ہم نے بہت سے کامیابیاں حاصل کیں ۔ اس کے ساتھ تلخ یادیں بھی جڑی ہیں لیکن خیال، حفاظت اور احترام اسے ہم اپنے وجود سے الگ نہیں کرسکتے۔ کچھ عرصے سے سوشل میڈیا پر چین سے متعلق خبریں ملتی رہی ہیں یہ درست ہے کہ چین سے ہماری دوستی پکی ہے لیکن جیسے کہ ہمارے ساتھ ہوتا آیا ہے کہ ہم ہر طاقت کو اس کے معیار سے بڑھ کر مقام دیتے ہیں ،اس دوستی کے معاملے میں بھی ایسا ہی ہوا ہے ۔

چند ماہ قبل خانیوال میں چینی انجینئرز کے ناخوشگوار واقعہ سے ایک عام تاثر ابھرا کہ ہماری بے غرض دوستی کے بدلے کیا ملتا ہے ہم کھلے دل سے انھیں اپنے ملک میں جگہ دیتے ہیں، گوادر کے پورٹ کے حوالے سے پاکستان نے چینی ماہرین کو اہمیت دی ان کی آبادی سے پورا حصہ آباد کیا گیا لیکن پھر بھی ہمارے مقابلے میں سرمایہ کاری میں بھارت کو اہمیت دی جاتی ہے اور ہم خالی خولی دوستی پر ہی پھول جاتے ہیں۔ دوستی کی بنیاد اگر برابری کی بنیاد پر ہو تو احساس محرومی نہیں رہتا لیکن اگر اس بنیاد میں ہمارا فائدہ زیرہ اور دوسروں کا پوری دیگ کی بریانی ہو تو ٹینشن میں آنا بلا سبب نہیں ہے۔

ہم پاک چائنا کوریڈور کی باتیں کرتے اس امر کی جانب توجہ نہیں دیتے کہ جس کھلے پن کا مظاہرہ کرتے ہم بہت اہم ایشوز کو نظر انداز کرتے جن نوازشات کو لٹارہے ہیں وہ ہمارے ملک اور قوم کی امانت ہے۔ دوستی، رشتے ناتے یقینا بہت اہم ہیں لیکن جس طرح پانچوں انگلیاں برابر نہیں ہوتیں، اسی طرح دوسری جانب سے بھی کچھ اسی طرح کا سلوک روا رکھا گیا ہے مثلاً خانیوال میں ہونے والا واقعہ ہے، لیکن ذرا سوچیے کہ لوگوں کے ذہنوں میں چین کی اس محبت نوازی، دوستی اور ایثارکہانی کے تناظر میں ایسٹ انڈیا کمپنی کی کہانی کیوں ابھرتی ہے۔

لوگ کیوں یہ سوچ کر بے چین ہوجاتے ہیں کہ صدیوں پہلے اسی طرح سے تجارت کے نام پر تجارتی کوٹھیاں بنانے کی استدعا کی گئی تھی اور بات گرم مصالحوں اور چائے کی برآمدات سے گولہ بارود اور خونخوار فوجیوں کی درآمد تک پہنچ گئی تھی ۔سلطنت برطانیہ کی راج دہانی نے غیر منقسم ہندوستان میں تقسیم کرو اور حکومت کرو کے فارمولے کو اتنی خوبی سے نبھایا کہ آج تک اس نفرت کے بارود کی بدبو بھارت میں مذہبی شدت پسندی کو اس قدر ہوا دیتی ہے کہ مظلوم مسلمانوں کا خون پانی کی مانند بہتا ہے ۔ نفرت کی آگ کو ٹھنڈا کرنا اگر اسی قدر آسان ہوتا تو خود ہمارے اپنے ملک میں ایک فرقے کی شر انگیزیاں مختلف شکلوں میں سامنے آتی رہتی ہیں۔

ہماری کئی نسلوں نے نفرت کی اس شدت کو برداشت کیا ہے اور آج بھی کسی نہ کسی طرح یہ ہمارے درمیان موجود ہے۔ عظیم مغل حکمرانوں نے جس انداز سے قدیم ادوار میں ہندوستان میں ترقی کے سفر کو بلا کسی تفریق کے جاری رکھا کہ جس کی چمک چاندی نے پورے ممالک کے (ایلچی حکمرانوںکی آنکھیں خیرہ کردی تھیں کیا اس بلا تفریق کے خانے کو اب بھی بھارت اور اس سے منسلک ریاستوں نے برقرار رکھا ہے، برما جیسے دور افتادہ ملک جسے ترقی کے سفر کے اعتبار سے تو نہیں البتہ مظلوم روہنگیا مسلمانوں کے قتل عام اور مظلومیت کی داستان نے دنیا بھر میں سراسیمگی پھیلادی ہے، سب کچھ بھول کر مسلمان تختہ مشق ہیں کو دل سے لگارہا ہے۔

ہم پاکستانی بہت دل والے ہیں، ہمارے دریا، پہاڑ، معدنیات، کنوئیں اور سمندر ہمارے دلوں کی مانند وسیع ہیں، ہمارے یہاں قیمتی پتھر، معدنیات، لوہا، کوئلہ اور سونے کی کانیں بھی خدا کا شکر ہے بہت وسیع ہیں لیکن ہمیں یہ یاد رکھنا چاہا کہ یہ سب ہمارے ملک و قوم کا سرمایہ اور امانت ہیں۔

اسے بلا دریغ لٹانا، وسائل کو برباد کرنا اور اسٹریٹجک کا نام دے کر دوستی کے خوبصورت ریپنگ پیپر میں کم داموں میں مہنگی چیز کو فروخت کرنا حماقت ہے۔ اپنے ملک میں ماہرین و انجینئرز کے نام پر بدیسی کو جگہ دینا کیا عقل مندی ہے۔ ہم تو اتنے معصوم ہیں کہ اس قدر غربت میں اپنا کوڑا بھی خود نہیں سمیٹ سکتے اور اس کے لیے ہمیں چینی کمپنی کی مدد کی ضرورت پڑھی اور کیا کوڑا کرکٹ اس کمپنی نے کسی جادو گر کی مانند جادوئی چھڑی گھماکر غائب کردیا، خدارا آنکھیں کھول کر دیکھیے کہ ہم دوسروں کو اپنا آپ دے کر بھی کیا لے رہے ہیں۔

تبدیلی آگئی ہے۔ ہم اس نئی حکومت سے یہی توقع رکھتے ہیں کہ ترقی کے لیے کہ پوری قوم آپ کی جانب پر اُمید نظروں سے دیکھ رہی ہے لیکن ترقی کے اس سفر کو آنکھیں بند کرکے نہیں بلکہ آنکھیں کھول کر پورے عقل و شعور سے طے کر رہے کہ آنکھیں میچ لینے سے حالات بدل نہیں جاتے۔ لفظوں کی جنگ اور تیزی سے لوہے کو کاٹا نہیں جاسکتا یہ تو صرف دلوں میں نفرتوں کو جگہ دیتے ہیں لہٰذا نفرتوں کے کانٹوں سے بچتے خود کو یہ سمجھاتے اور دوسروں کو یہ بتاتے آگے بڑھیے کہ ہم پاکستانی یقینا بہت اچھے دوست اور وسیع دل کے مالک ہیں لیکن ہم احمق نہیں ہیں ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔