فصیلوں اور برجوں میں ڈھلی تاریخ

ڈاکٹر سید محمد عظیم شاہ بخاری  اتوار 20 جنوری 2019
پاکستان کے مشہور قلعے، جن میں سے کئی تباہی سے دوچار ہیں۔ فوٹو: فائل

پاکستان کے مشہور قلعے، جن میں سے کئی تباہی سے دوچار ہیں۔ فوٹو: فائل

اسلامی جمہوریہ پاکستان کو اللہ تعالیٰ نے بیش بہا نعمتوں سے نوازا ہے۔ پاکستان جس خطے میں واقع ہے یہ کئی پرانی اور نئی تہذیبوں کا گڑھ رہا ہے۔ اس کے محلِ وقوع کے ساتھ ساتھ اس خِطے کی تاریخ بھی نہایت اہمیت کی حامل ہے۔

یہاں سکندرِ اعظم سے لے کر موریہ، کشان، عرب، افغان، مغل اور انگریزوں تک تمام بڑی نسلوں اور قوموں نے حکومت کی ہے۔ اور اس بات میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ ان تمام قوموں کی چھاپ ہمارے ملک کے طرزِتعمیر پر بھی ملتی ہے جن کی زندہ مثال پاکستان کے طول و عرض میں پھیلے بلند و بالا قلعے ہیں جو نہ صرف ہماری تاریخ و ثقافت کا اہم حصہ ہیں بلکہ فخریہ انداز سے اپنے بنانے والوں کے ذوق کی بھی عکاسی کرتے ہیں۔

پاکستان میں کئی معروف اور غیرمعروف قلعے موتیوں کی طرح بکھرے ہوئے ہیں۔ یہ قلعے سیکڑوں سالوں کی تاریخ اپنے اندر سموئے ہوئے ہیں۔ جہاں کچھ قلعے صحرا کی وسعتوں میں گْم ہیں وہیں کچھ بلند و بالا چوٹیوں پر دریا کنارے براجمان ہیں۔ اور کچھ ایسے بھی ہیں جنہیں میوزیم یا جیل کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔ ان میں سے زیادہ تر قلعے عوام کے لیے کھلے ہیں جب کہ کچھ نجی تحویل میں بھی ہیں۔ آئیں ان قلعوں کی تاریخ کا جائزہ لیتے ہیں۔

1۔ شاہی قلعہ، لاہور:یوں تو پاکستان میں بے شمار قلعے ہیں لیکن ان سب میں جو شہرت لاہور کے”شاہی قلعے” کی حصے میں آئی ہے وہ کسی اور قلعے کو نصیب نہ ہو سکی۔ مغل شہنشاہ اکبر کے دور میں بنایا گیا یہ قلعہ آج بھی پرانے لاہور کے شمال مغربی کونے میں آن بان اور شان کے ساتھ ایستادہ ہے۔ کہتے ہیں کہ جب محمود غزنوی نے اس علاقے کو فتح کیا تب اس جگہ ایک مٹی کا قلعہ تھا، جسے بعد میں اکبر بادشاہ نے گرا کر ایک جدید طرز کا شان دار قلعہ تعمیر کروایا۔ اکبر بادشاہ کے بعد آنے والے ہر مغل بادشاہ، یہاں تک کہ سکھوں اور انگریزوں نے بھی قلعے کے اندر مختلف دیواروں، محلوں اور کمروں کا اِضافہ کیا۔ شہنشاہ جہانگیر نے باغات کو توسیع دی اور محل بنوائے، شاہ جہاں نے ’’دیوانِ خاص‘‘ اور ’’موتی مسجد‘‘ کا اِضافہ کیا جب کہ اورنگزیب نے حضوری باغ کی طرف کھلنے والا قلعے کا مرکزی دروازہ بنوایا جو بادشاہی مسجد کے عین سامنے واقع ہے۔ قلعے کے اندر شیش محل، میوزیم، بارہ دری، موتی مسجد، فوارے اور بہت سی قدیم و خوب صورت جگہیں ہیں جہاں صبح سے شام تک عوام کا رش لگا رہتا ہے۔ یہ قلعہ مغل، سکھ اور انگریز تینوں ادوار کی تاریخ کا امین ہے۔ لاہور کی سیر اس قلعے کے بنا ادھوری ہے۔

2- قلعہ دیراوڑ، بہاولپور:پنجاب کے ضلع اور سابقہ ریاست ’’بہاول پور‘‘ میں واقع قلعہ دیراوڑ ڈیرہ نواب صاحب سے 48 کلو میٹر جنوب میں واقع ہے۔ ’’صحرائے چولستان‘‘ کے وسط میں کسی بہت بڑے دیو کی طرح ایستادہ اس عظیم الشان قلعے کے 40 برج میلوں دور سے ہی نظر آجاتے ہیں۔ اس قلعے کو 9 ویں صدی میں جیسلمیر کے ہندو راجپوت حکم راں ’’رائے راجا بھٹی‘‘ نے تعمیر کروایا۔ ابتدا میں اسے ’’ڈیرہ راول‘‘ کے نام سے جانا جاتا تھا جو ’’ڈیرہ راور‘‘ کے بعد ’’دیراوڑ‘‘ بن گیا۔ چاروں طرف ریت مٹی کا صحرا اور جنگل ہے ایسے لگتا ہے جیسے کسی سمندر میں کوئی خوبصورت جہاز ڈوبا ہو۔ اس قلعے کے آس پاس چلتے پھرتے اونٹ آنکھوں کو بہت بھلے محسوس ہوتے ہیں۔ اِنہیں دیکھ کر یوں محسوس ہوتا ہے جیسے انسان کئی سال پیچھے عرب کے علاقوں کی سیر رہا ہو۔ راجستھانی طرز پر بنے اس قلعے کی سب سے اہم خاصیت یہ ہے کہ اس کے تمام 40 برجوں کا ڈیزائن ایک دوسرے سے مختلف ہے۔ اِس کے زیادہ تر برج ابھی تک قائم ہیں جن کے اوپر سیاہ اینٹوں سے اقلیدسی ڈیزائن نہایت خوب صورت ہیں جن سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ برجوں میں وقتاً فوقتاً کب اور کیسے ترمیم اور مرمت کی گئی ہے۔ قلعے کی افقی دیواریں گردا گرد خندق میں سے اٹھتی ہوئی30-32 میٹر اونچی ہیں۔ جنوب مشرق کونے میں پانی کا ایک قدرتی تالاب جسے مقامی زبان میں (ٹوبا) کہتے ہیں۔ قلعے کے اندر ریاست بہاولپور کے سابقہ نوابوں اور انکے خاندانوں کی قبریں ہیں اور انکے مقبروں پر نیلے رنگ کی خوب صورت ٹائیلوں کا کام کیا گیا ہے۔ مقامی باشندوں میں قلعہ دراوڑ کے بارے میں ایک روایت عام ہے جس کا پس منظر یہ ہے کہ روہی (چولستان) کی سرابی کیفیت کے تحت قلعہ کی دیواریں دن میں سات آٹھ بار رنگ بدلتی ہیں۔ بہاولپور ڈیزرٹ جیپ ریلی کے انعقاد سے اس علاقے میں سیاحت کو فروغ ملا ہے اور ہر سال ہزاروں لوگ اس قلعے کو دیکھنے آتے ہیں۔

3- بلتِت فورٹ، ہُنزہ: گلگت بلتستان کی وادیٔ ہنزہ میں کریم آباد کے ایک گاؤں ’’بلتت‘‘ میں واقع بلتت فورٹ، پریوں کی کہانیوں میں موجود خوب صورت قلعوں جیسا منظر پیش کرتا ہے۔ پہاڑ کے اوپر واقع یہ قلعہ کوئی 650 سال پہلے بنایا گیا تھا جسے وقت کے ساتھ ساتھ مرمت کیا گیا۔ 16 ویں صدی میں جب یہاں کے شہزادے نے بلتستان کی شہزادی سے شادی کی تو وہ بلتی ہنرمندوں اور کاری گروں کو اپنے ہمراہ لائی تاکہ وہ اس قلعے کی تزئین و آرائش کر سکیں۔ 1945 میں میرِہنزہ نے اس قلعے کو چھوڑ کر پہاڑ سے نیچے ایک اور قلعہ بنایا اور وہاں منتقل ہو گیا، جس کے بعد قلعے کی حالت خراب ہونا شروع ہوگئی اور اسکے منہدم ہونے کے خدشات بڑھ گئے۔ ہماری بے پرواہی نے اسے یونیسکو کی ’’خطرے میں موجود عمارتوں‘‘ کی فہرست میں لا کھڑا کیا۔ آغا خان ٹرسٹ اور لندن کی ’’رائل جیوگرافیکل سوسائٹی‘‘ کے اشتراک سے اس کی مرمت کا کام شروع کیا گیا جو 1996 میں ختم ہوا اور اس قلعے کو ایک عجائب گھر کی شکل دے دی گئی جسے بلتت ٹرسٹ چلا رہا ہے۔اس قلعے کے لکڑی سے بنے دالانوں سے سورج غروب ہونے کا منظر دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔

4۔ قلعہ بالا حصار، پشاور: افغانستان کے راستے برِصغیر پر حملہ کرنے والے جنگجوؤں سے بچاؤ کے لیے پشاور شہر کے شمال مغرب میں ’’بالا حصار‘‘ کے نام سے ایک قلعہ بنایا گیا جو آج پشاور شہر کی پہچان بن چکا ہے۔ بالا حصار فارسی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی ’’اونچے قلعے‘‘ کے ہیں کیوںکہ یہ ایک بلند چٹان پر واقع ہے۔ اس کو یہ نام درانی سلطنت کے سلطان ’’تیمور شاہ درانی‘‘ نے دیا جو اسے اپنی رہائش گاہ کے طور پر استعمال کرتا تھا۔ یہ قلعہ اتنا پرانا ہے جتنا کہ پشاور شہر، قلعے کی زمین سے مجموعی بلندی 92 فٹ ہے اس کی دیواریں پختہ سرخ اینٹوں سے تعمیر کی گئی ہیں۔ دوہری دیواروں والے اس قلعہ کا کل رقبہ سوا پندرہ ایکڑ رقبہ پر محیط ہے جب کہ اس کا اندرونی رقبہ دس ایکڑ بنتا ہے ایک پختہ سڑک بل کھاتی ہوئی قلعہ کے اندر تک جاتی ہے۔ اس قلعے کو کئی بار مسمار اور تعمیر کیا گیا۔ 2005کے زلزلے نے اسے شدید نقصان پہنچایا، لیکن بعد میں اس کی مرمت کردی گئی۔اس قلعے سے آپ پشاور شہر کے خوب صورت نظاروں کا لطف لے سکتے ہیں۔ آج کل یہ قلعہ ‘’’فرنٹیئرکانسٹیبلری‘‘ کے پاس ہے جس نے نہایت اہتمام سے اس قلعے کو سنبھال رکھا ہے۔ قلعے کے اندر بھی ایک دنیا آباد ہے۔ یہاں اندر ایک خوب صورت آرمی میوزیم‘‘ بنایا گیا ہے جس میں خیبر پختونخواہ میں ہونے والے مختلف آپریشنز کی معلومات، ان سے متعلق اشیاء، مختلف اقسام کی بندوقیں، تصاویر، زیورات، تلواریں اور چھوٹی توپیں بھی رکھی گئی ہیں۔ اسکے ساتھ کیلاش تہذیب کی عکاسی بھی کی گئی ہے۔ قلعے کے اندر ایک گفٹ شاپ اور ’’پشاوری چپل‘‘ کی دکان بھی ہے۔ اس قلعے کو دیکھنے کے لیے آرمی سے خصوصی اجازت نامہ درکار ہوتا ہے۔

5- قلعہ اٹک: مغل شہنشاہ جلال الدین محمد اکبر کا تعمیر کروایا گیا ’’قلعہ اٹک‘‘، اٹک خورد کے مقام پر دریائے سندھ کے کنارے واقع ہے۔ اکبراعظم کو اس قلعہ کی تعمیر کا خیال اس وقت آیا جب وہ اپنے سوتیلے بھائی مرزا حکیم (کابل کا گورنر جس نے پنجاب پر حملہ کر دیا تھا) کو شکست دینے کے بعد کابل سے واپس آ رہا تھا۔ اس وقت اکبر اعظم نے اس علاقے کی دفاعی اہمیت کے پیش نظر قلعہ تعمیر کرنے کا حکم دیا۔ 1812 میں مغلوں کو ہرا کر سکھوں نے اس پر قبضہ کر لیا۔ 1842 تک یہ قلعہ سکھوں کے پاس رہا جس کے بعد 1947 تک یہ انگریز سرکار کے زیرِاستعمال رہا۔ برطانیہ کا وزیراعظم ’’اینتھونی ایڈن‘‘ 1901 میں اسی قلعے میں ایک فوجی کے گھر پیدا ہوا۔اس قلعے کی جو چیز سیاحوں کو اپنی جانب کھینچتی ہے وہ ہیں اس کے خوب صورت دروازے، لمبی اور مضبوط دیوار، ترک طرزِتعمیر کے غسل خانے اور زیرزمین سرنگیں۔ قلعے کے چار دروازے ہیں جن کے نام موری دروازہ، کابلی دروازہ، لاہوری دروازہ اور دہلی دروازہ ہیں۔ نیب اور سپیشل سروسز گروپ کے زیرِانتظام اس قلعے میں بہت سی مشہور و معروف شخصیات نے قید کاٹی ہے جن میں پاکستان کے متعدد سیاسی رہنما اور وزرائے اعظم بھی شامل ہیں۔

6۔ قلعہ میرچاکر، سِبی : سبی شہر کے مغرب میں ’’سبی۔ ہرنائی ریلوے لائن‘‘ کے قریب واقع ایک قلعہ ’’میرچاکر‘‘ کے نام سے منسوب ہے جس میں سردار میر چاکر رند کا مقبرہ بھی موجود ہے۔ میرچاکر کے اس علاقے میں تین قلعے تھے۔ پہلا ’’سوران‘‘، دوسرا ’’بھاگ‘‘ کے قریب ’’گدڑ‘‘ کے مقام پر اور تیسرا سبی قلعہ جو میر چاکر قلعہ کہلاتا ہے، سوران اور بھاگ دونوں قلعے زلزلوں میں منہدم ہو کر کھنڈر کی شکل اختیار کرچکے ہیں، جب کہ قلعہ میر چاکر آج بھی موجود ہے، مگر منہدم ہونے کے قریب ہے۔اس قلعے کی ہر چیز شان دار ہے لیکن اناج کے دو گودام لائقِ توصیف ہیں۔ پہلے گودام کی لمبائی 80 فٹ اور دوسرے کی 70 فٹ ہے، جب کہ ان کی کشادگی 30 فٹ تھی۔ یہ پختہ اینٹوں سے بنائے گئے تھے۔ نچلے حصے میں ایک دروازہ ہوتا تھا جہاں سے بوقت ضرورت اناج نکالا جاتا تھا۔ یہ قلعہ اونٹوں کے قافلوں کے لیے روایتی رہائش گاہ کے طور پر بھی اپنی خدمات سرانجام دیتا رہا ہے۔ یہ قلعہ قبائلی سردار صحبت خان نے تعمیر کروایا تھاآج بھی قلعہ میر چاکر بلوچستان کے تاج میں نگینے کی طرح جڑا ہوا ہے۔

7۔ التِت فورٹ، ہنزہ : ہنزہ کی شاہانہ وجاہت کا عکاس ’’التِت فورٹ‘‘، دریائے ہنزہ کے کنارے بالائی کریم آباد میں واقع ہے۔ التِت قلعے کو ’’میر آف ہنزہ‘‘ نے ہم سایہ ریاست نگر کے ’’میر‘‘ پر اپنی طاقت اور عظمت کی دھاک بٹھانے کے لیے تعمیر کروایا تھا۔ اور تقریباً 11 ویں صدی سے یہ اسی طرح ’’قراقرم‘‘ کے پہاڑوں پر شان و شوکت سے براجمان ہے۔ اس قلعے کی ایک اہم بات یہ ہے کہ اس نے نہ صرف کئی بیرونی حملوں کا مقابلہ کیا بلکہ یہ زلزلوں میں بھی اپنی جگہ سے ایک انچ نہ سرکا۔ التیت قلعہ اور خاص طور پر قلعے کا ’’شکاری ٹاور‘‘ تقریباً 900 سال پرانی جگہیں ہیں، یوں یہ گلگت بلتستان میں سب سے قدیم یادگار ہے۔پاکستان کے دوسرے قلعوں کی طرح التِت فورٹ بھی ٹوٹ پھوٹ کا شکار تھا لیکن حال ہی میں ’’آغا خان ٹرسٹ برائے تاریخ و ثقافت‘‘ نے اسے حکومتِ ناروے کی مدد سے بحال کیا ہے۔ اس میں لکڑی کے چھوٹے کمرے اور حصے ہیں جن پر عمدہ کشیدہ کاری کی گئی ہے۔ جاپان نے یہاں پرانے گاؤں اور ارد گرد کی ترقی اور تزئین و آرائش میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ التیت قلعہ 2007 سے عوام کے لیے کھلا ہے۔

8- قلعہ روہتاس، جہلم:ضلع جہلم کی تحصیل دینہ میں واقع ’’شیر شاہ سوری‘‘ کا تعمیر کردہ قلعہ روہتاس 948ھ میں مکمل ہوا، جو سطح مرتفع پوٹھوہار اور کوہستانِ نمک کی سرزمین کے وسط میں تعمیر کیا گیا ہے۔ اس کے ایک طرف نالہ کس، دوسری طرف نالہ گھان اور تیسری طرف گہری کھائیاں اور گھنا جنگل ہے۔ شیر شاہ سوری نے یہ قلعہ گکھڑوں کی سرکوبی کے لیے تعمیر کرایا تھا۔ گکھڑ مغلوں کو کمک اور بروقت امداد دیتے تھے، جو شیر شاہ سوری کو کسی طور گوارا نہیں تھا۔ جب یہ قلعہ کسی حد تک مکمل ہوگیا تو شیر شاہ سوری نے کہا کہ آج میں نے گکھڑوں کی پیٹھ میں چھرا گھونپ دیا ہے۔ اس قلعے کے عین سامنے شیر شاہ سوری کی بنائی ہوئی جرنیلی سڑک گزرتی تھی، جو اب یہاں سے پانچ کلو میٹر دور جاچکی ہے۔ دوسرے قلعوں سے ہٹ کر قلعہ روہتاس کی تعمیر چھوٹی اینٹ کی بجائے دیو ہیکل پتھروں سے کی گئی ہے۔ ان بڑے بڑے پتھروں کو بلندیوں پر نصب دیکھ کر عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ ایک روایت کے مطابق اس قلعے کی تعمیر میں عام مزدوروں کے علاوہ بے شمار بزرگانِ دین نے بھی اپنی جسمانی اور روحانی قوتوں سمیت حصہ لیا۔ ان روایات کو اس امر سے بھی تقویت ملتی ہے کہ قلعے کے ہر دروازے کے ساتھ کسی نہ کسی بزرگ کا مقبرہ موجود ہے، جب کہ قلعہ کے اندر بھی جگہ جگہ بزرگوں کے مقابر پھیلے ہوئے ہیں۔ قلعے کے بارہ دروازے ہیں، جن کی تعمیر جنگی حکمت علمی کو مدنظر رکھ کر کی گئی تھی۔ قلعہ روہتاس کا سب سے قابلِ دید، عالی شان اور ناقابلِ شکست حصہ اس کی فصیل ہے۔ اس پر 68 برج، 184 برجیاں، 6881 کنگرے اور 8556 سیڑھیاں ہیں، جو فنِ تعمیر کا نادر نمونہ ہیں۔ اس کے برج صرف فصیل کی خوب صورتی ہی میں اضافہ نہیں کرتے بلکہ یہ قلعے کے مضبوط ترین دفاعی حصار میں بھی اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ قلعے کے اندر شاہی مسجد، حویلی مان سنگھ، رانی محل، تالاب، کنوئیں، پھانسی گھاٹ، عجائب گھر اور ایک لنگرخانہ بھی ہے۔یہ قلعہ اپنی طرزِتعمیر کی بدولت اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے یونیسکو کے عالمی ثقافتی ورثے میں شامل مقامات میں سے ایک ہے۔

9۔ قلعہ رانی کوٹ، جامشورو: دنیا کا سب سے بڑا قلعہ رانی کوٹ، جسے ’’عظیم دیوارِسندھ‘‘ بھی کہا جاتا ہے، ضلع جامشورو کے علاقے ’’سَن‘‘ سے 30 کلومیٹر جنوب مغرب میں ’’کوہِ کیرتھر‘‘ کی بے آب و گیاہ سرزمین پربنایا گیا ہے۔ چونے کے پتھر کی چٹان پر بنے اس قلعے کے 4 دروازے ہیں۔ اس قلعے کی تعمیر کے بارے میں بہت سی قیاس آرائیاں ہیں مگر یہ بات یقین سے نہیں کہی جاسکتی کہ قلعہ رانی کوٹ کی بنیاد کس نے اور کب رکھی تھی اور کس دشمن سے بچنے کے لیے رکھی تھی، تاہم محکمۂ آثارِ قدیمہ کی کھدائی کے دوران ملنے والے اشارات سے پتا چلتا ہے کہ یہ دو ہزار سال سے بھی بہت پہلے تعمیر کیا گیا تھا، مگر حیرانی کی بات یہ ہے کہ اس قلعے کا ذکر تاریخ میں صرف اس وقت سے ملتا ہے جب میرپورخاص کے میر ’’شیر محمد تالپور‘‘ نے اٹھارویں صدی میں اس قلعے کی مرمت کروائی۔ 10 میٹر تک بلند اس قلعے کی دیواریں جپسم اور چونے کے پتھر سے بنائی گئی ہیں۔ یہ قلعہ بھی یونیسکو کے ’’عالمی ثقافتی ورثے‘‘ کی لسٹ میں اپنا نام درج کروانے میں کام یاب ٹھہرا ہے۔

10- قلعہ جمرود، خیببر: قبائلی علاقہ جات میں درہ خیبر کے قریب واقع قلعہ جمرود، پشاور شہر سے 18 کلومیٹر کی دوری پر ہے۔ قلعے میں جانے کے لیے نہ صرف سیاحوں بلکہ مقامیوں کو بھی اجازت نامہ درکار ہے۔ 1836 میں جمرود فتح کرنے کے بعد سکھوں کے جنرل ’’سردارہری سنگھ نالوا‘‘ نے 54 دنوں کے اندر یہ قلعہ تعمیر کروایا تھا۔

1837 میں ہری سنگھ نالوا نے رنجیت سنگھ کے پوتے کی شادی کے جشن کے لیے اپنی فوج لاہور بھیج دی۔ یہ بات جب کابل کے امیر ’’اکبرخان‘‘ کے علم میں آئی تو اس نے موقع کا فائدہ اْٹھاتے ہوئے جمرود پر حملہ کردیا۔ افغانیوں اور سکھوں کے درمیان اس لڑائی میں ہری سنگھ کو بھاری نقصان اٹھانا پڑا اور وہ اپنی جان کی بازی بھی ہار گیا۔ ہری سنگھ نے زندگی کے آخری ایام اسی قلعے میں گزارے اور یہیں اس کی موت واقع ہوئی۔ہری سنگھ کی قبر بھی قلعے کے اندر ہی ہے۔ آج کل یہ قلعہ فوج کی زیرِنگرانی ہے۔

11۔ قلعہ روات، راولپنڈی: راولپنڈی سے مشرق کی طرف جرنیلی سڑک پر سفر کرتے ہوئے سترہ کلومیٹر کے فاصلہ پر ایک گاؤں آتا ہے جسے ’’روات‘‘ کہتے ہیں۔ اس گاؤں سے ذرا آگے ایک شان دار تاریخی قلعہ آ اتا ہے یہ ’’قلعہ روات‘‘ ہے۔ گاؤں کا نام بھی اسی مناسبت سے ہے۔ اس کا طرزِتعمیر اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ یہ قلعہ نما سرائے پندرہویں صدی کے اوائل میں سلاطین دہلی کے زمانے میں تعمیر ہوئی تھی لیکن اس قلعے کو سلطان محمود غزنوی کے بیٹے مسعود کے ساتھ منسوب کیا جاتا ہے۔قلعہ تقریباً مربع شکل میں ہے اور اس کے دو بڑے دروازے ہیں اور ایک مسجد کے تین بڑے کمرے گنبد کی شکل میں نظر آتے ہیں اور یہ تقریباً بہتر حالت میں ہے۔ اس کی فصیل کے ساتھ ساتھ بہت سے چھوٹے چھوٹے کمرے بنے ہوئے ہیں جو دفاعی لحاظ سے اہمیت کے حامل ہیں قلعہ کے مرکز میں کئی قبریں ہیں۔قیام پاکستان کے بعد قلعہ کو محکمۂ اوقاف کی نگرانی میں دے دیا گیا اور اس کا نام شاہی قلعہ رکھ دیا گیا جس میں ایک مسجد بھی واقع ہے جو آج بھی آباد ہے اور قدیم دور کی یاد دلاتی ہے۔

12۔ شگرکا قلعہ، اسکردو : اسکردو شہر سے چند میل کے فاصلے پر ’’دریائے شِگر‘‘ بہتا ہے جس کے کنارے لکڑی اور پتھر کا ایک خوب صورت شاہکار ’’شگر فورٹ‘‘ کے نام سے براجمان ہے۔ قلعہ شگر جسے مقامی بلتی زبان میں ’’فونگ گھر‘‘ بھی کہا جاتا ہے، وادیٔ شگر میں واقع ایک قدیم قلعہ ہے جو 17ویں صدی میں اماچہ خاندان (مقامی راجا ) نے تعمیر کیا تھا۔ اس خاندان نے شگر پر 33 نسلوں تک حکمرانی کی تھی۔ آج فونگ گھر اماچہ خاندان کا بنایا ہوا اکلوتا ’’زندہ شاہ کار‘‘ ہے۔کشمیر سے لائے گئے کاری گروں کا بنایا ہوا یہ قلعہ کشمیری اور بلتی طرزِتعمیر کا بے مثال نمونہ ہے اور اس کی یہی خاصیت اسے باقیوں سے ممتاز رکھتی ہے۔قلعے کے اندر ایک خوب صورت مسجد، اماچہ گارڈن اور بارہ دری ہے۔ قدرتی حسن اور طرز تعمیر میں اس کا کوئی ثانی نہیں، عقب میں تیزی سے بہتا دریائے شِگر اس قلعہ نما محل کی خوب صورتی میں مزید اضافہ کرتا ہے۔ یہاں تہ خانے میں موجود لکڑی اور پتھر کا خوب صورت کیفے ٹیریا، پرانے طرزتعمیر کے کمرے، بڑے بڑے پتھر ، پرانے زمانے کے برتن، اور صندوقوں کو دیکھ کر کچھ لمحے کے لیے انسان ورطہ حیرت میں چلا جاتا ہے۔آغا خان فاؤنڈیشن نے پانچ سال تک اس کی تزئین و آرائش کرنے کے بعد اسے ہوٹل میں تبدیل کر دیا ہے۔ اس قلعے کے کچھ حصے ’’عجائب گھر‘‘ کے طور پر عوام کے لیے کھلے ہیں۔

13۔ قلعہ نندنہ، چوآسیدن شاہ: قلعہ نندنہ جہلم کی تحصیل چوآسیدن شاہ سے 12 میل مشرق کی طرف واقع ہے۔ چوآسیدن شاہ سے ایک تنگ پتھریلا راستہ قلعہ نندنہ کے آثار تک لے جاتا ہے۔ قلعہ نندنہ دسویں صدی عیسوی کی تعمیر ہے۔ اس میں ایک شہر اور مندر کے آثار ہیں۔ اس پر ہندو شاہی سلسلے کے راجا گیارہویں صدی تک حکمران رہے جنہیں محمود نے یہاں سے مار بھگایا۔ اس کے اندر ہندو شاہی راجا انند پال کے بیٹے ’’جے پال‘‘ نے شیو کا مندر تعمیر کرایا تھا۔ سنسکرت میں نندنہ کا مطلب ’’بیٹا‘‘ ہے اس قلعے کا نام اِندر دیوتا کے دیومالائی باغ کے نام پر رکھا گیا ہے۔ابو ریحان البیرونی نے اسی مقام پر کھڑے ہوکر ایک چھڑی کے ذریعے پورے کرۂ ارض کا قطر ناپا تھا جس میں موجودہ قطر سے 43 فٹ کا فرق نکلا ہے۔

14۔ کوٹ ڈیجی قلعہ، خیرپور: کوٹ ڈیجی کے آثار قدیمہ صوبہ سندھ میں قومی شاہراہ کے کنارے خیرپور شہر سے جنوب کی طرف پندرہ میل کے فاصلے پر واقع ہیں۔ اس مدفون شہر کے دو حصے ہیں۔ ایک حصہ قلعہ کے اندر ہے ، جس میں حکمران طبقات رہتے تھے جبکہ دوسرا حصہ قلعہ کے باہر ہے جس میں دست کار لوگ رہتے تھے۔ کوٹ ڈیجی کی کھدائی میں آبادی کی کل سولہ تہیں ملی ہیں۔ سب سے اوپر کی تین سطحیں وادی سندھ کی نمائندہ ہیں۔۔ جب کہ سطح 4 سے لے کر سولہ تک جو سب سے نیچے ہیں قبل از سندھ تہذیب کے آثار ملے ہیں۔ اس قدیم دور میں ایک قلعہ بھی ملا ہے۔ جس میں طویل عرصے تک ایک منظم عمدگی سے ترتیب دیا ہوا شہر آباد رہا ہے۔روہڑی ہلز کے دامن میں واقع یہ قلعہ 1790 میں تالپور خاندان کے حکم راں ’’میر سہراب‘‘ نے بنوایا تھا۔

15- قلعہ رام کوٹ، میرپور: آزاد کشمیر اور پنجاب کی سرحد پر منگلا ڈیم واقع ہے جسکی خوبصورت سی منگلا جھیل نے ایک گمنام قلعے کو گھیرے میں لے رکھا ہے، یہ قلعہ ’’رام کوٹ‘‘ ہے۔قلعہ رام کوٹ جہلم اور پونچھ ، دو دریاؤں کے سنگم پر ایک اونچی پہاڑی پر قائم ہے، جو تین اطراف سے پانیوں میں گھرا ہے۔ منفرد طرزِتعمیر کی بنا پر رام کوٹ قلعہ کشمیر میں تعمیر کیے گئے باقی قلعوں سے کافی مختلف ہے۔ یہ قلعہ انیسویں صدی میں کشمیر کے ڈوگرا مہاراجا کے زیرِتسلط تھا اور ایک قدیم ہندو شیو مندر پر بنایا گیا تھا۔ مظفرآباد کے سے ملتا جلتا طرزِ تعمیر والا یہ قلعہ شاید اسی دور میں تعمیر کیا گیا تھا۔قلعے تک پہنچنے کے لیے آپ کو منگلا ڈیم پر واٹر اسپورٹس کلب سے ایک کشتی میں بیٹھنا ہوگا، اور تقریباً 10 منٹ کے سفر کے بعد آپ جھیل کے شمالی حصے میں پہنچ جائیں گے۔ یہاں آپ کو ایک پہاڑی کی چوٹی پر ایک عظیم الشان قلعہ دکھائی دے گا۔ ماضی میں اس پیچیدہ محلِ وقوع نے اسے بہت فوائد دیئے ہوں گے ، لیکن آج کل یہی محلِ وقوع اس کی علیحدگی اور تنہائی کی وجہ بن گیا ہے۔ یہاں سیاحوں کا رش نہ ہونے کے برابر ہے۔

16- قلعہ کہنہ، ملتان : برِصغیر کے قدیم ترین شہر ملتان کی نشانی قلعہ کہنہ، اپنی طرزتعمیر کے حوالے سے دفاعی لائحہ عمل کا ایک جیتا جاگتا شاہ کار ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ملتان کا یہ قلعہ ایک اونچے ٹیلے پر کچی مٹی سے بنا ہوا تھا، جب سکندر اعظم ملتان آیا تو اس وقت قلعہ کچی مٹی سے ہی بنا ہوا تھا لیکن دفاعی لحاظ سے یہ اُس وقت بھی ایک مضبوط قلعہ تھا اور سکندراعظم کی فاتح عالم سپاہ بھی اسے آسانی سے فتح نہیں کر سکی تھیں۔ یہ قلعہ آج تک اولیاء کے شہر کے تاریخی، مذہبی، روحانی اور ثقافتی ورثے کی بھی علامت ہے۔ یہ قلعہ اپنے اندر موجود دفاعی صلاحیتوں کے ساتھ ساتھ طرزِتعمیر میں بھی اپنی مثال آپ تھا۔ ایک اندازے کے مطابق، اس قلعے کی دیواریں تقریباً 40 سے 70 فٹ (21 میٹر) اونچی اور 6،800 فٹ (2 کلومیٹر) کے علاقے کا گھیراؤ کرتی تھیں۔ اس کی دیواریں برج دار تھیں اور اس کی ہر داخلی دروازے کے پہلو میں حفاظتی مینارے تعمیر کیے گئے تھے۔ اس قلعہ کے چار داخلی دروازے تھے، جن میں قاسمی، سکی، حریری اور خضری دروازے شامل ہیں۔ قلعے کی حفاظت کے لیے اس کے ارد گرد 26 فٹ گہری اور 40 فٹ چوڑی خندق بھی کھودی گئی تھی، جو بیرونی حملہ آوروں کو روکنے میں مددگار ثابت رہتی تھی۔ قلعہ کی بیرونی فصیلوں کے حصار میں اندر کی جانب ایک مورچہ نما چھوٹا قلعہ تعمیر کیا گیا تھا، جس کے پہلو میں 30 حفاظتی مینار، ایک مسجد، ہندوؤں کا مندر اور خوانین کے محل تعمیر کیے گئے تھے۔ 1818ء میں رنجیت سنگھ کی افواج کے حملے میں اندرونی چھوٹے قلعے کو شدید نقصان پہنچا۔ اِس تاریخی قلعے پر ہزاروں جنگیں ہوئیں سو یہ پورا قلعہ انسانی ڈھانچوں کا مدفن ہے، جہاں ہر جنگ کے بعد مقتولین کی لاشوں کو گڑھوں میں اجتماعی طور پر دفن کیا جاتا رہا ہے۔ یہاں قیامِ پاکستان سے پہلے غاروں اور کھنڈروں سے انسانی ڈھا نچے برآمد ہوا کرتے تھے۔اس قلعے کو ’’کاٹوچ گڑھ‘‘ بھی کہا جاتا تھا، جو کاٹوچوں یعنی راجپوتوں کی شہنشاہی کے دوران میں تعمیر کیا گیا تھا۔

17- قلعہ چترال، چترال: چترال شہر میں ہندوکش کے پہاڑوں کے درمیان، دریائے چترال کے کنارے واقع یہ دل کش قلعہ ”راجا نادر شاہ” نے 14 صدی میں بنوایا تھا۔ اِس کی بیرونی دیواریں 250 سال پرانی جبکہ یہ قلعہ خود 100 سال پُرانا ہے۔ ماضی میں یہ قلعہ مہترِ چترال کے سپاہیوں کی بیرک کے طور پر بھی استعمال ہوتا رہا ہے۔1969 میں ریاست کے پاکستان میں ضم ہونے کے بعد اس قلعے کو ریاستِ چترال کے آخری حکم راں خاندان کی ذاتی ملکیت میں دے دیا گیا۔ قلعے کے اندر شاہی دربار، رہائشی کمرے، مہمان خانہ اور مسجد بھی واقع ہے لیکن اِس کا مرکزی حسن جو دیکھنے والے کو شدت سے اپنی جانب کھینچتا ہے، صرف بارہ دری کی بدولت ہے جو سنگِ مرمر سے بنائی گئی ہے۔ اُس دور کی نادِر اشیاء اور مہترِ چترال کی خاندانی تصاویر کو سلیقے سے محفوظ رکھا گیا ہے۔ اس قلعے کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ آپ یہاں سے ہندوکش کی بلند ترین چوٹی ’’ترچ میر‘‘ کا نظارہ بھی کر سکتے ہیں۔چترال قلعہ اب ناصر الملک کی زیرِنگرانی ہے جنہوں نے 2005 کے زلزلے کے بعد دوبارہ اسکی تزئین و آرائش کروائی ہے۔ عوام کو یہ جگہ دیکھنے کے لیے خصوصی اجازت نامہ درکار ہے۔

18 – قلعہ خپلو، اسکردو: بلتستان کے سب سے بڑے شہر اسکردو سے مشرق کی طرف نکل جائیں تو ضلع گھانچھے کا صدر مقام خپلو، تمام تر خوب صورتی کے ساتھ آپ کا استقبال کرتا ہے۔ دریائے شیوک کے کنارے واقع اس شہر کی پہچان خپلو پیلس اور فورٹ ہے۔خپلو پیلس جسے مقامی زبان بلتی میں ’’تھوقسی کھر‘‘ کہا جاتا ہے خپلو کے قلعے میں ہی واقع ہے۔ 2600 سطحِ سمندر سے میٹر بلند خپلو کے راجا کی یہ شاہی رہائش گاہ 19 ویں صدی کے وسط میں تعمیر کی گئی تھی۔قراقرم کے پہاڑوں کے درمیان واقع یہ قلعہ اور اس سے منسلک محل کشمیری اور بلتی کاری گروں نے مل کہ بنایا تھا۔ سفید رنگ سے نہائی یہ پری صورت عمارت تبتی، لداخی، بلتی اور کشمیری طرزِتعمیر کا دل کش امتزاج ہے جسے 2013 میں اقوامِ متحدہ کے ذیلی ادارے یونیسکو کی طرف سے ’’ایشیا بحرالکاہل کا خوب صورت قومی ورثہ ایوارڈ‘‘ سے بھی نوازا گیا تھا۔2005 سے 2011 کے درمیان آغا خان فاؤنڈیشن نے اسکی تزئین و آرائش کرکے اس کے کچھ حِصوں کو عوام کے لیے کھول دیا ہے۔ دیارِدل نامی مشہور ڈراما سیریل کی شوٹنگ بھی یہیں کی گئی ہے۔

19 – لال قلعہ، مظفر آباد : نہیں جناب، یہ دہلی والا لال قلعہ نہیں بلکہ ہمارے کشمیر والا لال قلعہ ہے۔ مظفر آباد میں دریائے نیلم کے کنارے واقع لال قلعہ، کشمیر کے حکم راں چک خاندان نے مغلوں کے حملے سے بچاؤ کی غرض سے 1549 میں شروع کروایا تھا۔ لیکن اس کی تکمیل مظفر آباد شہر کے بانی ’’سلطان مظفرخان‘‘ کے دورِحکومت میں سنہ 1646 میں ہوئی۔ ڈوگرہ سکھ حکم رانوں مہاراجا گلاب سنگھ اور رنبیر سنگھ کے دور میں سیاسی اور فوجی مقاصد کے تحت قلعے میں توسیع کروائی گئی۔ لال قلعہ میں کئی قید خانے بھی ہیں جو متعدد کال کوٹھڑیوں پر مشتمل ہیں۔قلعے کے شمالی حصے میں کئی زیرِزمین کمرے ایسے تھے جن کے بارے میں صرف چند مقامی لوگ ہی جانتے تھے۔ مظفر آباد میں دریائے نیلم کے کنارے صدیوں سے کھڑا یہ لال قلعہ قدرتی آفات اور انتظامیہ کی عدم توجہی کے باعث دھیرے دھیرے ختم ہو رہا ہے جب کہ 2005 میں آنے والے زلزلے نے بھی اسے کافی نقصان پہنچایا ہے۔

20- قلعہ عمر کوٹ، عمرکوٹ: سندھ کے ضلع عمرکوٹ کی وجہ شہرت تو اس دھرتی پہ مغل شہنشاہ اکبر کی پیدائش اور عمر ماروی کی داستان ہے مگر عمرکوٹ یا اَمر کوٹ کا تاریخی قلعہ یہاں کی ہمیشہ پہچان رہا ہے۔ شہنشاہ اکبر کی جائے پیدائش یہ قلعہ11 ویں صدی میں رانا اَمر سنگھ نے تعمیر کروایا تھا۔ پاکستان بننے سے پہلے یہ قلعہ عمر کوٹ کی رانا برادری کی جاگیر تھا جسے بعد میں حکومتِ پاکستان نے اپنی تحویل میں لے لیا۔ اِس قلعے کی بلند دیواریں زمین بوس ہو رہی ہیں جب کہ قلعے کے اندر صدیوں پرانی تعمیرات بھِی مٹی کا ڈھیر بن چکی ہیں ایک اونچا چبوترا اور توپ موجود ہے مگر وہ بھی اپنی اصل ہیئت کھو تے جا رہے ہیں۔ مغلیہ ادوار کی تصاویر، تحریریں، قدیم مورتیاں اور دیگر نسخے بھی زمانے کی دست برد کا شکار دکھائی دیتے ہیں۔

21- قلعہ مئو مبارک، رحیم یارخان: جنوبی پنجاب بالخصوص چولستان اور اس سے ملحقہ علاقے ہڑپہ اور موہنجودڑو کی قدیم ترین تہذیبوں کے عین وسط میں واقع ہونے کی وجہ سے تاریخی اور اہم تہذیبوں کے امین رہے ہیں۔ ان علاقوں میں بادشاہوں، راجوں اور نوابوں کے بنائے کئی عظیم الشان قلعے موجود ہیں جن میں سے ایک قلعہ ’’مئو مبارک‘‘ ہے جس کی باقیات آج بھی رحیم یار خان شہر سے 10 کلومیٹر شمال میں موجود ہیں۔قلعہ مئو مبارک ان 6 قلعوں میں سے ایک ہے جو ’’رائے ساہرس ‘‘ نے 498 سے 632 کے درمیان بنائے۔ بعض روایات کے مطابق یہ قلعہ 5000 سال قدیم ہے۔ ساہرس کے بنائے تمام قلعوں میں یہ وہ واحد قلعہ ہے جو تاریخ سے لڑ کر اپنا وجود قائم رکھنے میں کام یاب رہا ہے۔ تاریخ کی کتابیں اس قلعے کی مستند معلومات کے حوالے سے خاموش ہیں۔ اس قلعے کے بارے میں جو معلومات آج ہم تک پہنچی ہیں وہ یہاں کے باسیوں کے ذریعے سینہ بہ سینہ منتقل ہوتی رہی ہیں۔آم کے گھنے اور تاحدِ نگاہ پھیلے باغات کے درمیان ایستادہ یہ قلعہ تقریباً 549 میٹر کی فصیل پر محیط تھا جس کے 20 مینار اور برج تھے۔ قلعے کے وسیع و عریض ڈھانچے کو مٹی سے بھرا گیا تھا جب کہ پُختہ اور موٹی اینٹوں سے بنی اس کی دیواریں انتہائی مضبوط اور چوڑی تھیں۔ آج بھی کہیں کہیں قلعے کی فصیل اپنی اصل حالت میں محفوظ ہے۔ اس قلعے کے متعلق مقامی افراد میں بہت سی کہانیاں اور روایتیں مشہور ہیں۔ یہاں موجود ایک بڑے اور پُراسرار پتھر کے بارے میں یہاں کے لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ پتھر جنات کا وزن کرنے کے لیے استعمال ہوتا تھا. ایک وقت تھا کہ اس کا وزن 5 ٹن ہوا کرتا تھا. وقت گزرنے کے ساتھ اب اسکا وزن 1 ٹن رہ گیا ہے۔ اس پر مختلف نشانات بھی ہیں۔یہ قلعہ ہماری شان دار ثقافت کا اہم حِصہ ہے جو آج بھی کھنڈرات کی شکل میں حکم رانوں کی نظرِ کرم کا منتظر ہے۔

22- سیالکوٹ فورٹ، سیالکوٹ: سیالکوٹ کا قلعہ پاکستان کے پرانے ترین اور تاریخی قلعوں میں سے ایک ہے۔ یہ قلعہ دوسری صدی میں ہندو بادشاہ ’’راجہ سلوان‘‘ نے تعمیر کروایا اور اسی شہر کی مناسبت سے سیالکوٹ کا نام دیا۔ اس قلعے کو دس ہزار مزدوروں نے دو سال میں تعمیر کیا۔ اس کی تعمیر لکڑی کے پٹھوں، کنکریوں اور اینٹوں سے کی گئی اور یہ سارا سامان بھارت کے شہر پٹھان کوٹ سے منگوایا گیا۔1179ء سے 1186ء تک یہ غوریوں کے قبضے میں رہا پھر 1187ء میں ہندوؤں نے دوبارہ اسے غوریوں سے فتح کرلیا۔ کہتے ہیں کہ یہ قلعہ دو ہزار سال پرانا ہے۔ یعنی یہ قلعہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے دور میں بنایا گیا تھا۔

قلعے تو ہمارے پاس بہت ہیں لیکن ان کی مناسب دیکھ بھال کا کوئی خاص اہتمام نہ ہونے کی بدولت ان میں سے بیشتر اب کھنڈرات کی شکل اختیار کرتے جا رہے ہیں۔ کچھ قلعوں کو زلزلے اور سیلابوں سے شدید نقصان پہنچا۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ان کو فوراً مرمت کروا کر محفوظ کیا جاتا لیکن ایسا نہیں کیا گیا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔