بُک شیلف

بشیر واثق / شہباز انور خان  اتوار 28 اکتوبر 2018
جانئے دلچسپ کتابوں کے احوال۔ فوٹو: فائل

جانئے دلچسپ کتابوں کے احوال۔ فوٹو: فائل

میلاد اکبر (مکمل)
مصنف : خواجہ محمد اکبر صاحب وارثی میرٹھی
ہدیہ: 300 روپے
صفحات: 108
ناشر: ادبستان، دربار مارکیٹ، لاہور

حضور سرور دو عالم ﷺ کی شان اتنی بلند ہے کہ انسانی خیال کی بلندیاں وہاں تک رسائی حاصل نہیں کر سکتیں، اللہ جل شانہ فرماتا ہے کہ ہم نے اپنے حبیب ﷺ کا ذکر بلند کر دیا، ایسے میں بھلا انسانی تصور اور خیال کی رسائی وہاں تک کیسے ہو سکتی ہے۔ اللہ جل شانہ اور ملائکہ حضور پاک ﷺ پر درود پاک پڑھتے ہیں، اور مسلمانوں کو بھی یہ حکم ہے کہ وہ آپﷺ کی ذات مبارکہ پر درود بھیجیں ۔ ذرا اندازہ کریں کہ اللہ تعالیٰ جو کام خود کر رہا ہے اس کا حکم مسلمانوں کو بھی دے رہا ہے۔ جس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ جل شانہ یہ چاہتا ہے کہ مسلمان آپﷺ پر درود بھیج کر فیوض و برکات سمیٹیں جو آپﷺ پر درود پڑھنے کی وجہ سے نازل کی جاتی ہیں۔

آنحضورﷺ کی شان بیان کرنے کے لئے میلاد شریف کی محفلیں منعقد کی جاتی ہیں اور ان محفلوں میں شرکت کرنے والے آپ ﷺ کی محبت سے اپنے قلب و نظر کو منور کرتے ہیں ۔ زیر نظر کتاب میلاد اکبر کے قدیمی نسخہ کے عین مطابق شائع کی گئی ہے، خواجہ صاحب نے حضور پاک ﷺ کی شان اقدس کا حق ادا کرنے کی پوری سعی کی ہے، ان کا اسلوب بیاں، نہایت سلیس اور شستہ ہے۔ حمدیہ کلام سے ابتدا کی گئی ہے، اس کے بعد حضورﷺ کی شان میں نعتیہ کلام ہے، آپ ﷺ کی شان میں غزل بھی بیان کی گئی ہے، میلاد شریف کے انعقاد اور اس میں شرکت کے آداب بیان کئے گئے ہیں، آگے چل کر حضور انورﷺ کی حیات طیبہ پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے۔ میلاد اکبر میلادوں میں انمول کلام ہے۔ اس کا محفل میں پڑھا جانا باعث خیرو برکت اور رحمت ہے ۔

٭٭٭

نقش ثابت
شاعر: ابو البیان پروفیسر ظہور احمد فاتح
قیمت:400 روپے
صفحات: 160
ناشر: فاتح پبلی کیشنز، تونسہ شریف

کہتے ہیں کہ شاعری انسانی ذہن پر اترتی ہے یعنی یہ ایک الہامی کیفیت کا نام ہے۔ یعنی نثر لکھنے والے لکھاری کو جو نکتہ نثری عبارت میں سوجھتا ہے وہی نکتہ شاعر کو شاعری کے روپ میں عطا ہوتا ہے۔ ابوالبیان پروفیسر ظہور احمد فاتح بہت سی کتابوں کے مصنف ہیں، انھوں نے شاعری میں ہر رنگ برتا ہے، وہ بڑی خوبصورتی سے اپنے دل کی بات دوسروں تک پہنچاتے ہیں۔ زیر نظر مجموعے میں نوے غزلیں شامل کی گئی ہیں۔ اور یہ شعر ٹائٹل پر بھی شائع کیا گیا ہے

ابھی تم زیر کر سکتے نہیں میرے قبیلے کو

ابھی جذبہ دلوں میں ہے، ابھی سودا سروں میں ہے

اسی سے ان کی شاعری کی جھلک دیکھی جا سکتی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ الفاظ کو برتنے میں انھیں پورا ملکہ حاصل ہے اور وہ اپنے دل کی بات بڑی خوبصورتی سے دوسروں تک پہنچاتے ہیں۔ شاعری سے دلچسپی رکھنے والوں کے لئے اچھا تحفہ ہے۔

٭٭٭

پنجاب اور بیرونی حملہ آور
مصنف: پروفیسر عزیز الدین احمد
 قیمت: 600 روپے
صفحات: 232
 ناشر: بک ہوم، مزنگ روڈ، لاہور

برصغیر پاک و ہند پر سالہا سال تک بیرونی حملہ آوروں کی یلغار رہی، جس کی وجوہات یہاں کے باشندوں کی نااتفاقی اور آپس کی کشیدگی تو تھی ہی مگر اس کے ساتھ ساتھ یہاں پر دولت کی فراوانی بھی ان کے لئے باعث کشش تھی۔ خاص طور پر برطانیہ نے اس پہلو پر سب سے زیادہ کام کیا اور ایسٹ انڈیا کمپنی کی شکل میں یہاں اپنے قدم جمانے کے بعد ریاستوں کی ناچاقی اور غدار عناصر کا فائدہ اٹھا کر قبضہ کرنا شروع کر دیا اور بالآخر پورے برصغیر کو اپنی نوآبادی بنا لیا ۔ صوبہ پنجاب بھی ان علاقوں میں شامل ہے جس نے انگریزوں کے مقابلے پر بھرپور مزاحمت کی، حتیٰ کہ ان کے قبضے کے بعد جب آزادی کی تحریک چلی تو پنجاب کے عوام پیش پیش تھے۔ زیر تبصرہ کتاب میں پنجاب پر حملہ آور ہونے والے حکمرانوں اور حملے کے محرکات کا جائزہ لیا گیا ہے، اسی طرح یہاں قائم ہونے والی مہاراجہ رنجیت سنگھ کی حکومت اور اس کے زوال کے اسباب بیان کئے گئے ہیں ۔ انگریزوں نے یہاں کے رہنے والوں کی باہمی رنجشوں اور کدورتوں سے کیسے فائدہ اٹھایا اور یہاں اپنے قدم مضبوط کرنے کے لئے جاگیرداری نظام کو کیسے پروان چڑھایا اس پر بھی بڑی تفصیلاً روشنی ڈالی گئی ہے ۔ انگریزوں کے خلاف مزاحمت میں بھگت سنگھ اور دیگر شخصیات کا کردار اور انگریزوں کا ظلم و ستم بھی رقم کیا گیا ہے۔ آخر میں حوالہ جات دیئے گئے ہیں۔ تاریخ سے دلچسپی رکھنے والوں کے لئے خاصے کی چیز ہے۔

فکرِ اقبال ؒ میں انسانی مسائل کا حل
 مصنف: پروفیسر ڈاکٹر ہارون الرشید تبسم
 صفحات: 240
 قیمت: 600/ روپے
 ناشر: بک کارنر، جہلم

پروفیسر ڈاکٹر ہارون الرشید تبسم کو حکیم الامت حضرت علامہ محمد اقبال ؒ اور فکر ِ اقبال سے عشق ہے۔ انہوں نے اب تک اقبالیات کے حوالے سے متعدد کتابیں شائع کی ہیں۔ موجودہ کتاب ’’ فکرِ اقبال ؒ میں انسانی مسائل کا حل ‘‘ بھی ان کی انہی کتابوں میں سے ایک ہے جو عظیم مدبر اور فلسفی حضرت اقبال ؒ کی فکر و فلسفہ اور تعلیمات و پیغام کو عام کرنے کے سلسلے میں لکھی گئی ہیں۔ یہ کتاب ایسے موضوع پر لکھی گئی ہے کہ جس سے عام قاری کے لیے بھی فکرِ اقبال ؒ کو سمجھنے اور اس سے رہنمائی حاصل کرنے میں مدد ملتی ہے۔

کتاب دس مضامین پر مشتمل ہے اور ہر موضوع اچھوتا بھی ہے اور منفرد بھی، جن میں سے چند ایک اس طرح ہیں ’’ انسانیت کے مسائل اور فکر ِ اقبالؒ، تہذیبوں کا تصادم اور فکرِ اقبال ؒ، انسانی اخلاقی اقدار اور فکرِ اقبالؒ، صنفی مسائل کاحل، فکرِ اقبال ؒ کی روشنی میں، علامہ اقبال ؒ کے معاشی نظریات، اقبالؒ کی کائنات ہر عہد کی عکاس، اکیسویں صدی میں اقبالؒ کا پاکستان، دفاع وطن، قرآن، حدیث اور فکرِ اقبال‘‘، وغیرہ شامل ہیں، ان مضامین کے ذریعے انہوں نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ انسان کے جملہ مسائل و معاملات کو فکر ِ اقبال ؒ کی روشنی میں دیکھا جا سکتا ہے اور ہمیں اس سے رہنمائی حاصل کرکے اپنے مسائل حل کرنے اور معاملات کو سلجھانے کی سعی و کاوش کرنی چاہیے۔ اقبالیات کے حوالے سے یہ کتاب ایک خوش گوار اضافہ ہے جس کی تحسین نہ کرنا پرلے درجے کی کم ظرفی ہوگی ۔

٭٭٭٭

بلونت سنگھ
 تحقیق وتجزیہ، پنجاب کے ثقافتی تناظر میں
 مصنف: ڈاکٹر نبیل احمد نبیل
 صفحات: 304
 قیمت: درج نہیں
 ناشر:دارالشعور، لاہور

اردو فکشن میں جن اہل قلم نے پنجاب اور پنجاب کی ثقافت، رہن سہن اور تہذیب وتمدن کو اپنی تحریروں میں نمایاں طور پر پیش کیا ہے ان چند گنے چنے فکشن رائٹرز میں ایک نام بلونت سنگھ کا بھی ہے جنہوں نے اپنی تحریروں میں پنجاب کی ثقافت کو اس حسن اور خوبصورتی کے ساتھ پیش کیا کہ ان کا نام امر ہوگیا۔ لیکن یہ کس قدر بدقسمتی کی بات ہے کہ اتنا اہم قلم کار ہونے کے باوجود ان کو اس قدر پذیرائی نہیں مل سکی جس کے وہ حقدار تھے۔ ڈاکٹر نبیل احمد نبیل ہمارے ان تخلیق کاروں میں سے ہیں جنہوں نے کم عمری کے باوجود تحقیقی و تخلیقی سطح پر اس معیار اور اعلیٰ پائے کا کام کیا ہے کہ بڑے بڑے ادیب و محقق انگشت بدنداں دکھائی دیتے ہیں۔ ان کے کریڈٹ پر مجید امجد ایک تجزیاتی مطالعہ اور دوسرے مضامین، انتخاب کلام ِ بانی (تحقیق وتدوین ) اور حیات زح ش ایسی کتابیں ہیں۔ زیر تبصرہ کتاب ’’ بلونت سنگھ (تحقیق وتجزیہ ) ان کی تازہ تخلیق ہے۔

یہ انہی کا کمال ہے کہ وہ ادبی سمندر میں چھپے اس ’’ گوہر ِ نایاب ‘‘ کو ’’ سطح ِ آب ‘‘ پر لے آئے ہیں۔ انہوں نے بلونت سنگھ کے افسانوں اور ناول کا تجزیہ اور محاکمہ ہی نہیں کیا بلکہ اس کے ساتھ انہوں نے ثقافت، اردو ناول کی روایت اور اردو افسانے کے بارے میں بھی مبسوط مقالے قلم بند کیے ہیں۔ اور اس محنت اور عرق ریزی کے ساتھ ان اصناف ادب پر طبع آزمائی کی ہے کہ اس کے تناظر میں بلونت سنگھ کے افسانے اور ناول کا مقام و مرتبہ متعین کرنا آسان ہوگیا ہے۔ ڈاکٹر نبیل احمد نبیل اردو ادب کے قاری کے شکریہ کے مستحق ہیں کہ انہوں نے پنجابی ثقافت کے پس منظر میں ایک ایسے اہل قلم کو بہ انداز ِ دگر متعارف کروایا ہے کہ جس سے ان کے فن کے بیشتر گوشے ابھر کر سامنے آگئے ہیں او ر اس میدان میں مزید تحقیق کرنے والوں کو راہ عمل میسر آگئی ہے۔

٭٭٭

 نہیں نقش گر ، نہیں نقش گر کا کمال ہم
 کہانیاں: مخدوم ٹیپو سلمان
 صفحات: 136
 قیمت : 250 / روپے:
فکشن ہاوس ، لاہور

مخدوم ٹیپو سلمان پیشے کے اعتبار سے وکیل ہیں اور یہ پیشہ ایسا ہے کہ اس میں انسان کو ہر روز ہی کئی کئی کہانیوں سے واسطہ پڑتا ہے۔ تلخ حقائق پر مبنی جیتی جاگتی کہانیاں۔ شائد یہی وجہ ہے کہ زیر تبصرہ کتاب میں شامل کہانیوں میں بھی سماج کا دکھ، حالات کا کرب اور زندگی کے تلخ حقائق کا عکس صاف دکھائی دیتا ہے۔

یہ تمام کہانیاں محض فکشن نہیں اور نہ ہی ماورائی واقعات کو کہانی کا روپ دیا گیا ہے، یہ ہمارے اردگرد پھیلی ہوئی کہانیاں ہیں جو اس سماج کے بطن سے ہی جنم لیتی ہیں اور دھرتی سے جڑی ہوئی ہیں۔ مخدوم ٹیپو سلمان نے بڑے سادہ اور عام فہم انداز میں انہیں بڑی خوبصورتی کے ساتھ صفحۂ قرطاس پر بکھیرا ہے۔کسی بھی کہانی کا اہم عنصر اس میں تجسس اور پھر اس کا اختتام یا انجام ہوتا ہے۔ ان کہانیوں میں نہ صرف تجسس موجود ہے بلکہ کہانی کا انجام بھی بڑے موٖثر اور دل کش انداز میں ہوتا ہے۔ یوں یہ کہا جا سکتا ہے کہ مصنف اپنے مقصد میں کامیاب رہا ہے۔ ایک بات البتہ بڑی شدت کے ساتھ محسوس کی گئی کہ مصنف نے اپنی تحریر میں ’’ کہ‘‘ اور ’’ کے‘‘ کا جو فرق ہے وہ ملحوظ ِ خاطر نہیں رکھا اور متعدد جگہ پر’’ کے‘‘ کی جگہ ’’ کہ‘‘ لکھ کر تحریر کا مزہ کرکرہ کردیا ہے۔ یہ فاش غلطی ہے جو تحریر کے حسن کو گہنا دینے کا باعث بنتی ہے ایسے کہنہ مشق ادیب کو تحریر کی اس لطیف خامی کو بہر حال دور کرنا چاہیے تاکہ ان کی تحریر سے پیدا ہونے والا مجموعی تاثر زائل نہ ہونے پائے۔

کرب
 شاعر : فخر عباس فخر
 صفحات : 144۔۔۔۔۔۔۔ قیمت : 400/ روپے
 ناشر : ماورا پبلی کیشنز ، لاہور
جس تواتر کے ساتھ نثر کے مقابلے میں غیر معیاری شعری مجموعے مارکیٹ میں دھڑا دھڑ آرہے ہیں اس نے شاعر کے ساتھ شاعری کی بھی مٹی پلید کرکے رکھ دی ہے۔کیونکہ جب مقدار بڑھ جائے تو معیار متاثر ہوتا ہے۔ لوگ اپنے شعری مجموعوں کی کثرت تعداد پر فخر محسوس کرتے ہیں لیکن ان کی شاعری کے حقیقی معیار پر غور کیا جاتا ہے تو شرم آتی ہے ۔کہ ان میں کام کے اشعار گنتی کے ہی مل پاتے ہیں۔ فخر عباس فخر کا معاملہ مگر دوسرا ہے انہوں نے اپنے پہلے شعری مجموعے کے ساتھ جس معیارِ شعری کا اظہار کیا ہے وہ یقینی طور پر ان کے لیے باعث ِ فخر ہو سکتا ہے۔

اس شعری مجموعے میں جس قدر پختہ کلام موجود ہے اس کے پیش نظر اگرچہ کسی بیساکھی کی ضرورت نہیں رہنی چاہیے لیکن اس کے باوجود اس مجموعے میں کتاب کے ناشر خالد شریف کے علاوہ سعید الظفر صدیقی، اسحاق آشفتہ ، ابوالبیان ظہور احمد فاتح ، روف قیصرانی اور سید وقار افضل ایسے اہل قلم اور اہل ذوق کے مضامین ہائے تحسین بھی شامل کیے گئے ہیں جو شاعر کو سند ِ اعتبار عطا کرتے ہیں ۔ ہمارے نوآموز شعرا کو جدید، تازہ کار نغز گو کی شاعری کا مطالعہ بھی ضرور کرنا چاہیے ۔ جس کی ہر غزل ایک مکمل اور کامیاب غزل قراردی جا سکتی ہے۔

میرا دوست نوازشریف
(وزیر خزانہ پنجاب سے وزیراعلیٰ اور
وزارت عظمیٰ سے اڈیالہ جیل تک)
مصنف: ضیا شاہد
صفحات:400، قیمت: 1400 روپے
ناشر: قلم فائونڈیشن
ہماری صحافتی تاریخ کی ابتدا میں جہاں عامل صحافی سے اپنے اخبار کے اجراء تک سفر طے کرنے والے حمید نظامی اور میر خلیل الرحمن جیسی شخصیات موجود ہیں، وہیں اُن کے بعد کے زمانے میں جو نام نمایاں دکھائی دیتے ہیں، ان میں ضیا شاہد کا نام سرفہرست ہے۔ انہوں نے ایک صحافی کے طور پر اپنا کیریئر شروع کیا اور پھر آگے بڑھتے بڑھتے مدیر بنے اور پھر بہت سے نئے اخبارات کی داغ بیل ڈالنے میں کام یاب ہوئے۔ ان کے اخباروں نے صحافت میں جدید اور نئی روایات کی طرحیں ڈالیں۔ آج ضیا شاہد نہ صرف ملک کی ایک میڈیا ایمپائر کے روح رواں ہیں، بلکہ وہ ’اے پی این ایس‘ اور ’سی پی این ای‘ کے بھی نمایاں اور فعال رہنماوں میں شمار کیے جاتے ہیں۔

ضیا شاہد اُن مدیران میں شامل ہیں، جوکالم نگاری میں بھی شہرت رکھتے ہیں۔اُن کی 13 کتابیں شایع ہو چکی ہیں، زیر نظر کتاب اُن کی چودہویں تصنیف ہے۔ بہ ظاہر یہ کتاب سابق وزیراعظم نوازشریف سے نیازمندی کا احوال معلوم ہوتی ہے لیکن نیازمندی کے اس بیان کے ابتدائیے ہی میں ضیا شاہد کہتے ہیں کہ وہ نوازشریف کو اپنا دوست اور بھائی سمجھتے تھے، لیکن بعد میں یہ عقدہ کھلا کہ بزنس مین کی دوستیاں بزنس کے ساتھ بدلتی رہتی ہیں۔ سودا پَٹ جائے تو بزنس مین مڑ کر بھی اُس شخص کی طرف نہیں دیکھتا، جس سے کبھی وعدے وعید کیے ہوتے ہیں۔

ضیا شاہد کہتے ہیں کہ انہوں نے جو کچھ لکھا ہے وہ اللہ کو حاضر ناظر جان کر سچ لکھاہے، اگر کہیں کوئی غلطی ہوئی ہے تو وہ اس کا دوش اپنی یادداشت کو دیتے ہیں، نہ کہ نوازشریف کو۔ چند سطری ابتدائیے کے بعد کتاب کے مندرجات سوا سو کے لگ بھگ چھوٹے چھوٹے حصوں میں بٹے ہوئے ہیں، جس کے دلچسپ متن کی شروعات نوازشریف سے مصنف کی پہلی ملاقات سے ہوتی ہے جس کے بعد ملکی منظرنامے پر پیش آنے والے مختلف واقعات اور ان کے محرکات کا بیان ہے۔ یوں سمجھئے کہ اس کتاب میں واقعات کا آغاز 1980ء کی دہائی سے ہوتا ہے اور یہ گاہے بگاہے اپنے قاری کو مختلف نشیب وفراز سے گزارتا ہوا آج کی تاریخ تک لے کر آتا ہے۔ اس عرصے کا شاید ہی کوئی معروف نام ہو جس کے حوالے سے اس کتاب میں موجود نہ ہوں۔

اس تصنیف میں ہمیں مختلف اخبارات کے اجرا، ان کی اشاعت وطباعت اور ان سے جڑے جملہ صحافتی اور انتظامی امور کی بھی خبر ملتی ہے۔ یعنی یہ تصنیف نوازشریف کے سیاسی سفر کے ساتھ ضیا شاہد کے صحافتی سفر کی تاریخ بھی بیان کرتی ہے۔ آغاز میں مصنف نوازشریف کے حوالے سے رقم طراز ہیں کہ ’’ہمارا جھگڑا کیوں ہوا، کیسے اور کس کس نے اس میں حتیٰ المقدور اپنا حصہ ڈالا یہ کہانی وقت آنے پر بیان کروں گا۔‘‘ کتاب پڑھنے کے بعد قاری شدت سے منتظر ہوتا ہے کہ کب وہ وقت آئے گا اور کب وہ اس اَن کہے باب کا انکشاف کریں گے۔ کتاب دو درجن سے زائد تاریخی تصاویر سے آراستہ ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔