مکان نہیں مکیں بدلیں
میرا مطلب ہے مکانوں میں رہنے والے مکینوں کا کردار بدلیں کیونکہ سنگ و خشت کے مکان کوئی تبدیلی نہیں لا سکتے۔
میرا مطلب ہے مکانوں میں رہنے والے مکینوں کا کردار بدلیں کیونکہ سنگ و خشت کے مکان کوئی تبدیلی نہیں لا سکتے۔ مکانوں اور مکینوں کے بارے میں ہماری تاریخ گل و گلزار بنی ہوئی ہے۔ لاتعداد پھول مہک رہے ہیں اور بے شمار گوشے منور ہیں۔ دنیا اب تک حیرت زدہ ہے کہ کیا یہ لوگ بھی دوسرے لوگوں کی طرح کی کوئی مخلوق تھے یا قدرت نے تمام انسانوں کے لیے کوئی نمونہ بنا کر بھجوائے تھے کہ خدا کی مخلوق میں کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں۔ میرے ذہن میں ایسے لاتعداد لوگ اور ان کی مثالیں ہیں لیکن ڈر لگتا ہے کہ ہمارے وزیر اعظم میاں نواز شریف ان کا ذکر سن کر کہیں اختلاج قلب کے شکار نہ ہو جائیں۔ اتفاق کی بات ہے کہ دو ایک روز پہلے میں نے ایک گورنر کا ذکر کیا جس کا حال چال دیکھنے کے لیے مدینہ سے خلیفہ آیا تھا۔
شام' لبنان' فلسطین اور اردن جیسے سرسبز و شاداب اور دولت مند خطے کا یہ گورنر خلیفہ المسلمین کے خیال میں یقیناً بہت ہی زیادہ خوشحالی کی زندگی بسر کر رہا ہو گا۔ وہ دمشق پہنچے تو دنیا کے اس قدیم ترین مسلسل آباد شہر میں بہار کے دن تھے، غرطہ دمشق یعنی دمشق کے گرد باغ بہار کے عجیب و غریب رنگ دکھا رہا تھا۔ سوکھے خشک ریتلے صحراؤں کے بدو یہ سب دیکھ کر نیم بے ہوشی کی کیفیت میں آ جاتے تھے اور اگر کوئی بدو اس پورے خطے کا بادشاہ ہو گا تو اس کا کیا حال ہو گا۔ عمر فاروق رضی اللہ عنہ اپنے اس پرانے دوست کے ہاں پہنچے تو دمشق کی سیر کی خواہش کی۔ گھومتے پھرتے اور حیران و پریشان ہوتے اس شہر میں شام ہو گئی تو خلیفہ نے کہا کہ اب تمہارے گھر چلتے ہیں۔
ایک دو دن پہلے ایک کالم میں یہ سب لکھ چکا ہوں۔ گورنر کی جھونپڑی دیکھ کر حضرت عمرؓ رونے لگے تو ان کے مہمان نے عرض کیا کہ میں اس لیے تو آپ کو یہاں لانا نہیں چاہتا تھا۔ اس گورنر ہاؤس اور اس گورنر کا حال ملاحظہ کیجیے اور پھر دیکھیے کہ ہم اسلامی جمہوریہ پاکستان کے کسی صوبے کے گورنر کہاں رہتے ہیں۔ اب وزیر اعظم ہاؤس کا ایک نیا نمونہ بنایا جا رہا ہے۔ ایک سرکاری عمارت کو وسیع کیا جا رہا ہے جس پر زر کثیر صرف کرنے کے بعد اس پر ایک نئی تختی لگا دی جائے گی جو اس نئے ایوان وزیر اعظم کا پتہ دے گی یعنی ہمارے حکمران سنگ و خشت سے نئے جہاں پیدا کرنے لگے ہیں۔
میں یہ جرأت تو نہیں کر سکتا کہ لاڈ پیار اور ناز و ادا میں پلے ہوئے رئیس زادہ میاں محمد نواز شریف سے کسی عوامی مکان کو وزیر اعظم ہاؤس بنانے کی تجویز دے سکوں اور نکو بن جاؤں لیکن دل ناداں یہی چاہتا ہے کہ ہمارا کوئی حکمران ایسا ہو کہ بیمار گھروں سے باہر اس کی دعا کے منتظر ہوں اور مائیں بچوں کو اٹھائے اس کے سائے کی برکت کی تلاش میں ہوں۔ ایسے حکمران کا کسی امریکا کا کوئی خفیہ حملہ کیا بگاڑ سکتا ہے اور اگر اسے شیخ چلی والی بات نہ سمجھیں تو امریکا ایسے حکمران کے ملک پر حملہ کرنے کی حماقت ہرگز نہیں کر سکتا کہ اسے طاقت اور دانش دونوں حاصل ہیں۔
جہاں تک نئے وزیر اعظم ہاؤس کی تزئین و آرائش کا تعلق ہے تو ہمارے فنکار یہ کام بہت خوبی کے ساتھ کر سکتے ہیں لیکن ہمارے حکمرانوں نے سیکیورٹی کا ذکر بھی شروع کر دیا ہے۔ ان دنوں طالبان نے ہمارے لیے سیکیورٹی کا مسئلہ بھی کھڑا کر دیا ہے جو خارجہ پالیسی کی تبدیلی سے ختم ہو سکتا ہے۔ بہرحال آج کے حکمران سخت خوفزدہ رہتے ہیں۔ ایک تو حکومت کا سیکیورٹی کا ادارہ ہے جو بیرونی خطروں کو خوب بڑھا چڑھا کر پیش کرتا ہے بلکہ ان میں اضافہ بھی کر دیتا ہے جیسے اس نے پہلے وقتوں میں میاں صاحب کے گھر کے راستے میں بم مار دیا تھا اور سیکیورٹی خود بخود بڑھ گئی تھی۔ میاں صاحب ہوں یا کوئی اور وزیر اعظم اس کی سیکیورٹی تو ایک قومی مسئلہ رہے گی ہی اور اسے حل کرنے کی کوششیں بھی جاری رہیں گی کیونکہ ہمارے حکمرانوں کی زندگی و موت کا اختیار آسمان سے اتر کر زمین پر آ گیا ہے۔
کوئی روشن خیال خوش ہو یا ناراض میں تو پرانی باتیں جو ایک حقیقت تھیں عرض کرتا ہی رہوں گا۔ مدینہ میں ایران کا ایک ہنرمند کسی کے ہاں کام کرتا تھا مگر زیادہ اجرت کا طلب گار تھا۔ اس نے خلیفہ کو درخواست بھی دے رکھی تھی جس کا فیصلہ اس کی مرضی سے فوراً نہیں ہوا۔ اس ایرانی کا نام فیروز تھا۔ ایک دن مسجد میں اسے دیکھ کر حضرت عمرؓ کی بصیرت نے محسوس کیا کہ اس کی آنکھوں میں خون اترا ہوا ہے۔ انھوں نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ یہ شخص مجھے قتل کر دے گا۔ اس پر ان سے کہا گیا کہ اسے گرفتار کر لیتے ہیں لیکن عدل و انصاف کے منصب پر فائز عمرؓ نے جواب دیا مگر اس نے ابھی تک کچھ کیا تو نہیں کہ اسے گرفتار کر لیں چنانچہ سیکیورٹی کے اس تصور نے ان کی جان لے لی۔
ان کے بعد ہم نے عثمانؓ و علیؓ جیسے لوگوں کو اسی سیکیورٹی کی نذر کر دیا مگر ان حکمرانوں نے عوام سے دور رہنے اور عوام کو اپنے درمیان سیکیورٹی کا پردہ حائل کرنے سے انکار کر دیا۔ خود ہم نے پاکستان میں لیاقت علی خان جیسا رہنما اس سیکیورٹی کی نذر کر دیا جس سے محرومی نے ہماری سیاسی حکمرانی کی تاریخ ہی بدل دی۔ میں ان لوگوں کی باتیں کر رہا ہوں جو اللہ کی ذات پر کامل یقین رکھتے تھے اور اللہ تعالیٰ کے فرمان کو تسلیم کرتے تھے کہ زندگی و موت اس کے اختیار میں ہے۔ بہت سے پاکستانیوں کی طرح میں بھی ایک کمزور ایمان والا شخص ہوں لیکن جب واضح الفاظ میں اس کا کوئی حکم سنتا ہوں مثلاً زندگی' موت' روزی اور عزت سب اللہ کے اختیار میں ہے تو مجبور ہو جاتا ہوں کہ یہاں رہوں یا نہ رہوں اور کسی کاروبار اور سیکیورٹی وغیرہ میں اپنی عافیت تلاش کروں۔ ان دنوں بات ادھر سے ادھر نکل جاتی ہے جب تک حکومت قائم نہیں ہوتی ایسا ہی ہوتا رہے گا۔ فی الحال گزارش اتنی ہے کہ مکان نہیں مکین بدلیں۔ مکانوں کا حسن سنگ و خشت سے نہیں' ان میں مقیم انسانوں کے کردار سے ہوتا ہے۔