اسکول کھولیے، مگر تعلیم کا لنڈا بازار نہ سجائیے

غفران عباسی  جمعرات 22 نومبر 2018
 وطنِ عزیز میں تعلیم سے بہترکوئی کاروبار نہیں۔ فوٹو: انٹرنیٹ

وطنِ عزیز میں تعلیم سے بہترکوئی کاروبار نہیں۔ فوٹو: انٹرنیٹ

بچپن سے سنتے آئے ہیں ’’دیواروں کے بھی کان ہوتے ہیں‘‘، کاش میری یہ کوشش ان دیواروں تک پہنچے جنہیں پہنچانا مقصود ہے۔ خیال کی نوعیت ایسی ہے کہ جس پر لکھنا قبل ازمرگ واویلا مچانے کے مترادف ہے۔ اب چونکہ رہائش سمندر میں ہے تو مگرمچھوں سے بھی دشمنی ڈالنا ضروری ہے۔ شاید کہنے کو بات رہ جائے لیکن جناب! بوند بوند سے تالاب بھرتا ہے۔ ممکن ہے بھر گیا ہو۔

معذرت کیساتھ، ان لوگوں کے نام جن کو مناسب نام نہیں دیا جا سکتا اور جن کے نام جو شاید کسی نام کے قابل نہیں ہیں۔ خواہ ایک مخصوص گروہ کے نام ہوں یا کاروباری اشخاص کے نام، ان پڑھ ہوں یا تعلیم یافتہ، انتہائی تعلیم یافتہ کاروباریوں کے نام، علم کو کاروبار سمجھ کر پیسے کمانے والوں کے نام، اور ان کے نام جو خوبصورت لبادے اوڑھ کر مقدس شعبہ اپنا کر کاروبار زندہ رکھے ہوئے ہیں؛ اور یوں اپنی دوکانیں چمکا رہے ہیں۔

یہ میری نوعمری تھی جب مرحوم اشفاق احمد نے اپنے ایک اظہارِ خیال سے ہل چل مچا دی تھی۔ انہوں نے کہا تھا پاکستان کو جتنا نقصان پڑھے لکھے لوگوں نے پہنچایا، اتنا تو ان پڑھ لوگوں نے بھی نہیں پہنچایا۔ ہر ذی شعور آدمی یہ سوچنے پر مجبور ہو گیا کہ آخر پڑھے لکھے لوگ کیسے نقصان پہنچا سکتے ہیں، اور وہ بھی پاکستان کو۔

چھوٹی عمر ہونے کی وجہ سے سوچ کا دائرہ نسبتاََ اتنا وسیع نہیں تھا۔ بالآخر بات آئی گئی ہوگئی۔ عصر حاضر میں جب میں اپنے ارد گرد نظر دوڑاتا ہوں تو گلی گلی کوچہ کوچہ اسکولوں کی بھر مار دکھائی دیتی ہے، گھر کم اور اسکول زیادہ دکھائی دیتے ہیں، درس و تدریس بھی جاری ہے۔

لیکن ذرا رکیے!

کیا گلی اورمحلوں میں اسکولوں کی بڑھتی ہو ئی تعداد آپ کو خوفزدہ تو نہیں کر رہی؟

اگر نہیں کر رہی تو آپ اس بارے میں لاعلم ہیں۔ جی ہاں مجھے تشویش لاحق ہے۔ وطنِ عزیز میں تعلیم سے بہترکوئی کاروبار نہیں۔ اگر آپ کہیں بھی ایڈجسٹ نہیں ہو رہے تو درس و تدریس سے منسلک ہو جائیں، پانچ انگلیاں گھی اور سر کڑاہی میں ہوگا۔ بلکہ یوں سمجھ لیجیے کہ کڑاہی ہی آپ کی ہوگی۔ ابھی تھوڑے عرصہ کی ہی تو بات ہے، جب میں اسلام آباد کے نواحی علاقہ میں ایک سرکاری تعلیمی ادارے میں زیرِتعلیم تھا، جب سب لوگ ایک ہی اسکول میں پڑھنے جایا کرتے تھے۔ اب یہ رواج نہیں رہا۔ جدید دور میں انگلش میڈیم کا راج ہے۔ سرکاری اسکول تو نظر بھی نہیں آتے۔ اگر بدقسمتی سے نظر آ جائے تو بچے داخلہ لینے سے انکار کر دیتے ہیں۔

فی زمانہ سرکاری اسکولوں کے حوالے سے عوام کی رائے بھی انتہائی مایوس کن ہے۔ مشورہ کرنے پر جواب کچھ یوں ملتا ہے: اجی چھوڑئیے !! اب سرکاری اسکولوں میں کون پڑھتا ہے۔ اور پھر ہیں بھی اردو میڈیم۔ پرائیویٹ اسکول ہیں اور وہ بھی انگلش میڈیم۔ بچہ انگلش سیکھ ترقی کی منازل ایسے چٹکی میں طے کرکے افسر بنے گا۔ ماں باپ اور ملک کا نام روشن کرے گا۔ بڑا آدمی بنے گا۔

شہرِ علم کے داخلی دروازوں پر قوی ہیکل پہلوان ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں۔ عوام الناس کی لمبی قطاریں مہنگے ٹکٹ خریدنے میں مصروف ہیں، چونکہ ٹکٹ دکھانے پر آپ کو شہر میں داخلے کی اجازت ملے گی۔ ایک اور بات آپ کے گوش گزار کرتا چلوں ایسے پہلوان قائم شدہ اجارہ داری کی وجہ سے مجبوری سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ بنا ٹکٹ آپ کو صرف دور کھڑے ہوکر دیکھنے کی اجازت ہے. یاد رہے صرف دیکھنے کی۔ سکیورٹی انتظامات سخت ہونے کی وجہ سے شہر کی دیواریں اتنی اونچی ہیں کہ پھلانگنا تو دور، آپ تانکا جھانکی بھی نہیں کرسکتے۔ اگرچا لاکی کا مظاہرہ کرتے ہوئے نظر بچا کر چوروں کی طرح داخلی دروازے سے گزرنے میں کامیاب ہو بھی گئے تو مہنگی فیسیں خود بخود آپ کو نکال باہر پھینکیں گی۔ ایسے لوگوں کی وجہ سے علم پیسوں کا محتاج بن گیا ہے۔ پیسوں کی عدم موجودگی میں علم کا حصول ناممکن ہے۔ علم کا گھیرہ سوئی کے نکے کی مانند تنگ دکھائی دیتا ہے۔ لاکھوں کمانے والے تعلیمی ادارے ایک غریب طالبِ علم کی فیس تک معاف نہیں کرتے۔ اگر فیس معافی کی درخواست دے دی جائے تو عذر پیش کرتے ہیں کہ کرایہ، بل، تنخواہیں کیسے دیں گے۔ تعلیم کو کاروبار کے دھارے میں لانا یقیناً تعلیم کیساتھ زیادتی ہے۔

علم پیسوں کا محتاج ہو ہی نہیں سکتا۔ فیس کی بڑھتی ہوئی دوڑ میں مقابلہ بازی ہے۔ ’’سستا روئے بار بار، مہنگا روئے ایک بار‘‘ جگہ جگہ سننے کو ملتا ہے لیکن علم کا سستا اور مہنگا ہونے والا محاورہ سمجھنے سے قاصر ہوں۔ اب سورج کو ہی لے لیجیے۔ روشنی پھیلاتا ہے، یہی اس کا کام ہے، قدرت کے قوانین کے مطابق صرف روشنی کرتا ہے، مہنگی یا سستی کا تصور نہیں۔

پیسے بٹورنے کےلیے نت نئے طریقے نکالے جا چکے ہیں۔ مثال کے طور پر یورنیفارم ہماری ہی دوکان سے خریدیں۔ کتابیں فلاں بک شاپ سے خریدیں۔ اسٹیشنیری بھی دستیاب ہے۔ پورا ہفتہ کلر ویک ( color week) کے نام منایا جاتا ہے، گویا عالمی دن ہو جیسے۔ اور اگر ان سے بھی پیٹ نہ بھرے تو جرمانے کے نہ ختم ہونے والے سلسلے شروع ہو جاتے ہیں۔ چھٹی پر اچھے وقتوں میں اساتذہ سزا دیا کرتے تھے۔ جب سے مار نہیں پیار والا رواج چلا ہے، چھٹیاں چاہے جتنی بھی کرلو، جرمانہ دو اور چل سو چل۔ بروقت فیس جمع نہ کروانے پر بھی جرمانہ۔ تنظیم کی خلاف ورزی کرنے پر بھی جرمانہ۔ حتیٰ کے ہوم ورک نہ کرنے پر بھی جرمانہ۔ بال نہ کٹوانے پر بھی جرمانہ۔ اگر خدا نخوا ستہ طالبِ علم کسی بھی ناگہانی آفت کی و جہ سے اسکول دیر سے پہنچے تب بھی جرمانہ۔

اسکول کی عمارت، فرنیچر یا کسی بھی چیز کو نقصان پہنچانے پر بھی جرمانہ۔ مجھے یاد ہے اپنے دور میں ایک دن کوڑا دان پر پاؤں رکھنے کی وجہ سے پوری جماعت سزا کی حقدار ٹھہری تھی۔ ان دنوں ڈسٹ بین (Dust bin) والا کلچر نہیں ہوتا تھا۔ گھی کے پرانے ڈبوں کو رنگ کر کے اس پر انگلش میں ’’ یوزمی‘‘ (Use me) لکھا جاتا تھا۔ سخت سردی کے اس موسم میں دس سوٹیاں فی کس کے حساب سے حصہ تقسیم کیا گیا تھا۔ غلطی انفرادی تھی لیکن سزا اجتماعی۔ فرق اتنا ہے صاحب، تب اساتذہ کاروباری نہیں تھے۔ علم بکاؤ مال نہیں تھا۔ ان دنوں علم کی سیل نہیں لگتی تھی۔ جب پچاس فیصد کی حیرت انگیز کمی نہیں ہوتی تھی۔ تعلیم اور ترببیت دونوں لازم و ملزوم تھے۔ علم، ادب، احساس عزت و تکریم عام ہوا کرتی تھی۔ اب تربیت تو دور کی بات ہے، بدتمیزی اور بے حیائی کو بھی خاطر میں بھی نہیں لایا جاتا اور انتظامیہ یہ جواز پیش کرتی ہے آخر کاروبار بھی تو چلانا ہے۔

خدارا تعلیم جسیے معتبر اور مقدس شعبے کو ذاتی مفاد کےلیے کاروبار میں نہ گھسیٹیں۔ تعلیم کو لنڈے کا بازار بنانے سے گزیز کریں۔ بحثیت طالبعلم اور عام شہری تعلیم کو عام کرنا چاہتا ہوں۔ ایسے بیمار رجحانات کی وجہ سے تعلیم قبر میں پاؤں لٹکائے بیٹھی ہے جس کا اثر آنے والی نسلیں بھگتیں گی۔ قوم کے مستقبل کو ایسا بناتے جائیں کہ آنے والی نسلیں فخر کریں، نہ کہ شرمندہ ہوں۔ ہر تعلیمی ادارہ ہر جماعت میں پانچ سے سات غریب اور نادار طلباء کو مفت تعلیم فراہم کرے تو حالات دیدنی ہونگے۔ آج تعلیم با آسانی دستیاب ہوگی تو کل یہی لوگ مفت پڑھانے پر اضی ہوں گے۔ جو لوگ رات دن جرمانے بھریں گے، کل کو وہ لوٹ مار کا بازار ہی گرم کریں گے۔

عصرِحاضر میں ایسی خواہش جھونپڑیوں میں رہ کر محلات کے خواب دیکھنے کے مترادف ہے۔

خیر امید خواب اور راہ دونوں دکھلاتی ہے۔ گزارش اتنی ہے کہ دودھ اور چھاچھ میں فرق پہچانیے، بلکہ دودھ کو دودھ اور پانی کو پانی تک ہی محدود رکھیں۔ ملاوٹ کرنے والوں سے خبردار رہیں۔ تعلیمی اداروں کا انتخاب کرتے ہوئے اپنے کان اور آنکھیں کھلی رکھیں۔

 

غفران عباسی

غفران عباسی

بلاگر ایک نجی ادارے میں ملازم ہیں، لکھنے کا شوق رکھتے ہیں اور مختلف موضوعات پر زورِ قلم سے طبع آزمائی کرتے رہتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔