خدارا … اب بس بھی کریں

شہلا اعجاز  جمعـء 1 فروری 2019

تازہ ترین خبروں اور تجزیوں کیلئے سبسکرائب کریں

سانحہ ساہیوال پر عقل حیران اور دل خون کے آنسو رو رہا تھا، یہ ایک عجیب سا واقعہ تھا جوگزرگیا لیکن جن افراد سے یہ سرزد ہوا ان کے حوالے سے یہ ضرور جڑا تھا کہ وہ دہشتگردی سے نبرد آزما ہونے اور بہت کچھ کرگزرنے کی صلاحیت رکھتے تھے۔ ان کے پاس اسلحہ کسی سے چھین جھپٹ کر تھمایا ہوا نہیں تھا بلکہ اسے سنبھالنے کے لیے انھوں نے کئی امتحانات پاس کیے ہوں گے ، اپنی اہلیت اور قابلیت کو منوانے اور اپنے جیسے بہت سے نوجوانوں کو شکست دے کر اس عہدے تک پہنچے تھے، ہمیں ان کی اہلیت پر کوئی شک نہیں البتہ ایسا کیسے ہوا؟ کیوں ہوا؟ کس آزمائش مشقی کے تحت ہوا؟ سوالات تو ابھرتے ہی ہیں کہ یقینا ایسا نہیں ہونا چاہیے تھا۔

پوری قوم اس سانحے کے حوالے سے افسردہ ہے، نیوز چینلز چیخ رہے تھے صدائیں ابھر رہی تھیں، حکومت اس ایشو کو سنبھالتے سنبھالتے بار بار گڑبڑا رہی تھی کہ کرنے والے توکرکے گزر گئے لیکن جواب دینے والوں کو تو سامنا کرنا ہی پڑتا ہے۔ یہ سب حفاظتی ادارے ہیں جو ہم سب کی رکھوالی کے لیے سرگرداں رہتے ہیں ۔ اس تمام عمل میں شفافیت کا عنصر واضح ہونا چاہیے، رابطوں کو فوری اور تیز تر ہونا چاہیے تاکہ اصل مقام پرکارکردگی دکھانے والوں کو کسی غلط فہمی میں الجھ کر کسی بڑے سانحے کو رونما کرنے کی اذیت میں مبتلا نہ ہونا پڑے ۔

اس لیے کہ ہمارے یہاں لکیر کے فقیر والی بات پتھر پر لکیر کی مانند ہوتی ہے کہ افسر اعلیٰ نے کہہ دیا تو اوکے یا دو تین متفق ہیں تو درست ہے۔ جب کہ اصل مقام پر جو درست نظر آتا ہے وہ غلط بھی تو ہوسکتا ہے جیسے ساہیوال کے اس سانحے میں ہوا کیونکہ فیصلے کا اختیار توکسی اور نے دیا اور اسے مکمل کرنے میں جس حماقت بھری مستعدی کا مظاہرہ کیا گیا جس نے پورے ملک کے انتظامی اداروں پر سوالیہ نشان چھوڑ دیے۔

جو کچھ ہو چکا ہے اس پر بہت کچھ کہا اور لکھا جاچکا ہے لیکن بات قانون کی پاسداری کرنے والے اداروں کی تھی ہم بحیثیت قوم کس قدر سفاک ہوچکے ہیں اور اپنے مقام سے کس حد تک گر چکے ہیں کہ جسے جو مقام ملا اس پر اکڑ کر یوں کھڑا ہوگیا کہ جیسے بہت بڑا فاتح اور حاتم طائی ہے کہ جس کے پاس اختیارات بے بھاؤ کے ہیں کیونکہ وہ کچھ ہے اس کچھ کے ساتھ سنگدلی کی داستانیں جڑی ہیں جو ہم اور آپ اکثر دیکھتے ہی رہتے ہیں کہ امرود توڑنے پر چوہدری صاحب نے کمی کی خوب کٹائی لگوائی کیونکہ اس کمی نے مابدولت چوہدری جی کے باغ سے امرود توڑنے کی ہمت کیسے کی؟ یا فلاں فلاں نے چرواہے کے دس سالہ بچے کے دونوں ہاتھ کاٹ ڈالے کیونکہ اس کے مویشی کسی کے کھیتوں میں چرنے چلے گئے تھے۔

ایسی کتنی ہی دلخراش کہانیاں ہیں کہ جسے لکھتے لکھتے صفحات سیاہ ہوجائیں لیکن مظلوموں کی ان کہانیوں کے پیچھے کون ہے۔ ہمارے ہی جیسے گوشت پوست کے بنے لوگ جن کے سینے میں طبعی طور پر توگوشت کا لوتھڑا دل دھڑکتا ہے لیکن اسے پتھر ہی سے مشابہت دیں تو مناسب ہے زیادہ عرصہ نہیں گزرا جب گھروں میں کام کرنے والی بچی طیبہ کا کیس میڈیا میں خوب اچھلا تھا، جس میں ایک جج صاحب کی اہلیہ کی خود سری شامل تھی جس نے انھیں خوب ہی خوار کرایا صرف یہی بچی نہیں بلکہ ایسے اور بھی کئی کیس ہیں جو لوگوں کے سامنے آئے اور گزر گئے اور ہم سب ایسے لوگوں کو لعن طعن کرتے رہے لیکن حقیقت تو یہ ہے کہ ایسے خود سر اور اپنے آپ کوکچھ سمجھنے والے ابھی بھی اسی زعم میں مبتلا ہیں کہ ان کے پاس ایسا کچھ ہے جوکسی دوسرے کے پاس نہیں وہ عظیم ترین لوگ ہیں ان پر جیسے سو خون معاف ہیں وہ خاص طور پر اعلیٰ ترین پیدا ہوئے ہیں ، ایسے خود سر، مغرور اور کم فہم لوگ ہمارے ہی درمیان رہتے ہیں لیکن ان میں سے اکثر کو ہم پہچان ہی نہیں پاتے۔

لاہور میں اس معصوم سولہ سالہ بچی عظمیٰ کے قتل کی داستان بڑی عجیب سی ہے جس کی ماں مرچکی تھی ،گھر والوں نے جس طرح ہمارے یہاں ہو رہا ہے غریب گھرانوں کے بچے بڑے گھروں میں کام کرتے ہیں اور گھر والے چند ہزار میں اپنے بچے بچیوں کو ان مغرور، خودسر لوگوں کے سپرد کرکے جیسے بھول ہی جاتے ہیں اور ویسے بھی انھیں ان معصوم بچوں کو یاد رکھ کر کرنا ہی کیا ہوتا ہے کیونکہ ان کے پاس تو بچوں کی بہتات ہوتی ہے۔ یہ معصوم دبلی پتلی سی عظمیٰ بھی ایک ایسے ہی گھرانے کے سپرد کردی گئی جو محض چار ہزار روپے مہینہ پر مامور تھی، دن رات کی کام کرنے والی اور چار ہزار روپے میں سودا نفع کا تھا اس بچی کو کیا کھانے کو ملتا تھا اس بات کو تو چھوڑیے لیکن جس چھوٹے سے گندے سے واش روم میں سردیوں میں اسے سلایا جاتا تھا اسے دیکھ کر روح لرز اٹھتی ہے اسے کام کرتے ابھی صرف آٹھ ماہ ہی ہوئے تھے کہ ایک صبح بچی نے ناشتے میں اپنی مالکن کی بیٹی کی پلیٹ سے قیمے کا ایک نوالہ لے لیا جسے مالکن نے دیکھ لیا اور آؤ دیکھا نہ تاؤ ہاتھ میں اسٹیل کی چائے کی ڈونگی پیچھے سے بچی کے سر پر ماری یقینا غصے میں مالکن نے اسے سنائی اور اس معصوم نے کچھ تاویل پیش کی جو مالکن کے لیے ناقابل قبول تھی لہٰذا اسی جگہ ایک اور ڈونگی ۔۔۔۔!

کئی بار ایسا ہوتا ہے کہ لفظ ساتھ چھوڑ دیتے ہیں، ظلم اور بربریت کی یہ داستان کسی ٹارچر سیل میں نہیں ،کسی ظالم تنخواہ دار سیکیورٹی کے ادارے میں نہیں جن کا کام ہی کچھ ایسا بن جاتا ہے جو کئی بار ہماری نظروں میں ظلم بن جاتا ہے جب کہ اس کام کی وہ تنخواہ لیتے ہیں اس میں لوگوں کی حفاظت کا عنصر بھی شامل ہوتا ہے بلکہ ایک عام سے گھر میں ہوئی ایک نام نہاد فنکارہ اس کی ماں اور پھوپھی اس گھناؤنے عمل میں شامل رہیں مرنے سے پہلے اس بچی کی شکل اور اس کا لرزتا وجود ہم سب کے لیے کئی سوال چھوڑ گیا۔ طیبہ کے بعد عظمیٰ بھی کیا عظمیٰ کے بعد یہ سلسلہ یوں ہی جاری رہے گا؟ کیا ہم اس نفس کی قید کے لفظ ’’میں بہت کچھ ہوں، بڑی توپ ہوں‘‘ سے نجات حاصل کرسکیں گے۔ آخر کب تک۔۔۔۔کب تک؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔