مسجد بوکن خان، پرانے لاہور کی ایک اور تاریخی لیکن بوسیدہ مسجد

طلحہ شفیق  جمعـء 14 ستمبر 2018
کہنیا لال نے مسجد کا جو احوال تحریر کیا ہے، اب مسجد ویسی نہیں؛ نہ کوئی باغ نہ کوئی کنواں، صرف محرابیں باقی رہ گئی ہیں۔ (تصاویر بشکریہ بلاگر)

کہنیا لال نے مسجد کا جو احوال تحریر کیا ہے، اب مسجد ویسی نہیں؛ نہ کوئی باغ نہ کوئی کنواں، صرف محرابیں باقی رہ گئی ہیں۔ (تصاویر بشکریہ بلاگر)

جامع مسجد بوکن خان اندرون موچی دروازہ، ڈھل محلہ میں واقع ہے۔ پیر ڈھل کا مزار مسجد بوکن خان سے چند قدم دوری پر ہے۔ بوکن خان، رنجیت سنگھ کے اصطبل کا نگران تھا۔ کہنیا لال کا بیان ہے ’’یہ عالیشان مسجد 1257ھ (1841ء) میں مسمی بوکن خان نے تعمیر کی۔ اس سے پہلے بھی اس جگہ ایک وسیع مسجد بنی ہوئی زمانہ سلف کی تھی۔ اسے گرا کر بوکن خان نے ازسرنو مسجد تعمیر کی… مسجد کے دروازے سے داخل ہوں تو ایک وسیع میدان آتا ہے جو تین حصوں میں منقسم ہے۔ ایک حصے میں باغیچہ لگا ہوا ہے اور اس میں طرح طرح کے درخت بڑ وغیرہ کے لگے ہیں۔ دوسرے حصے جنوبی میں درویشوں کے رہنے کےلیے چند حجرے بنے ہوئے ہیں۔ تیسرے حصے میں چاہ و غسل خانہ و سقاوہ ہے۔ مسجد کا صحن پختہ فرش کا ہے اور خاص مسجد کی تین محرابیں عالیشان بنی ہیں۔ مسجد کی عمارت سب پختہ چونہ گچ منقش ہے۔ سقف چوبی رنگین لائق تعریف بنی ہوئی ہے۔ جب تک بانی زندہ رہا، مسجد میں کمال رونق رہی۔‘‘

یعنی 1841 میں بوکن خان نے پرانی مسجد شہید کرکے یہاں نئے سرے سے مسجد تعمیر کروائی۔ مسجد کے داخلی دروازے پر یہ قطعہ درج ہے۔

… اللہ محمد …
چوں زبکن خان والا منزلت
شد بنا این مسجدے ذی الاحترام
بہر تاریخش زہاتف شد ندا
کعبتہ ثانے بنا شد ایں مقام

ترجمہ: ’’جب عالی مقام بوکن خان نے اس مقدس مسجد کو تعمیر کرایا تو ایک غیبی آواز نے اس کی تاریخ بنیاد کے بارے میں کہا: اس جگہ کعبہٴ ثانی تعمیر ہوا ہے۔‘‘

نقوش ’’لاہور نمبر‘‘ میں قطعہ کے نیچے تاریخ ١۲۲٥٧ھ درج ہے جو یقیناً غلط ہے۔ درست تاریخ ١۲٥٧ھ (1257ھ) ہے۔ یہ قطعہ حضرت فرید الدین شیرازی لاہوری (پیدائش: 1786ء، متوفی 1867ء) کا تحریر کردہ ہے۔

بادشاہی مسجد کو سکھوں سے واگزار کرانے اور انگریز دور میں لاہور میں مسیحی مشنریوں کے بڑھتے ہوئے اثر و نفوذ کی روک تھام کا سہرا بھی بوکن خان ہی کے سر ہے۔ بقول آپ کے سجادہ نشین سید افتخار علی شاہ، آپ نے لاہور کے اہل علم حضرات کو مسجد بوکن خان میں بلا کر اس بات پر راضی کیا کہ مسلمانوں کو انگریزی سیکھنی چاہیے۔ بعد میں آپ نے مسجد بوکن خان میں بھی ایک اسلامی اسکول قائم کیا جہاں انگریزی کی تعلیم بھی دی جاتی تھی۔ 24 ستمبر 1884 کو اہلیان لاہور نے اسی مسجد کے صحن میں جمع ہو کر انجمن حمایت اسلام کا باقاعدہ آغاز کیا اور مل کر انجمن کےلیے چندہ بھی جمع کیا۔

میں جب خاصی مشکل اور تلاش کے بعد مسجد بوکن خان پہنچا تو دیکھا کہ دروازہ بند ہے۔ معلوم ہوا کہ جماعت کے وقت یعنی تقریباً ایک بجے دروازہ کھلے گا۔ گھڑی نے بتایا کہ ابھی تو صرف گیارہ ہی بجے ہیں۔ خیر، مسجد کے باہر ہی بیٹھ گیا۔ آتے جاتے لوگ حیرت سے دیکھتے رہے۔ ایک تو بج گیا مگر مسجد کا دروازہ پھر بھی نہ کھلا۔ اب بقول مستنصر حسین تارڑ صاحب ’’اس مسجد کا کیسا جمال ہوگا کہ اسے کعبہ ثانی کہا گیا‘‘ تو سوچا کہ کعبہ ثانی کی زیارت کیے بغیر جانا گناہ ہے۔ پس صبر کیے وہیں بیٹھے رہے۔

آخرکار ایک فرشتہ نما صاحب نمودار ہوئے کہ بقول حسرت ’’جیسے نعمت کوئی، بے وہم و گماں۔‘‘ انہیں نماز ادا کرنی تھی اور انہوں نے نہ جانے کہاں سے چابیاں حاصل کرکے مسجد کا دوسرا دروازہ کھول دیا۔ مسجد میں داخل ہوئے تو بہت سے لوگ نماز کی ادائیگی کےلیے آگئے۔ سنا ہے کہ مسجد کے پیش امام صاحب اکثر غائب ہی ہوتے ہیں۔

کہنیا لال نے مسجد کا جو احوال تحریر کیا ہے، اب مسجد ویسی نہیں۔ نہ کوئی باغ تھا نہ کوئی کنواں، البتہ خاص مسجد کی تین عالیشان محرابیں قائم ہیں۔ مسجد کی عمارت تو سادہ ہے مگر ہے دلکش۔

مگر مسجد کی حالت کچھ اچھی نہیں۔ ڈھل محلے کے گرد علاقہ تجارتی مرکز بن چکا ہے۔ مسجد کے باہر ایک دکان بھی ہے۔ صحن میں پرانے دروازے کباڑ کی طرح پڑے تھے۔ مسجد کی عمارت چونکہ قدیم ہے اس لیے قائم ہے لیکن مسجد کے ساتھ جیسا سلوک ہو رہا ہے، اسے دیکھ کر خدشہ ہے کہ جلد ہی یہاں ایک خالی میدان ہوگا اور قدیم عمارت کی فقط دھول باقی رہ جائے گی۔

مسجد بوکن خان کے قریب موجود ’’پتھراں والی حویلی‘‘ اور چھجو بھگت کا گھر پہلے ہی ملیامیٹ ہوچکے ہیں۔ نئی حکومت سے التجا ہے کہ لاہور کی تاریخی عمارتوں کی بحالی کا کام جلد از جلد شروع کروایا جائے ورنہ جس تیزی سے لاہور میں نئی عمارات تعمیر ہورہی ہیں، آنے والی نسل کو پرانا لاہور صرف کتابوں میں ملے گا۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔