بھارتی انٹیلی جنس کی ناکامی... ملبہ پاکستان پر

سید امجد حسین بخاری  پير 18 فروری 2019
بھارتی فوج کشمیریوں پر مظالم کے نت نئے طریقے تلاش کرتی ہے، اور اپنی ناکامیوں کا ملبہ پاکستان پر ڈال دیتی ہے۔ (فوٹو: نیوز ایجنسیز)

بھارتی فوج کشمیریوں پر مظالم کے نت نئے طریقے تلاش کرتی ہے، اور اپنی ناکامیوں کا ملبہ پاکستان پر ڈال دیتی ہے۔ (فوٹو: نیوز ایجنسیز)

14 فروری 2019 کے روز، بھارتی وقت کے مطابق سوا تین بجے سینٹرل ریزرو پولیس فورس کے قافلے پر سرینگر جموں ہائی وے پر لتھی پورہ کے قریب خود کش حملہ کیا گیا۔ سیکیورٹی فورسز کا یہ قافلہ جموں سے سری نگر جارہا تھا۔ حملے کے فوری بعد بھارتی حکومت نے سارا ملبہ پاکستان پر ڈال دیا۔ بھارتی میڈیا نے تو جوانوں کی ہلاکت سے زیادہ پاکستان کو بدنام کرنے میں سارا دن ایک اودھم مچائے رکھا۔ آخری اطلاعات آنے تک اس حملے میں مارے گئے بھارتی فوجیوں کی تعداد 45 سے تجاوز کرگئی تھی۔

بھارتی سیکیورٹی فورسز پر کیا جانے والا یہ حملہ گزشتہ تیس سال کے دوران سب سے زیادہ خطرناک تھا۔ یہ حملہ مقامی نوجوان عدیل احمد ڈار نے کیا۔ وقاص کمانڈو کے نام سے مشہور 19 سالہ نوجوان کا تعلق جنوبی کشمیر کے ضلع پلوامہ کے علاقے گاندھی باغ سے تھا۔

نوجوان کے بارے میں مزید معلومات سے قبل قارئین کےلیے یہ خبر باعثِ حیرت ہوگی کہ بھارتی سیکیورٹی اداروں نے فوج، نیم فوجی دستوں اور پولیس کو اس حملے سے پہلے ہی باخبر کردیا تھا۔ سیکیورٹی اداروں کی جانب سے متنبہ کیا گیا تھا کہ کسی بھی فورس کو سفر سے پہلے تمام علاقے کو کلیئر کرنا ہوگا، کیوں کہ ان پر خود کش حملے یا بارودی سرنگ سے اٹیک کا خطرہ ہے۔ اس معاملے میں بھارتی پولیس چیف نے قومی سلامتی کمیٹی کے سامنے ناکامی کا اعتراف بھی کیا۔

بھارتی فوج جہاں کشمیریوں پر مظالم کےلیے نت نئے طریقے تلاش کرتی ہے، وہیں اپنے اداروں کی ناکامی کا ملبہ پاکستان پر ڈال دیتی ہے۔ ایک گاڑی تین سے ساڑھے تین سو کلوگرام دھماکہ خیز مواد لے کر سیکیورٹی فورسز کے 70 گاڑیوں پر مشتمل قافلے کو نشانہ بناتی ہے، قافلے میں 2500 سیکیورٹی اہلکار موجود ہیں، حملے کے بارے میں قبل از وقت اطلاع بھی دی جاتی ہے مگر حکام اس سے بچنے کےلیے اقدامات تک نہیں کرتے۔ اس میں خود ان کی اپنی ناکامی سے زیادہ کسی اور کی ذمہ داری کیا ہوسکتی ہے؟

برہان وانی کی شہادت کے بعد سے وادی میں نوجوانوں کی کثیر تعداد نے تشدد کا راستہ اختیار کیا ہے۔ بھارتی تجزیہ کاروں، سرویز اور دیگر رپورٹس کے مطابق ہر تشدد کی بنیاد بھارتی سیکیورٹی فورسز ہی نے رکھی ہے۔ عدیل احمد ڈار بھی بھارتی تشدد کا شکار رہ چکا ہے۔ پلوامہ میں مقامی اخبار سے وابستہ ایک خاتون صحافی راضیہ لون سے بات ہوئی جنہوں نے عدیل ڈار کے گھر، خاندان اور دوستوں سے گفتگو کی ہے۔

عدیل کے اہل خانہ کے مطابق وہ ایک ذمہ دار، سنجیدہ اور حساس لڑکا تھا۔ اس نے بارہویں تک تعلیم حاصل کی۔ وہ علاقے میں کپڑے کی پھیری کا کام بھی کرتا تھا۔ اہل خانہ کے مطابق تین بھائیوں میں عدیل کا دوسرا نمبر تھا۔ وہ گھر کے کام کاج میں کافی ذمہ دار تھا۔ اگر اس کی جیب میں 10روپے ہوتے تو وہ 5 روپے بچانے کی کوشش کرتا۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد اس نے بڑھئی کا کام شروع کردیا۔ 2017میں عدیل نے مقامی کارخانے میں لکڑی کے صندوق تیار کرکے 50 سے 70 ہزار روپے کی بچت کی۔

راضیہ لون کے مطابق، عدیل کے اہل خانہ نے اپنے بیٹے کو آخری بار 19 مارچ 2018 کے روز دیکھا، جب وہ اپنی سائیکل لے کر نکلا مگر واپس نہیں آیا۔ دوران گفتگو عدیل کے والد غلام حسن ڈار نے بتایا کہ وہ کبھی اس بارے میں سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ عدیل تشدد کا راستہ اختیار کرے گا۔ لیکن 2016 میں بھارتی فوج کی جانب سے اس کے ساتھ غیر انسانی سلوک نے اسے شدید متاثر کیا۔ وہ سوالوں کے جواب تلاش کرنا چاہتا تھا۔ گھر والوں کی خوشی کےلیے اپنے شب و روز صرف کرنے والا عدیل احمد ڈار آزادی کے خواب دیکھنے لگا۔

2016 میں عدیل جب اسکول سے واپس گھر کی جانب آرہا تھا، اسے اسپیشل ٹاسک فورس کے اہلکاروں نے روکا۔ انہوں نے عدیل کو اپنے سامنے سڑک پر ناک سے لکیریں لگانے کو کہا۔ اس کے بعد اہلکاروں نے عدیل سے اُن کی جیپ کے چاروں طرف سڑک پر ناک رگڑنے کا مطالبہ کیا۔ کم سن عدیل کےلیے یہ رویہ ناقابل برداشت ہوگیا۔ اسی سال برہان وانی کو شہید کردیا گیا جس کے بعد ریاست بھر میں احتجاج اور مظاہرے شروع ہوگئے۔ انہی مظاہروں کے دوران بھارتی فوج کی گولی سے اس کی ایک ٹانگ زخمی ہوگئی تھی۔ تاہم عدیل اپنی عزت نفس مجروح کرنے والے انسانیت سوز واقعے کو بھلا نہ سکا۔ دوسال تک انتقام کی آگ اس کے سینے میں جلتی رہی اور گزشتہ سال اس نے اپنے گھر کو خیرباد کہہ دیا۔

بعد ازاں سوشل میڈیا کے ذریعے عدیل کے گھر والوں کو اس کی مجاہدین میں شمولیت کی اطلاع ملی۔ عدیل کا ایک کزن بھی مجاہدین میں شامل ہوا تھا، لیکن والدین کے اصرار پر اس نے یہ راستہ ترک کردیا۔ اہل خانہ نے اس بارے میں پولیس کو اطلاع دی اور کہا کہ ہم اپنے بیٹے کو دبئی بھیجنا چاہتے ہیں۔ اس سے قبل کے توصیف احمد ڈار کا پاسپورٹ اور دیگر کاغذات تیار ہوتے۔ پولیس نے اسے پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت گرفتار کرلیا۔ وہ گزشتہ تین ماہ سے کوٹ بلاول جیل میں قید ہے۔

یہی کہانی مقبوضہ کشمیر کے ہر گھر کی ہے،جہاں نوجوانوں کی کثیر تعداد عقوبت خانوں میں قید ہے۔ مقبوضہ وادی میں موجود نوجوانوں نے اپنے اوپر ہونے والے مظالم کے خلاف تشدد کا راستہ اختیار کیا۔ کشمیری نوجوانوں سے ہونے والی گفتگو کے بعد کوئی بھی باشعور اور غیرجانبدار انسان بہ آسانی یہ فیصلہ کرسکتا ہے کہ انہیں اب کسی بیرونی طاقت، ادارے یا فرد کی ضرورت نہیں۔ وہ اپنے بل پر بھارت کے خلاف سیاسی، احتجاجی اور دیگر میدانوں میں برسر پیکار ہیں۔

بھارتی سرکار کو پاکستان پر الزام تراشی کے بجائے کشمیریوں کو ان کا بنیادی حق، یعنی ’’حق خود ارادیت‘‘ دینا ہوگا کیوں کہ اس وقت بھارت کے خلاف وہ نسل برسر پیکار ہے جس نے بارود کی بو، سرچ آپریشنز کے دوران ڈھائے جانے والے مظالم کے دوران آنکھ کھولی۔ انہی مظالم کے دوران انہوں نے شعور کی منازل طے کیں اور اب وہی کشمیری بھارت کے غاصبانہ اور ناجائز تسلط کے خلاف برسر پیکار ہیں۔

بھارت کا حالیہ پروپیگنڈہ جہاں اپنی انٹیلی جنس ناکامی سے نظریں چرانے کا بہانہ ہے، وہیں مودی سرکار کانگریس کی بڑھتی ہوئی مقبولیت سے گھبرا کر کشمیر کارڈ کا استعمال کررہی ہے۔ غیر جانبدار حلقے اس پروپیگنڈے کو بنیادی اور اہم مسائل سے توجہ ہٹانے کا ذریعہ قرار دے رہے ہیں۔ بھارتی حکومت پاکستان کو مورد الزام ٹھہرانے کے بجائے اپنی داخلی صورتحال پر توجہ دے، کیوں کہ عوام کی خوشحالی ہی سیاست کی کامیابی کی ضمانت ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

سید امجد حسین بخاری

سید امجد حسین بخاری

بلاگر میڈیا اسٹڈیز میں پی ایچ ڈی اسکالر ہیں۔ نجی ٹی وی چینل سے بطور سینئر ریسرچ آفیسر وابستہ ہیں۔ سیاسی، سماجی اور معاشرتی موضوعات پر قلم اٹھانے کی سعی کرتے ہیں۔ سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر Amjadhbokhari پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔