نواز شریف قوم کو یہ بڑا تحفہ دے سکتے ہیں

عدنان اشرف ایڈووکیٹ  ہفتہ 15 جون 2013
advo786@yahoo.com

[email protected]

گزشتہ ہفتے کے دن یہ خبر پڑھنے کو ملی کہ امریکی جیل میں عافیہ پر اس قدر تشدد کیا گیا کہ لہولہان ہونے کے بعد بے ہوش ہوگئی، دو دن تک طبی امداد نہیں دی گئی، جیل میں اس کی زندگی کو شدید خطرات لاحق ہیں۔ اس واقعے کی اطلاع عافیہ کی وکیل نے ان کے اہل خانہ کو دی۔ جنھوں نے حکومت سے واقعے کا فوری نوٹس لینے کا مطالبہ کیا ہے۔

ڈاکٹر عافیہ اور ان کا خاندان گزشتہ ایک دہائی سے زیادہ عرصے سے ریاستی نہیں بلکہ آفاقی دہشت گردی کا شکار ہے۔ کیونکہ اس میں کوئی ایک ریاست نہیں عالمی ریاستیں ملوث ہیں۔ یہ حوصلہ مند، صابر و شاکر مظلوم لڑکی تو عیار، سفاک اور ظالم صیادوں کے نرغے میں ہر انسانیت سوز ظلم سہنے پر مجبور ہے لیکن اس کے اہل خانہ خصوصاً بہن فوزیہ صدیقی کی جدوجہد، مستقل مزاجی اور استقامت کا کردار انتہائی مثالی، قابل تحسین اور قابل رشک ہے، یہ لڑکی کتنے سال سے تن تنہا اپنی بہن کے لیے آبرومندانہ انصاف کے لیے سرگرداں ہے جو لوگوں کا اخلاص اور محبت بھی دیکھ رہی ہے اور حکمرانوں، سیاستدانوں اور بعض صحافیوں کی مخالفت، جھوٹ، فتنہ سازی، وعدہ خلافی، یہاں تک کہ کردار کشی، دباؤ اور بلیک میلنگ تک برداشت کررہی ہے۔

ڈاکٹر عافیہ اور اس کے 3 معصوم بچوں کے اغوا کے اصل حقائق اور محرکات کیا ہیں؟ حکومتیں ان کی گرفتاری یا اغوا کو کئی برس تک مخفی کیوں رکھتی رہی ہیں اور اس سلسلے میں مسلسل دروغ گوئی، مبالغہ آرائی اور کردار کشی مہم پر کمربستہ کیوں رہیں۔ اگر ان کے خلاف القاعدہ سے تعلق کا کوئی ثبوت یا الزام بھی تھا تو وہ آج تک عدالتوں کے سامنے کیوں نہیں لایا گیا؟ اس کا استعمال محض مبالغہ آرائی و ابہام پیدا کرنے اور کردار کشی کے لیے ہی کیوں استعمال کیا جاتا رہا ہے؟ عافیہ پر اس کے اغوا یا گرفتاری کے کئی برس بعد امریکی فوجیوں پر حملے کی کوششیں یا اقدام کا الزام عائد کرکے عدالت میں پیش کیا گیا۔

اس خود ساختہ کہانی میں کسی فوجی کو تو کوئی گزند نہ پہنچی البتہ الٹا عافیہ گولیوں کا نشانہ بنی۔ ججز اور وکلا پر عافیہ کے اعتراضات کے باوجود کارروائی جاری رکھتے ہوئے سزا کا فیصلہ سنادیا گیا۔ عافیہ کی بے گناہی کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ خود اعلیٰ امریکی حکومتی عہدیدار قانون دان اور انسانی حقوق کی تنظیمیں عافیہ کے خلاف الزامات، مقدمہ اور سزا کو غیر قانونی و بلاجواز قرار دے کر اس کی بے گناہی کی وکالت اور رہائی کی جد وجہد کررہے ہیں۔ امریکی اٹارنی ٹینا فوسٹر نے انکشاف کیا تھا کہ عافیہ کے وکلا نے اس کے حق میں موجود ثبوت استعمال نہیں کیے اور پاکستانی حکومت نے وکلا کی خدمات اس لیے حاصل کی تھیں کہ عافیہ کو مجرم قرار دلوایا جائے۔ ایک موقع پر ڈاکٹر عافیہ کی والدہ کی طرف سے بھی اسی قسم کا بیان سامنے آیا تھا۔

انھوں نے حکومت کو وکلا مقرر کرنے سے بھی منع کیا تھا، جنھیں 5 ملین ڈالر کی فیس ادا کی گئی ہیں۔ امریکی ایلچی رچرڈ ہالبروک نے دورہ پاکستان میں بتایا تھا کہ حکومت پاکستان نے عافیہ کی واپسی کا کبھی کوئی مطالبہ نہیں کیا۔ برطانوی نو مسلم صحافی مریم ایوان ریڈلے جس نے جیل کا بھوت نامی قیدی نمبر 650 کا انکشاف اسلام آباد میں ایک پریس کانفرنس میں کیا تھا، کا کہنا ہے کہ مقدمہ بلاجواز اور بے بنیاد ہے اور یہ کہ پاکستانی حکومت نے امریکا سے عافیہ کی واپسی کا کبھی مطالبہ نہیں کیا۔ حکمران اپنے عوام کو بے وقوف بنارہے ہیں۔ سینیٹ کمیٹی کے ممبر طلحہ محمود نے عافیہ سے ملاقات کے بعد یہی بیان دیا تھا کہ پاکستانی حکومت رہائی کے لیے مخلص نہیں ہے اور مجرمانہ غفلت کی مرتکب ہورہی ہے۔ سینیٹ نے سزا کی مذمت اور عافیہ کو واپس لانے کی قرارداد بھی پاس کی ہوئی ہے۔

برطانوی ارکان پارلیمنٹ اور لارڈ نذیر بھی عافیہ کے خلاف کارروائی کو غیر منصفانہ اور انصاف کا خون اور نام نہاد جیوری کے فیصلے کو دہرا امریکی عدالتی نظام کا نتیجہ اور اس کی عالمی بدنامی قرار دے چکے ہیں۔ سابق چیف جسٹس پاکستان سعید الزمان صدیقی نے بھی اسے بین الاقوامی اور خود امریکی قوانین کے تحت بلا جواز، بے بنیاد قرار دیا ہے۔ ہیومن رائٹس کمیشن کے چیئرمین اقبال نے بھی اسے انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی اور انسانیت کے نام پر دھبہ قرار دیا تھا۔ سابق صدر جارج ڈبلیو بش بھی اعتراف کرچکے ہیں کہ جیلوں میں ہونے والے مظالم امریکا کی شرمندگی کا باعث بن رہے ہیں۔ چند ماہ پیشتر سابق امریکی اٹارنی جنرل ریمزے کلارک نے عافیہ کی رہائی کے سلسلے میں پاکستان کا دورہ کیا تھا۔

اس موقعے پر سندھ ہائی کورٹ بار سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ پہلے پاکستانی لیڈر کی جان بچانے پاکستان آئے تھے اب ایک پاکستانی بیٹی کو بچانے پاکستان آئے ہیں۔ امریکا میں عافیہ کی رہائی کے لیے پیش رفت ہوئی ہے لیکن اس میں پاکستانی حکومت کی جد وجہد ضروری ہے۔ انھوںنے برملا اعتراف کیا تھا کہ عافیہ پر امریکا میں جو مقدمہ بنا وہ غیر قانونی تھا۔ اس سے خود انھیں اور امریکی عوام کو دھچکا لگا ہے۔ وہ اس لیے عافیہ کی رہائی کے لیے پاکستانی عوام کے جذبات سے آگاہ ہونے آئے ہیں جہاں تک پاکستانی عوام کے عافیہ سے متعلق جذبات کا تعلق ہے تو اس کا اندازہ ریمنڈ ڈیوس کے معاملہ سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ دونوں مقتولین کے خاندان جو قاتل کو کسی صورت معاف کرنے کے لیے تیار نہیں تھے حتیٰ کہ احتجاجاً خودکشی کے اقدام پر بھی مجبور ہوگئے تھے۔ انھوںنے اس بات کا برملا اعلان کیا تھا کہ اگر عافیہ کو پاکستان کے حوالے کردیا جائے تو وہ اپنا خون معاف کرنے کے لیے تیار ہیں۔ لیکن ریمنڈ کو فرار کرانے کے لیے جس ظلم وجبر، لا قانونیت کا مظاہرہ کیا گیا وہ انتہائی شرمناک ہے۔

انسانی حقوق کی تنظیمیں عافیہ اور اس کے بچوں پر پاکستانی اور امریکی ایجنسیوں کی تشدد اور اس کے ذمے داروں کو کیفر کردار تک پہنچانے کا مطالبہ کررہی ہیں۔ وزیر داخلہ اسے بے گناہ قرار دے کر اس کا وطن واپسی کا خط لکھنے کا دعویٰ کرچکے ہیں۔ گیلانی بھی قوم کی بیٹی قرار دیتے ہوئے عافیہ کو واپس لانے کا وعدہ کرچکے تھے۔ مگر عملاً کسی حکومت یا حکمران نے کچھ نہیں کیا۔ تاریخ ایک مظلوم لڑکی، اس کے بے حس، منافق حکمرانوں اور سفاک عیار ومکار دشمنوں کا کیا مقام ومرتبہ کا تعین کرتی ہے بعد کی بات ہے لیکن حالات وواقعات نے اس مظلوم لڑکی کی بے گناہی ثابت کرنا شروع کردی ہے۔ حزب اختلاف کے رہنما نواز شریف نے عافیہ کی رہائی کے سلسلے میں اپنی ہر قسم کی کوششیں کرنے کا اعادہ ظاہر کیا تھا۔ اب وہ مسند اقتدار پر فائز ہیں۔ بلاشبہ ایک حساس اور پاکستانیت سے بھرپور دل رکھتے ہیں، اگر ترجیحی بنیادوں پر سفارتی کوششیں کرکے عافیہ کو وطن واپس لے آتے ہیں تو یہ قوم کے لیے ان کا ایک بڑا جذباتی ریلیف ہوگا جس سے افسردہ و مایوس عوام کے چہروں پر خوشی کی لہر دوڑ جائے گی اور ملک وملت کی مزید رسوائی کا سدباب بھی ہوسکے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔