بیگم کلثوم نواز اور مسلم لیگ نواز

اصغر عبداللہ  بدھ 19 ستمبر 2018
mohammad_asghar_abdullah@yahoo.com

[email protected]

بیگم کلثوم نواز بھی راہی ملک عدم ہوگئیں۔کوئی امیر ہے یا غریب، طاقت ور ہے یا کمزور، موت سے کسی کو مفر نہیں۔ بیگم کلثوم نواز تقریباً ایک سال سے لندن میں  زیرعلاج تھیں اور کینسر جیسے موذی مرض سے لڑ رہی تھیں، لیکن آخر کار ہار گئیں۔

بیگم کلثوم نواز تین مرتبہ پاکستان کی خاتون اول رہ چکی ہیں، اس لحاظ سے بہت جانی پہچانی شخصیت تھیں، لیکن سیاسی طور پر ان کو شہرت اس وقت ملی، جب 12 اکتوبر 1999ء کو فوج نے ن لیگی حکومت برخاست کردی اور نوازشریف کو گرفتار کر لیا۔ شریف خاندان کے لیے یہ بہت مشکل دور تھا۔ نوازشریف اور شہبازشریف کے علاوہ خاندان کے باقی مرد بھی نظربندی کی حالت میں تھے۔ پارٹی کے اندر بغاوت پھوٹ پڑی تھی۔ بڑے بڑوں کے پاوں ڈگمگا گئے تھے۔

پھر یہی وہ زمانہ ہے، جب ان کو پے در پے ذاتی صدموں سے دوچار ہونا پڑا۔ نوازشریف حکومت کے آخری دنوں میں ان کے والد انتقال کر گئے۔ ابھی وہ ان کے چہلم سے فارغ ہوئی تھیں کہ 15 دسمبر کو ان کی والدہ بھی وفات پا گئیں۔ یہ صدمات معمولی نہیں تھے، لیکن بیگم کلثوم نواز اپنے شوہرکو قید سے آزاد کرانے کے لیے دیوانہ وار باہر نکلیں۔ اس مقصد کے لیے انھوں نے چیف جسٹس سعید الزماں صدیقی کو خط لکھا۔ عالمی برادری کو اپیل کی۔

جب بیگم کلثوم نواز نے سیاسی رابطوں کا آغاز کیا اور اس ضمن میں بے نظیر بھٹو سے بھی بالواسطہ طور رابطہ کیا تو بے نظیر بھٹو نے یہ کہہ کے صاف انکار کر دیا کہ وہ ماضی کے تجربات کی روشنی میں ن لیگ کو ریسکیو نہیں کریں گی۔ جس پر بیگم کلثوم نواز بھی ترنت کہا تھا کہ ان کو بھی محترمہ سے فوری طورپر ملنے میںکوئی دلچسپی نہیں ہے۔

6 اپریل 2000 ء کو انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت نے نواز شریف کو طیارہ ہائی جیکنگ کیس میں عمر قید کی سزا سنائی تو بیگم کلثوم نواز نے اس فیصلے کو ذاتی انتقام اور دباو کو نتیجہ قرار دیا اور کہا کہ ’’شیر پنجرے میں ہو تو زیادہ خطرناک ہو جاتا ہے۔‘‘ لیکن جون کے آخر تک محترمہ کی یہ غلط فہمی دور ہو چکی تھی۔اٹک قلعہ میں احتساب عدالت نے ہیلی کاپٹر ریفرنس میں بھی عمر قید کی سزا سنا دی۔ یہ فیصلہ سنتے وقت کلثوم نواز شدیدجذباتی ہو گئیںاور اونچی آواز میں کہا کہ ’’ آج پھر انصاف کا خون ہو گیا ہے۔‘‘

اس دوسرے عدالتی فیصلے کے بعدہی بیگم کلثوم نواز نے مشرف حکومت کے خلاف کاروان ’’تحفظ پاکستان‘‘ چلانے کا اعلان کیا تھا اور کہا تھا کہ اگر ساری ن لیگ کو نظر بند کر دیا گیا تو بھی  وہ کارواں  لے کر نکلیں گی۔8 جولائی کو پونے دو بجے وہ اپنی گاڑی میں رکاوٹیں توڑتی ہوئی باہر نکلیں اور کینال ویو تک پہنچنے میں کامیاب ہو گئیں۔ یہ بڑا عجیب نظارہ تھا۔ پولیس نے پہلے ان کی گاڑی کے ٹائر پنکچرکیے۔ اس کے بعد بھی جب بیگم کلثوم نواز نے گاڑی کے شیشے اوپر چڑھا کر باہر نکلنے سے انکار کر دیا، تو پولیس ان سمیت گاڑی کو اٹھا کر لے گئی۔

دس گھنٹے حراست میں رکھنے کے بعدانھیں واپس ان کے گھر پہنچا کر نظر بند کر دیا۔ بیگم کلثوم نواز نے جو ہمت اور جرات دکھائی، وہ بے نظیر بھٹو اور دوسری اپوزیشن پارٹیوں پر بھی اثرانداز ہوئی اور کہا کہ یہ جنرل مشرف کی غلط فہمی ہے کہ وہ مجھے اور نوازشریف کو سیاست سے آوٹ کردیں گے۔یہ بیان گویا بیگم کلثوم نواز کے لیے سگنل تھا کہ برف پگھل چکی ہے۔ بیگم کلثوم نواز منزل کے قریب پہنچ چکی تھی۔ جو وہ چاہتی تھیں، وہ ہو رہا تھا۔

3 دسمبر کو اسلام آباد میں ن لیگ اور پیپلزپارٹی کا مشترکہ اجلاس ہوا، جس میں نواب زادہ نصراللہ خان، بیگم کلثوم نواز، جاوید ہاشمی، سرانجام خان، مخدوم امین فہیم ، جہانگیر بدرکے علاوہ اسفند یار ولی، بیگم نسیم ولی بھی شریک ہوئے۔ اتحاد برائے بحالی جمہوریت (اے آر ڈی ) وجود میں آ چکا تھا۔

اے آر ڈی کے قیام کے بعد نوازشریف کی رہائی اب صرف ن لیگ کا نہیں، بلکہ پیپلز پارٹی کا مسئلہ بھی قرار پا گئی۔ یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ ن لیگ اور پیپلزپارٹی کے اس طرح ایک صفحہ پرآ جانے کے نتیجہ میں مشرف حکومت نے مناسب یہ سمجھا کہ اب اس ڈیل کو فائنل کر دیا جائے، جس پر اندرون خانہ اس کی شریف فیملی سے بات چل رہی تھی۔ آنے والے ایک ہفتے میں اتنی تیزی سے حالات میں تبدیلی آئی کہ دیکھنے والے انگشت بدنداں رہ گئے۔

بیگم کلثوم نواز نے اٹک جیل میں اپنے شوہر سے ملاقات کی۔ اپنے سامنے ان کا طبی معائنہ کرایا۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کے شوہر کو دل کی تکلیف ہے۔ جس مشن کے لیے وہ گھر سے نکلی تھیں، اس میں وہ کامیاب ہو چکی تھیں۔11دسمبر کو ایک پیغام میں انھوںنے کہا کہ ’’اللہ تعالیٰ نے رمضان المبارک میں ان کے شوہر کو جیل کی تنگ وتاریک کوٹھڑی سے نکال کر شکرانے کا پہلا سجدہ ادا کرنے کے لیے خانہ خدا میں بلا کر ان کی بے گناہی ثابت کردی ہے۔‘‘

سیاست میں اس کے بعد بیگم  کلثوم نواز نے مکمل طور پر خاموشی اختیار کرلی۔ ان کی سیاست کی کہانی حقیقتاً ایک وفا شعار مشرقی بیوی کی کہانی ہے، جس کے لیے اس کا شوہر ہی سب کچھ ہوتا ہے اور وہ اس کے لیے ہر خطرہ مول لے سکتی ہے۔

اس پس منظر میں، جب 2017 ء میں نوازشریف پاناما کیس میں نااہل ہوئے اور اس کے نتیجہ میں وزارت عظمیٰ، پارٹی صدارت اور اسمبلی رکنیت سب سے ہاتھ دھو بیٹھے تو قدرتی طور پر ن لیگ کے کارکنوں کی نظریں پھر بیگم کلثوم نواز پر ٹک چکی تھیں۔ عین بیماری کی حالت میں بیگم کلثوم نواز نے اپنے شوہر کی خالی نشست پر الیکشن لڑا اور منتخب بھی ہو گئیں۔ ان کے انتخابی مہم چلانے کی صورت میں ممکن تھا کہ تحریک انصاف پنجاب کو ن لیگ سے چھیننے سے کامیاب نہ ہو پاتی۔ لیکن قدرت کو شاید یہ منظور نہیں تھا اور اس بار وہ اپنے شوہر اور بچوں کے لیے کچھ نہیں کر سکیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔