پشاور میں اسلحہ سازی کا صنعتی زون بنانے کیلیے اراضی لے لی گئی

این این آئی  پير 17 ستمبر 2018
منصوبہ 2 سال کے اندر مکمل ہوگا ،دنیا میں اس کی بہترمارکیٹنگ کوقانونی کور دینے کا کام جاری
 (فوٹو: فائل)

منصوبہ 2 سال کے اندر مکمل ہوگا ،دنیا میں اس کی بہترمارکیٹنگ کوقانونی کور دینے کا کام جاری (فوٹو: فائل)

پشاور:  پشاور اور درہ آدم خیل میں تیار ہونے والے اسلحے کے کاروبار اور دنیا میں اس کی بہتر مارکیٹنگ کو قانونی کور دینے کے منصوبے پرکام تیزی سے جاری ہے اور اس سلسلے میں وفاقی حکومت کے زیرانتظام اسلحہ سازی کے صنعتی زون کے قیام کے لیے پشاور میں اراضی بھی حاصل کرلی گئی۔

میڈیا رپورٹ کے مطابق پشاور اور درہ آدم خیل میں لگ بھگ 300 کے قریب اسلحہ ساز فیکٹریاں کام کررہی ہیں جس سے 9 ہزار افراد کا روزگار وابستہ ہے۔ یہ صنعت تقریبا 150 سال پرانی ہے یہاں ماہر کاریگر ہر قسم کا اسلحہ بنانے کی مہارت رکھتے ہیں جو نہ صرف ملکی بلکہ غیر ملکی سطح پر بھی مانگ رکھتا ہے۔

امریکا، لندن، آسٹریلیا اور خلیجی ممالک اس اسلحہ کے بڑے خریدار ہیں تاہم برآمدی عمل پیچیدا ہونے کے باعث ایکسپورٹرز یہاں کا رخ کم ہی کرتے ہیں۔آرمز زون بننے کے بعد یہ تمام فیکٹریاں ایک ہی جگہ منتقل ہوں گی اور اسلحہ خریدنے والے ممالک کو بہت سی آسانیاں ایک چھت تلے فراہم کی جاسکیں گی،قدیم طرز کی بندوقیں، شکار اور کھیل کے لیے استعمال ہونے والی رائفلز اور پستولیں، سب یہاں بنتی ہیں۔وفاقی حکومت اس مہارت سے بننے والے اسلحے کو دنیا بھر میں پہنچانے کے لیے پشاور کے نواحی علاقے متنی، درہ آدم خیل اور سابقہ خیبر ایجنسی اور موجودہ ضلع خیبر کے سنگم پر جدید طرز کا صنعتی زون بنارہی ہے،اسلحہ ساز صنعتی زون میں 200 یونٹس بنیں گے۔

جس کی لاگت 3 سے 4 ارب روپے ہے۔150 ایکڑ رقبے پر پھیلے منصوبے کے لیے فنڈز آئندہ ماہ تک ملنے کی امید ہے جس کے بعد یہ منصوبہ 2 سال کے اندر مکمل ہوگا جس کے بعد اسی زون میں اسلحہ کی خرید وفروخت بھی ہوگی۔وفاق کے زیر انتظام شکار اور کھیلوں کے معاملات کی نگرانی کرنے والے ادارے پاکستان ہنٹنگ اینڈ سپورٹنگ آرمز ڈیولپمنٹ کے اعداد وشمار کے مطابق پاکستان میں مختلف ممالک سے سالانہ 10 سے 40 ارب روپے کا اسلحہ درآمد کیا جاتا ہے تاہم مجوزہ انڈسٹریل اسٹیٹ میں تیار ہونے والے اسلحے کا معیار بہتر ہوگا جو ملک کے اندر اسلحے کی تمام ضروریات کو پورا کرسکے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔