مہنگی گیس صارفین کے لیے دھچکا

گھریلو صارفین معاشی اعداد وشمار کے الٹ پھیر میں کبھی نہیں پڑتے، انھیں بد قسمتی سے گیس بم کا تیرنیم کش لگا ہے۔


Editorial September 19, 2018
گھریلو صارفین معاشی اعداد وشمار کے الٹ پھیر میں کبھی نہیں پڑتے، انھیں بد قسمتی سے گیس بم کا تیرنیم کش لگا ہے۔ فوٹو:فائل

حکومتی وزراء کی متواتر تردیدوں اور وضاحتوں کے شور میں عوام پر گیس کی قیمتوں میں دس فیصد سے 143 فیصد تک اضافہ کا مہنگائی بم گرانا ریلیف کے منتظر عوام کے لیے شدید دھچکا ہے جس سے عوام پر مہنگائی کا کثیر جہتی بوجھ بڑھ جانے کے ساتھ ہی اشیائے ضرورت عام صارفین کی قوت خرید سے باہر ہوجائیں گی جب کہ ایل پی جی کی درآمد پر عائد تمام ٹیکس ختم کر کے صرف10 فیصد جی ایس ٹی عائد کرنیکی منظوری دیدی گئی ہے۔

سندھ اور بلوچستان کے لیے سی این جی مہنگی کردی گئی ہے۔ کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی (ای سی سی)کا اجلاس پیر کو وزیر خزانہ اسد عمر کی زیر صدارت منعقد ہوا، اجلاس میں تین نکاتی ایجنڈے کا جائزہ لیا گیا ۔

حقیقت یہ ہے کہ گھریلو صارفین معاشی اعداد وشمار کے الٹ پھیر میں کبھی نہیں پڑتے، انھیں بد قسمتی سے گیس بم کا تیرنیم کش لگا ہے جو صارفین کے لیے صدمۂ جانکاہ ہے۔اگرچہ وفاقی وزیر خزانہ اسد عمر کا کہنا ہے کہ گیس کی قیمتوں میں اضافہ کا زیادہ بوجھ امیر لوگوں پر منتقل کیا گیا ہے اور غریب لوگوں کے لیے گیس کی قیمتوں میں کم اضافہ کیا گیا ہے تاہم ملکی معیشت کی بحالی کے لیے جتنے سخت اورجرات مندانہ فیصلوں کی ضرورت ہے اس میں ضرورت عملیت پسندی اور ٹھوس اقتصادی حقیقت پسندی کی ہے جو عوام میں مہنگائی سے نجات دلانے کی امید پیدا کرے ، ٹریکل ڈائون اقدامات کے عبوری ثمرات وزیراعظم کی معاشی ٹیم کی معاشی حکمت عملی کا لازمی حصہ ہوں، قوم کو نظر آئے کہ نئے پاکستان کا خواب شرمندہ تعبیر ہوگا۔

تاہم یہ خوش آیند اطلاع ہے کہ برطانیہ کے درمیان قانون اور احتساب سے متعلق معاہدہ طے پاگیا ہے جس کے تحت لوٹی گئی رقم واپسی لائی جائے گی جب کہ برطانوی وزیرداخلہ ساجد جاوید نے کہا ہے کہ ہم بدعنوانی کو بہت سنجیدگی سے لیتے ہیں چاہے کہیں بھی ہو، ہم اس بارے میں پاکستان حکومت کے ساتھ مل کر کام کرنے اور اس کے خلاف کریک ڈاؤن کے لیے تیار ہیں۔

یہ مثبت پیش پیش رفت ہے تاہم اجلاس کے بعد پریس کانفرنس میں گفتگو کرتے ہوئے وزیر پٹرولیم غلام سرور خان نے کہا کہ 2013ء میں گیس کمپنیاں منافع میں چل رہی تھیں لیکن 2018 ء میں گیس کمپنیوں کو 152 ارب روپے خسارے کا سامنا ہے، جس کے باعث قیمتوں میں مجموعی طور پر 20 سے 25 فیصد اضافہ کیا جا رہا ہے۔

ان کا استدلال بھی اپوزیشن جماعتوں اور عوامی حلقوں کے لیے باعث حیرت بنا ہے کہ بجلی کی قیمت میں اضافہ نہیں کیا جا رہا، دریں اثنا قطر سے ایل این جی درآمد کرنے کے ن لیگ حکومت کے معاہدہ پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے واضح کیا گیا کہ نیب اور ایف آئی اے اس کی تحقیقات کر رہے ہیں۔

مسلم لیگ (ن) کے صدر و قائدِ حزب اختلاف شہباز شریف نے گیس کی قیمتوں میں حکومتی اضافہ واپس لینے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ریلیف کے نام پر ووٹ لے کر آنے والی حکومت نے غریبوں، مزدوروں، محنت کشوں ، کمزور و متوسط طبقات سے ریلیف چھین لیا ہے جو عوام سے کھلا دھوکا ہے، ممبر اکنامک ایڈوائزری کونسل ڈاکٹر عابد سلہری نے کہا کہ آنے والے بجٹ کو 20مئی2018کے تناظر میں دیکھنا پڑیگا، انھوں نے کہا کہ میڈیا میں جو چیزیں گردش کرنا شروع ہوگئی ہیں وہ درست نہیں ہیں، ایف بی آر کے سابق چیئرمین عبداللہ یوسف نے کہا کہ اصل ایشو یہ ہے کہ ابھی تک حکومتی ٹیکس کی بیس بہت محدود ہے۔

سابق وزیر خزانہ ڈاکٹر سلمان شاہ نے معاشی شعبہ میں فیصلہ کا ابہام ختم کرنے کی صائب بات کی اور کہا کہ ہم آئی ایم ایف کے پاس جا رہے ہیں یا نہیں حکومت اس کا جلد اعلان کرے۔کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی نے سوئی گیس، سی این جی اور ایل پی جی کے حوالہ سے جن فیصلوں کی منظوری دی ہے یہ اس بات کی علامت ہے کہ ابھی مزید سخت اور غیر متوقع معاشی فیصلے ہونے جارہے ہیں، بلاشبہ ملکی معیشت دگرگوں حالت میں ہے ، حکومت کے لیے معاشی چیلنجز اعصاب شکن ہیں۔

عوام کا المیہ یہ ہے کہ وہ ہمیشہ معاشی صدمات اٹھانے کو ذہنی طور پر تیار رہے ہیں مگر اب ضرورت اس بات کی ہے کہ اسے ملکی سلامتی، معاشی بحالی اور ترقی و خوشحالی کے سفر میں خوشخبری ملے، عام آدمی کوتعلیم و صحت سمیت سستی گیس، بجلی ، پانی، ٹرانسپورٹ ، روزگار اور رہائش کی بنیادی سہولتیں چاہئیں، عوام کے چولہے بجھانے والی پالیسیاں نہیں چلیں گی، پچھلی حکومتوں کو مطعون کرنے کے بجائے وزیر خزانہ قوم کے سامنے اپنا واضح اور شفاف اقتصادی پروگرام رکھیں، قلیل مدتی اور طویل المیعاد منصوبوں کی کہکشاں اس طرح سامنے لائی جائے کہ غریب عوام کو واقعی لگے کہ تبدیلی آرہی ہے، مگر جو کچھ نظر آرہا ہے اسے معاشی گرداب کی پیچیدہ صورتحال نہیں بننا چاہیے، حکومت کے اقتصادی مشیر شرح صدر کے ساتھ آگے بڑھیں۔

کلیئر کٹ معاشی حکمت عملی دیں، کوئی یو ٹرن یا غیر مصدقہ اعلانات کی تشہیر نہ ہو، سوچ سمجھ کر مربوط اقتصادی اقدامات ہوں تاکہ عوام ہر دو ہفتے بعد مہنگائی کے پتھرائو سے گھائل نہ ہوں۔ عوام نئی حکومت سے ایک منصفانہ معاشی نظام کی ابتدائی مسرتیں مانگتے ہیں جو ان کا حق ہے۔

 

مقبول خبریں