سالانہ امتحانات سَر پر ہیں!

افشاں شاہد  منگل 26 فروری 2019
بچوں کو آپ کی زیادہ توجہ اور پیار کی ضرورت ہے۔ فوٹو : فائل

بچوں کو آپ کی زیادہ توجہ اور پیار کی ضرورت ہے۔ فوٹو : فائل

’’ہوش کے ناخن لو سعد! اگلے ماہ تمہارے سالانہ امتحان ہیں۔ ‘‘

’’کیا کہا علی!! کرکٹ کھیلنا ہے، تمہارا دماغ ٹھکانے پر نہیں ہے شاید، اگلے ہفتے تمہارے پیپرز ہیں وہ بھی سالانہ۔‘‘

’’معذرت میں نہیں آسکتی، میرے بچوں کے سالانہ امتحان ہورہے ہیں۔‘‘

ایسے اور اس سے ملتے جلتے جملے مارچ کے مہینے میں اکثر و بیشتر ہماری سماعت سے ٹکراتے ہیں کیوں کہ اس ماہ زیادہ تر اسکولوں میں سالانہ امتحان لیے جارہے ہوتے ہیں۔ بے شک یہ بچے کے تعلیمی مستقبل کا ایک اہم اور مشکل مرحلہ ہوتا ہے، لیکن والدین، خصوصاً مائیں اس مشکل کو ایک خوف اور پریشانی بنا لیتے ہیں ۔ خواتین اس پریشانی کو نہ صرف خود پر مسلط کرلیتی ہیں بلکہ اپنے بچوں کو بھی دہری اذیت میں مبتلا کردیتی ہیں۔

ایک طرف امتحان اور دوسری جانب والدین کا بدلا ہوا اور سخت رویہ ان کے لیے مسئلہ بن جاتا ہے۔ اگر پہلے سے تیاری کی جائے تو بچے سالانہ امتحانات نہ صرف پُرسکون ہو کر دے سکتے ہیں بلکہ امتحانات میں خاطر خواہ کام یابی بھی حاصل کر سکتے ہیں۔ پہلے تو ماؤں اور طالب علموں کو یہ بات ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ اگر امتحانات میں امتیازی نمبروں سے کام یابی حاصل کرنی ہے تو کتابیں صرف امتحانات کے وقت ہی نہیں کھولی جاتیں بلکہ پورا سال پڑھائی کی جاتی ہے، تبھی شان دار نمبروں سے کام یابی کی امید کی جاسکتی ہے۔

عمومی طور پر بچے تو بچے والدین بھی سارا سال غفلت کی نیند سوئے رہتے ہیں لیکن جیسے ہی سالانہ امتحانات کی ڈیٹ شیٹ جاری ہوتی ہے، والدین بچوں سے ہر قسم کی آزادی چھین لیتے ہیں اور خود بھی ایک مشکل میں پڑ جاتے ہیں۔ کھیل کود سے متعلق سرگرمیوں پر یکایک پابندی سے بچے مزید چرچراہٹ کا شکار ہو جاتے ہیں جب کہ اکثر بچے تو پڑھائی سے ہی جی چرانے لگتے ہیں اور اس کا امتحانات میں ان کی کارکردگی پر منفی اثر پڑ سکتا ہے۔

والدین کو امتحانات کے وقت صبر و ضبط سے کام لینا چاہیے۔ بچوں کی حوصلہ شکنی کرنے کے بجائے ان کی چھوٹی سی چھوٹی خواہشات اور ضروریات پر زیادہ توجہ دینی چاہیے۔ ان کی ہر قدم پر حوصلہ افزائی کرنی چاہیے۔ اس طرح بچے دل لگا کر پڑھتے ہیں۔ بچے کی نفسیات کو سمجھنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ آج کل والدین نے بچوں کو ریس کا گھوڑا بنا دیا ہے اور چاہتے ہیں انہی کا بچہ ریس میں اول آئے۔ یہ کیسے ممکن ہے؟ ہر بچہ مختلف ذہن اور صلاحیتوں کے ساتھ دنیا میں آیا ہے۔ اس کا رجحان، اس کی صلاحیتوں کے مطابق ہی امید اور توقع کی جانی چاہیے۔ سوچیے، کس طرح ہر بچہ اول آسکتا ہے۔

بچوں کو ضرور پڑھائیں، کیوں کہ تعلیم ہی وہ زیور جس سے آراستہ نوجوان اس دنیا کو تسخیر کرسکتے ہیں، لیکن اسے اول آنے کی دوڑ میں مت شامل کریں۔ اس کا کسی دوسرے بچے سے موازنہ نہ کریں۔ اگر بچہ ایک مضمون میں شان دار نمبر لیتا ہے اور اس کے برعکس دوسرے مضمون میں اس کے صرف پاسنگ مارکس آتے تو اس کی تذلیل کرنے کے بجائے یہ بات تسلیم کرلیں کہ بچے کا ایک مضمون کی طرف رجحان اور دل چسپی زیادہ ہے اور دوسرے میں کم۔ ممکن ہے کہ آگے چل کر وہ اپنی دل چسپی کے مضمون میں ہی نمایاں کام یابی حاصل کرے۔

امتحانات کے دوران بچوں پر دباؤ ڈالنے کے بجائے انہیں خوش رکھنے کی کوشش کریں۔ اسے امتحان اور امتحانی نتائج کے خوف کا شکار نہ بننے دیں۔ سب سے پہلے بچوں کو مختصر سوالات یاد کروائے جائیں۔ پھر دیگر سوالات یاد کرنے کے لیے کہیں۔ پڑھائی کے دوران بچوں کے ساتھ تعاون کریں۔ امتحان کے دنوں میں بچوں کے سونے، کھانے پینے کے اوقات اور طریقۂ کار تبدیل کر کے ہم گویا کسی طوفان کی آمد کا اشارہ دے رہے ہوتے ہیں۔ ایسا نہ کریں۔ بچوں کو اس حوالے سے معمول پر رہنے دیں۔

امتحانی پرچہ حل کرکے لوٹنے پر بچے سے سوالات کرنا عام بات ہے۔ اگر آپ اس حوالے سے بہت سختی کرتی ہیں تو یہ غلط ہے۔ یہ کہنا بچے کو حوصلہ دے گا کہ یہ پیپر ٹھیک نہیں گیا تو کوئی بات نہیں، تم دوسرے پیپر اچھے دے کر کام یاب ہوسکتے ہو۔ اس طرح والدین کا خود پر اعتماد دیکھ کر بچہ بھی بھرپور محنت کرے گا اور ان کی امیدوں پر پورا اترنے کی ہر ممکن کوشش کرے گا۔

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔