پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے والوں کا شفاف آڈٹ کب ہوگا؟

منصور مانی  پير 22 اکتوبر 2018
عارف مسعود نقوی اپنے ابراج گروپ کی مالیاتی سرگرمیوں سے متعلق آڈٹ ٹیموں کو مطمئن نہیں کرپائے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

عارف مسعود نقوی اپنے ابراج گروپ کی مالیاتی سرگرمیوں سے متعلق آڈٹ ٹیموں کو مطمئن نہیں کرپائے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

ابراج گروپ کا نام پاکستانیوں کےلیے نیا نہیں، کون جانتا تھا کہ 1960 میں کراچی میں پیدا ہونے والے عارف مسعود نقوی 1994 میں صرف 50 ہزار ڈالر سرمائے سے جس کمپنی ’’کپولا‘‘ کی بنیاد رکھ رہے ہیں، ایک دن وہ کمپنی ’’ابراج‘‘ کےنام سے پوری دنیا میں سرمایہ کاری کے حوالے سے اپنی ایک ساکھ بنا لے گی۔ اچھی یا بری، اس کا فیصلہ بہر حال وقت ہی کرے گا۔

عارف نقوی نے 2002 میں دبئی میں ابراج کی بنیاد رکھی جو آگے چل کر ابراج گروپ بنا۔ ابراج گروپ کے کئی کاروبار ہیں جن میں ریئل اسٹیٹ، پاور اینڈ انرجی اور سرمایہ کاری شامل ہیں۔ اس گروپ نے پاکستان، ہندوستان اور بنگلہ دیش جیسے ممالک میں سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔ بین الااقومی اشاعتی ادارے وال اسٹریٹ جرنل نے ابراج گروپ کے بانی اور سی ای او عارف نقوی کے حوالے سے ایک رپورٹ شائع کی جس میں کہا گیا کہ عارف نقوی نے چیریٹی فنڈ کا پیسہ پاکستان میں ذاتی یا سیاسی مقاصد کےلیے استعمال کیا۔ یہ وہ 20 ملین ڈالر تھے جو بل گیٹس فاؤنڈیشن نے ہیلتھ کیئر فنڈ کےلیے ابراج گروپ کو دیئے تھے۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ عارف نقوی اس چیریٹی فنڈ کے استعمال سے تحقیق کرنے والے اداروں اور آڈٹ فرمز کو مطمئن نہیں کرسکے۔ رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ یہ پیسہ پاکستان میں موجود ابراج گروپ کے انتظامی امور کے استحقاق سمیت، خریدی گئی پاور کمپنی کے الیکٹرک کو بکوانے کےلیے بطور رشوت دو سیاسی رہنماؤں نواز شریف اور شہباز شریف کو دیا گیا جنہوں نے یہ پیسہ شاید 2018 کے الیکشن فنڈ میں استعمال کیا۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ عارف نقوی نے کئی سو ملین ڈالر اپنے بیٹے یا اپنے جاننے والوں کی کمپنیز میں انویسٹ کیے۔ رپورٹ میں الزام عائد کیا گیا ہے کے عارف نقوی چیرٹی فنڈز کا، جو صحت اور تعلیم (ہیلتھ اینڈ ایجوکیشن) کے حوالے سے اس گروپ کو دیئے جاتے ہیں، غلط استعمال کرتے ہیں۔ دوسری جانب عارف نقوی ان تمام الزامات کو غلط قرار دے چکے ہیں۔

ابراج گروپ کو اس وقت سخت مالی مشکلات کا سامنا ہے۔ ماضی قریب میں دبئی میں عارف نقوی کے کئی کروڑ ڈالر کے چیکس بھی باؤنس ہوئے تھے جن کی وجہ سے انہیں سخت مقدمات کا سامنا کرنا پڑا۔ ابراج گروپ کے سی ای او عارف نقوی نے ایئر عربیہ سے اگست میں استعفیٰ دے دیا، انہیں وہاں بھی فنڈز کے حوالے سے سوالات کا سامنا تھا۔ گلف نیوز میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق عارف نقوی کی پریشانی اس وقت شروع ہوئی جب بل گیٹس فاؤنڈیشن اور انٹرنیشنل فنانس کارپوریشن نے ایک بلین ڈالر کے ہلیتھ کئیر فنڈز کے حوالے سے آڈٹ شروع کیا جس کے بارے میں انہیں شبہ تھا کہ اس فنڈ کو غلط استعمال کیا گیا ہے۔

پاکستانیوں کے سامنے ابراج گروپ کا نام 2009 میں سامنے آیا جب کراچی شہر کو بجلی فراہم کرنے والی کمپنی کے ای ایس سی کے انتظامی حقوق، ابراج گروپ نے حاصل کر لیے (جبکہ کے ای ایس سی کی نجکاری 2005 میں کی جاچکی تھی)۔ کراچی شہر کےلیے کے الیکٹرک کی کارکردگی کیا ہے اور کمپنی کتنے منافع میں ہے؟ اس حوالے سے کچھ کہنے کی ضرورت نہیں، کراچی کے شہری اس سوال کا جواب جانتے ہیں۔ لیکن ابراج گروپ پاکستان میں 2009 سے پہلے بھی سرمایہ کاری کرچکا تھا اور بااثر حلقوں کےلیے عارف مسعود نقوی کا نام نیا نہیں تھا۔

2006 میں ابراج گروپ کے سی ای او عارف نقوی اور بی ایم اے کیپٹل نے کراچی سے سرمایہ کاری کا آغاز کیا۔ پاکستان میں ابراج گروپ نے 2007 میں لاہور کی ایک کمپنی منان شاہد میں سرمایہ کاری کی جو صعنتی پرزے بناتی تھی۔ اُس کے بعد ابراج گروپ نے 2008 میں ایک بڑی سرمایہ کاری آئل سیکٹر میں کی، موجودہ بائیکو کمپنی میں ابراج گروپ نے کثیر سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔ 2008 میں کی گئی اس سرمایہ کاری کے بعد 2014 میں بائیکو کو کیش فلو میں شدید مشکلات کا سامنا رہا اور نوبت بیل آؤٹ تک پہنچ گئی۔ اس کے علاوہ جولائی 2018 میں بھی آئل سیکٹر کا 63 ارب روپے کا ایک اسکینڈل بھی سامنے آیا جس میں بائیکو کا نام بھی شامل ہے۔ قبل ازیں 2008 میں عارف نقوی کراچی میں امن فاؤنڈیشن قائم کرچکے تھے۔ یہ ایک نان پروفٹ ایبل ادارہ (این پی او) ہے جو مخیر حضرات اور اداروں کی امداد پر چلتا ہے۔ امن فاؤنڈیشن کے تحت ایمبولینس سروس سمیت کئی خدمات فراہم کی جاتی ہیں۔ ڈونرز میں بل گیٹس فاؤنڈیشن سمیت کئی ادارے شامل ہیں۔

اس کے بعد ابراج گروپ نے 2016 میں جھمپیر پاور، ونڈ پاور پراجیکٹ میں سرمایہ کاری کی۔ اس کے ساتھ ساتھ 2017 میں دو مزید کمپنیوں سنے پلیکس (سینما) اور اسلام آباد ڈائیگناسٹک سینٹر میں بھی سرمایہ کاری کی۔

ماضی میں تحریک انصاف کے رہنما عمران خان پر بھی ابراج گروپ کے سی ای او عارف نقوی سےایک ملین ڈالر فنڈنگ لینے کا الزام لگا۔ کہا گیا کہ طارق شفیع نے جولائی 2013 میں ان کےلیے 56 ملین روپے لیے جبکہ ہاربر کمپنی کے ذریعے مارچ 2013 میں 58 ملین روپے لیے جس کا مقدمہ نیب میں بھی چلا۔ کچھ بھی ہو، اس طرح کے سرمایہ کار جب سرمایہ کاری کرتے ہیں تو کہیں نہ کہیں ان کے پیشِ نظر اپنا مفاد بھی ہوتا ہے۔

ابراج گروپ پر عائد الزامات کے حوالے سے پاکستان میں بھی ٹھوس بنیادوں پر تحقیقات ہونی چاہئیں اور ان تمام اداروں کا شفاف آڈٹ ہونا چاہیے جہاں جہاں اس گروپ نے سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔ ہمیں دیکھنا ہوگا کہ کہیں سرمایہ کاری کے نام پر سیاسی مفاد، منی لانڈرنگ اور دیگر جرائم کا ارتکاب تو نہیں کیا جارہا؟

پاکستان کا المیہ ہے کہ سب سے زیادہ لوگ چیریٹی کرتے ہیں اور چیریٹی کے نام پر ہی بیوقوف بن جاتے ہیں۔ لوگ چیریٹی کے نام پر نام نہاد ادارے بنا کر عوام سے کروڑوں بٹور لیتے ہیں۔ سرمایہ کار پیسہ لگاتے ہیں، سیاسی لوگوں اور جماعتوں سے تعلقات بناتے اور  پارٹی فنڈز کے نام پر کروڑوں روپے دیتے ہیں؛ اور پھر اربوں کھربوں روپے وصولتے ہیں۔ ایسے سرمایہ کاروں کا کڑا احتساب ہونا چاہیے تاکہ ملک میں حقیقی تبدیلی آسکے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

منصور مانی

منصور مانی

منصور مانی صحافت کے شعبے سےتعلق رکھتے ہیں اور ڈان نیوز ٹی وی کے ساتھ وابستہ ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔