وردی پولیس کا سب سے بڑا مسئلہ کیوں

پولیس میں اصلاحات تحریک انصاف کے پہلے سو دن کے ایجنڈے میں سر فہرست نظر آتی تھیں۔


مزمل سہروردی October 23, 2018
[email protected]

تحریک انصاف کی جانب سے پولیس میں اصلاحات کو ایک انتخابی نعرے کے طور پر استعمال کیا گیا۔ یہ دعویٰ کیا گیا کہ تحریک انصاف کی حکومت نے کے پی پولیس میں مثالی اصلاحات کر دی گئی ہیں ۔ اب پنجاب اور دوسرے صوبوں میں بھی پولیس میں مثالی اصلاحا ت کی جائیں گی۔

پولیس میں اصلاحات تحریک انصاف کے پہلے سو دن کے ایجنڈے میں سر فہرست نظر آتی تھیں۔ ایک عمومی خیال بھی یہی تھا کہ شاید پہلے سو دن کوئی بڑا کام تو ممکن نہیں لیکن پولیس میں اصلاحات ضرور کی جا سکتی ہیں۔ پولیس سے سیاسی اثر و رسوخ کا خاتمہ ممکن ہے۔

اگر پولیس ٹھیک ہو جائے تو عدالتوں سے بوجھ بھی کم ہو جائے گا۔ عام آدمی کو پولیس سے ہی انصاف مل جائے گا۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ اگر عام آدمی کو پولیس سے انصاف مل جائے تو یہ بہت بڑا ریلیف ہوگا۔اس تناظر میں یہ امید تھی کہ تحریک انصاف کی حکومت اور کچھ کرے یا نہ کرے لیکن پولیس میں اصلاحات ضرور کر دے گی۔ تا ہم اس حکومت کو قائم ہونے کے بعد سے اب تک پولیس میں اصلاحات کا عمل شروع نہیں ہو سکا ہے۔

سندھ میں تو تحریک انصاف کی حکومت ہی نہیں ہے۔ اس لیے تمام نظریں پنجاب پر تھیں۔ بلکہ امید یہ تھی کہ جب پنجاب میں اصلاحات ہوںگی تو سندھ میں پی پی پی کی حکومت ان اصلاحات پر مجبور ہو جائے گی۔ مگر افسوس کے ان اصلاحات کے لیے تحریک انصاف کے پاس جو سب سے بڑا کھلاڑی تھا وہ پہلے چند دن میں ہی بولڈ ہو گیا۔ ناصر درانی کے استعفیٰ نے پولیس اصلاحات کی تمام کہانی کو دفن کر دیا ہے۔

اب تو خبریں یہ ہیں کہ خود تحریک انصاف کی قیادت بھی اس نتیجہ پر پہنچ گئی ہے کہ پنجاب پولیس میں کے پی طرز کی پولیس اصلاحات ممکن نہیں ہیں۔ اس لیے پولیس میں اصلاحات کے باب کو بند ہی کر دینا چاہیے تاہم کہیں نہ کہیں یہ احساس بھی ہے کہ اگر کچھ نہ کیا تو بہت بدنامی ہوگی لہذا کچھ تو کرنا ہے۔ اس تناظر میں پنجاب پولیس کی وردی دوبارہ تبدیل کرنے کی باتیں ہو رہی ہیں۔ یہ کہا جا رہا ہے کہ پنجاب پولیس کی پرانی وردی بحال کر دی جائے۔ یوں وردی پنجاب پولیس کا اہم مسئلہ بن گیا ہے۔

اس ضمن میں میرے ایک دوست پولیس افسر نے مجھے ایک خط بھیجا ہے۔ میں قارئین اور حکمرانوں کی توجہ کے لیے اس کے مندرجات نقل کر رہا ہوں۔ شاید اس سے پنجاب پولیس میں اصلاحات اور وردی کے مسئلہ کا بہتر حل سمجھ میں آسکے۔ محترم لکھتے ہیں کہ آج کل وردی وردی کا بہت چرچا ہو رہا ہے۔

ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ پولیس کا واحد مسئلہ وردی ہے۔ نئی وردی پرانی وردی جیسے پولیس کا مسئلہ نہ تو 1861میں بنایا گیا قانون ہے جس میں اب تک پولیس موبائلز کی جگہ گھوڑوں اور ای میلز کی جگہ تار کا ذکر ہے۔ نہ پولیس کا مسئلہ نفری کی کمی ہے اور نہ ہی پولیس کا مسئلہ روزانہ کی بنیاد پر ہونے والی کرپشن ہے۔ نہ پولیس کا مسئلہ جعلی بل بنوا کر اپنے اکاؤنٹ بھرنے۔ نہ پولیس کا مسئلہ جھوٹے پرچے نہ پولیس مسئلہ جعلی کارروائیاں ۔ نہ پولیس کا مسئلہ اپنی بقا کی خاطر بولا جانے ولا بے تحاشہ جھوٹ۔ نہ پولیس کا مسئلہ کرپٹ افسران کی جانب سے ہر وقت ملنے والے بے بنیاد شوکاز نوٹس ۔ نہ پولیس کا مسئلہ سیاسی مداخلت۔ نہ پولیس کا مسئلہ جعلی برآمدگیاں۔ نہ پولیس کا مسئلہ ہر روز میڈیا سے گالیاں کھانا۔ نہ پولیس کا مسئلہ روزانہ کی بنیاد پروکلاء اور عدالتوں میں ہونے والی بے عزتی۔ نہ پولیس کا مسئلہ بے ہنگم اور بے ترتیب ڈیوٹی جس کی وجہ سے نوے فیصد ملازمین شوگر اور ذہنی ڈپریشن کا شکار ہیں۔

یہ کیا عجیب بات ہے کہ آئی جی صاحب کا دربار ہوا اور وہاں مسئلہ کیا زیر بحث رہا وردی۔ وردی کیا ہے؟ کالے اور سبز رنگ سے کیا فرق پڑتا ہے؟ کون سے معرکے ہیں جو صرف کالے رنگ کی وردی میں ہی سر کیے جا سکتے ہیں اورموجودہ وردی میں وہ ممکن نہیں ہیں۔ ہم کس معاشرے میں رہ رہے ہیں۔ اصل مسائل پر کوئی بات ہی نہیں کر رہا ہے۔ کیوں تفتیشی کو مقدمات کی شفاف تفتیش کے لیے تفتیشی فنڈ نہیں ملتا۔ ایک ایس ایچ او جس کی تنخواہ 45ہزار ہے اور تھانے کی ایس ایچ او شپ کا خرچہ145000/- روپے ہے جو تھانے کے محرر کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جاتا ہے۔ کیا محرر یہ پیسے گھر سے لا کر دیتا ہے۔

کیوں جب تھانے میں کسی چیز کی افسروں سے ڈیمانڈ کی جاتی ہے تو فنڈز دینے کے بجائے محرر سے رابطہ کرنے کا کہا جاتا ہے۔ کیوں ان مسائل پر بات نہیں کی جاتی اور ان کا حل تلاش نہیں کیا جاتا۔ ڈائریکٹ بھرتی ہونی چاہیے کہ نہیں یہ الگ بحث ہے کہ لیکن پنجاب پبلک سروس کمیشن کا امتحان پاس کر کے جو پڑھے لکھے نوجوان آتے ہیں ان کے ساتھ کیا سلوک کیا جاتا ہے۔ تنخواہ 32ہزار اور خرچہ 70ہزار۔ ان کو کیوں بھیک مانگنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ یہ کیا مذاق ہے کس کو نہیں پتہ کہ ایک تفتیشی عموما ایک مہینے میں دس چکر ہائی کورٹ کے لگاتا ہے۔

کچھ نہ بھی کرے تو کرائے کی مد میں ایک ہزار روپے ایک چکر کا لگتا ہے۔ تین سو ویسے خرچ ہو تو 1300ایک چکر کا بنتا ہے۔ اور اسی طرح تیرہ ہزار ایک مہینے کا بنتا ہے۔ یہ پیسے وہ کہاں سے دے گا۔اپنی تنخواہ سے ؟ کیا ستم ظریفی ہے کہ کسی کا دھیان اس طرف کیوں نہیں جاتا۔ 2700سی سی سرکاری پولیس موبائیل کو دن کا پندرہ لٹر ڈیزل دے کر 24گھنٹے moveکا حکم دینا کہاں کا انصاف اور یہ کس جنگل کا قانون ہے۔

یہ بات درست ہے کہ رشوت لینے والا اور دینے والا دونوں جہنمی ہیں۔ لیکن جب محکمہ بھی نہ دے اور عوام سے بھی نہ لیں تو کہاں جائیں؟ آپ محکمہ کی اندرونی کرپشن ختم کر کے رشوت پر سزائے موت کا قانون لاگو کر دیں جب پیسے کھا جائیں افسران بالا تو ASIاور SIکیا کریں۔ کیوں پولیس عوام کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ اسی طرح رضاکار جو محکمہ اور ملازمین کی عزت کے ساتھ ظلم ہے کیوں نہیں ان کو نکال کر کانسٹیبل بھرتی کیے جاتے۔ آخر ایسا کون سا معرکہ ہے جو صرف رضا کار سر کر سکتے ہیں۔ رضاکاروں کے ہوتے ہوئے پولیس کے اچھے امیج کا سوچنا ازخود ایک ا چھا مذاق ہے۔

آخر کیوں ہم پولیس کے اصل اور دائمی مسائل سے کبوتر کی طرح آنکھیں بند کر کے وردی کو پولیس کا واحد مسئلہ سمجھے بیٹھے ہیں۔ قانون ہمارا ایسا ہے کہ ایک ملزم کو موٹر سائیکل چوری کے 41مقدمات میں چالان کریں تو وہ پندرہ روز بعد ضمانت پر رہا ہو جاتا ہے۔ ایسے قانون کو کون اور کب تبدیل کرے گا۔

پولیس کے امیج کو بہتر کرنے کے لیے فرنٹ ڈیسک بنائے گئے۔ جس کا مقصد عوام سے اچھا رویہ ان کی درخواست اچھے انداز میں درج کرنا۔ اور پولیس اسٹیشن کا ریکارڈ manage کرنا بتایا گیا۔ باقی جو ہوا وہ الگ بات ہے۔ فرنٹ ڈیسک اسٹاف کے ساتھ یہ مذاق کیا گیا کہ 2016میں 25ہزار روپے پر بھرتی ہونے والے لوگ اب بھی 25ہزار ہی لے رہے ہیں۔

ان کا ہر ایک سال کے بعد کنٹریکٹ ختم ہوجاتا ہے۔ تنخواہ رک جاتی ہے۔ پھر پانچ ماہ بعد تنخواہ جاری ہوتی ہے۔ اور بقایا جات کیسے کلئیر کروائے جاتے ہیں اس سے کون باخبر ہے۔ دنیا کے کس محکمہ میں ایسا ہوتا ہے۔ آپ سے تین سال میں اس ونگ کا سروس سٹرکچر نہیں بن سکا۔ پھر کیسی قابلیت ہے آپ میں۔ فرنٹ ڈیسک پر کیاجانے والا کام اگر بند ہ بازار میں دکان کھول کر ایک کمپیوٹر اور پرنٹر رکھ کر کرے تو پچاس ہزار آرام سے کما سکتا ہے۔ لیکن اگر وہ پڑھا لکھا ہے اور دکان نہیں نوکری کرنا چاہتا ہے۔ا ٓپ اس کے ساتھ کیا برتاؤ کر رہے ہیں۔

کیوں سب وردی کا ورد کر رہے ہیں۔ میرے بھائیو حقیقت پسندی کی طرف آئیے۔ ان مسائل کا ذکر کیا کرو جو پولیس کے اصل مسائل ہیں۔ پنجاب پولیس نوکری کے شیڈول کے لحاظ سے دنیا کا شاید گندا ترین محکمہ ہے۔ جس میں سکون نام کی کوئی چیز نہیں اور ہمیں وردی وردی کھیلنے میں مصروف رکھا گیا ہے۔ اس خط کو بلا تبصرہ شایع کر رہا ہوں۔کیونکہ یہ بھی تصویر کا ایک رخ ہے۔

مقبول خبریں