ہندو لڑکیوں کا اغواء، موم بتی مافیا کا پروپیگنڈا اور حقیقت

تصور حسین شہزاد  جمعرات 28 مارچ 2019
غربت کی زندگی اور اونچی ذات کے ہندوؤں سے تنگ آکر ان بہنوں نے عزت کو ترجیح دی اور اسلام قبول کرلیا۔ (فوٹو: فائل)

غربت کی زندگی اور اونچی ذات کے ہندوؤں سے تنگ آکر ان بہنوں نے عزت کو ترجیح دی اور اسلام قبول کرلیا۔ (فوٹو: فائل)

ہمارے میڈیا میں اچانک شور اُٹھا کہ سندھ کے علاقے گھوٹکی سے مبینہ طور پر دو ہندو لڑکیاں اغواء ہوگئی ہیں۔ لڑکیوں کے لواحقین کی جانب سے الزام عائد کیا گیا کہ اغواء ہونے والی لڑکیوں کو زبردستی اسلام قبول کروایا جائے گا۔ اس شور پر وزیراعظم نے بھی فوری نوٹس لیا اور متعدد گرفتاریاں بھی ہوئی ہیں تاہم معاملہ عدالت پہنچ چکا ہے۔ یہ پہلا واقعہ نہیں کہ ہندو لڑکیوں کے فرار کو اغواء کا نام دیا گیا ہو۔ اِن سے قبل بھی بہت سی ہندو لڑکیاں گھروں سے بھاگ کر آئیں، اسلام قبول کیا اور مسلمان لڑکوں سے شادیاں کیں۔ اب مسلمان ہونے والی روینا نے اپنا نام آسیہ اور رینا نے شازیہ رکھ لیا ہے۔ روینا کا نکاح صفدر جبکہ رینا کا برکت سے ہو چکا ہے۔

دونوں لڑکیوں نے اپنے ایک ویڈیو پیغام میں کہا تھا کہ وہ بغیر کسی دباؤ کے مسلمان ہوئی ہیں اور انہوں نے مرضی سے شادی کی ہے۔ دونوں لڑکیاں اسلام آباد ہائیکورٹ میں پیش ہوئیں۔ دونوں بہنوں کی جانب سے دائر درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا کہ انہوں نے مرضی سے اسلام قبول کیا ہے اور اپنی پسند سے ہی شادی ہے، اب انہیں جان کا خطرہ ہے، تحفظ فراہم کیا جائے۔

یہ خبر بھی پڑھیے: اپنی مرضی سے اسلام قبول کرکے شادی کی، ہندو لڑکیوں کا اعترافی بیان سامنے آگیا

جسٹس اطہر من اللہ نے کیس کی سماعت کی جس میں دونوں نو مسلم بہنیں عدالت میں اپنے وکلاء کے ہمراہ پیش ہوئیں۔ اس دوران جسٹس صاحب نے ڈپٹی کمشنر اسلام آباد کو روسٹرم پر طلب کیا۔ فاضل جج نے ریمارکس جاری کرتے ہوئے کہا کہ یہ حساس معاملہ ہے، جس سے پاکستان کا تشخص جڑا ہے۔ نبی پاکﷺ کے فتح مکہ اور خطبہ حجۃ الوداع پر دو خطاب ہیں اور دونوں خطاب اقلیتوں سے متعلق قانون و آئین کی حیثیت رکھتے ہیں۔ چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ کا کہنا تھا کہ یہ ملک کے امیج کا معاملہ ہے، لڑکیوں کو ڈپٹی کمشنر کے حوالے کر رہے ہیں، ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج کو گارڈین مقرر کر رہے ہیں۔ عدالت عالیہ نے چیف سیکرٹری سندھ اور دیگر فریقین سے آئندہ سماعت پر رپورٹ طلب کر لی ہے۔

یہ خبر بھی پڑھیے: ہندو مذہب چھوڑ کر اسلام قبول کرنے والی دو بہنوں کی درخواست سماعت کیلئے مقرر

جسٹس اطہر من اللہ نے حکم جاری کرتے ہوئے کہا کہ لڑکیوں کو شیلٹر ہوم یا دیگر جگہوں پر رکھا جا سکتا ہے اور ایس پی لیول کی افسر بچیوں کی حفاظت کےلیے تعینات کی جائے۔ عدالت نے مزید کارروائی منگل تک ملتوی کردی ہے۔

یہ اداریہ بھی پڑھیے: ہندو لڑکیوں کا مبینہ اغوا

یہ لڑکیاں کیوں بھاگیں؟ حقائق کیا ہیں؟ اور میڈیا اسے کیوں اچھال رہا ہے؟ یہ سوالات اپنی جگہ اہم ہیں، جن کے جواب تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔

یہ خبر بھی پڑھیے: اسلام آباد ہائیکورٹ کا دونوں نومسلم لڑکیوں کوسرکاری تحویل میں دینے کا فیصلہ

ان دونوں بہنوں کا تعلق ہندوؤں کی انتہائی نچلی ذات بھگیواڑ سے ہے۔ ہندوؤں میں غربت بہت زیادہ ہے۔ دوسرا وہاں کے امیر ہندو اپنی ہی برداری کے غریب ہندوؤں کے ساتھ جو سلوک روا رکھتے ہیں وہ تشویشناک ہے۔ ہندوؤں میں کزن میرج نہیں ہوتی، اور بھاری جہیز کے بغیر بھی کوئی رشتہ نہیں لیتا۔ اس لیے غریب گھرانوں کی لڑکیاں اچھی زندگی کے خواب آنکھوں میں سجائے یہ راستہ اختیار کرتی ہیں۔ مذہب تبدیل کر کے انہیں عزت بھی مل جاتی ہے اور دولت بھی جبکہ ایک خاندان چھوڑنے کے بدلے پورے ملک میں انہیں احترام دے کر اپنوں کا پیار دیا جاتا ہے؛ جس سے ان کا اسلام کی جانب راغب ہونا ایک فطری امر ہے۔

جہاں تک یہ سوال ہے کہ صرف لڑکیاں ہی اسلام کیوں قبول کرتی ہیں، لڑکے کیوں نہیں؟ تو یہ صرف میڈیا کا پروپیگنڈا ہے۔ لڑکیوں کی نسبت لڑکے زیادہ اسلام قبول کرتے ہیں اور بعض اوقات تو خاندان کے خاندان اسلام قبول کر لیتے ہیں۔ مگر ہمارا میڈیا انہیں نمایاں نہیں کرتا، کیوں کہ میڈیا میں این جی اوز کا اثر و رسوخ بھی ہے اور این جی اوز کو ایک مخصوص ایجنڈے کے تحت ہی ایسے ایشوز اٹھانے ہوتے ہیں۔

یہ خبر بھی پڑھیے: ہندو لڑکیوں کو زبردستی مسلمان کرنا ثابت ہو تو سزا بھگتنے کیلئے تیار ہوں، میاں اسلم

پاکستان میں کسی مسلمان لڑکی کے ساتھ جو ظلم مرضی ہوجائے، میڈیا اسے کوئی اہمیت نہیں دیتا، حتیٰ ایک لائن کی خبر بھی نہیں لگائی جاتی جبکہ کسی ہندو، عیسائی یا قادیانی لڑکی کی بات آجائے تو زمین و آسمان کے قلابے ملادیئے جاتے ہیں اور ایسا پروپیگنڈا کیا جاتا ہے کہ پوری دنیا میں پاکستان کو بدنام کرکے رکھ دیا جاتا ہے۔

یہ سوال کہ لڑکیاں کیوں بھاگیں؟ ظاہر ہے غربت کی زندگی میں پس رہی تھیں اور، مقامی صحافیوں کے بقول، اونچی ذات کے ہندو انہیں تنگ بھی کرتے تھے، مگر ان بہنوں نے وہاں رُسوا ہونے کے بجائے عزت کی زندگی کو ترجیح دی اور اسلام قبول کرلیا۔

اب این جی اوز مافیا، جسے عرف عام میں ’’موم بتی مافیا‘‘ بھی کہتے ہیں، شور مچا رہا ہے۔ انہوں نے عدالت کے فیصلے کا بھی انتظار نہیں کیا۔ لڑکیوں کا مؤقف بھی نہیں سنا اور ایک دم ہماری معاشرتی و اسلامی اقدار پر یک طرفہ حملہ کر دیا کہ ظلم ہوگیا! لڑکیوں کو جبری مذہب تبدیل کروا لیا گیا وغیرہ۔ ریاست کو اس حوالے سے اس موم بتی مافیا کے ہاتھوں بلیک میل ہونے کے بجائے یہ دیکھنا چاہیے کہ حقائق کیا ہیں۔

حقائق کی روشنی میں فیصلے کرنا عدالت کا کام ہے، این جی اوز مافیا کا نہیں۔ لہذا انہیں لگام دی جانی چاہیے۔ این جی اوز کے حکام کو سوچنا چاہیے کہ وہ بلاوجہ اور بغیر کسی ٹھوس ثبوت کے پاکستان اور اسلام کو بدنام کر رہے ہیں۔ پہلے لڑکیوں کا مؤقف سن لیتے۔

راقم گزشتہ 20 سال سے صحافت سے وابستہ ہے۔ پاکستان میں کسی بھی جگہ پر جبری مذہب تبدیلی کا کوئی معاملہ نہیں ہوتا۔ یہ محض این جی اوز کا پروپیگنڈا ہے۔ وہ کوئی ایک مثال بھی پیش کرنے سے قاصر ہیں جنہیں جبری مذہب تبدیل کرنے کےلیے کہا گیا ہو۔

راقم کے حلقہ احباب میں بھی سکھ، ہندو، عیسائی اور قادیانی ہیں، مگر آج تک کسی ایک نے بھی یہ شکایت نہیں کی کہ اسے مذہب کی تبدیلی کےلیے مجبور کیا جا رہا ہے۔ بلکہ مسلمان دیگر مذاہب کے لوگوں کو اپنے مسلمان بھائیوں کی نسبت زیادہ احترام دیتے ہیں۔ این جی اوز کے اس ’’کارِ خیر‘‘ میں ہمارا انگریزی میڈیا پیش پیش ہے۔ انگریزی میڈیا بھی ٹٹول ٹٹول کر ڈھونڈ رہا ہوتا ہے کہ کوئی خبر ایسی ملے جس میں قادیانیوں، ہندوؤں یا عیسائیوں کو ہراساں کیا گیا ہے۔ وہ خوب مرچ مصالحہ لگا کر اسے شائع کرتے ہیں جبکہ اردو میڈیا کا کردار اس حوالے سے کسی حد تک اطمینان بخش اور ذمہ دارانہ ہے۔

راقم کے خیال میں حکومت کو اس حوالے سے واضح پالیسی بنانی چاہیے جس میں وطن کی حرمت اور امیج کو خراب کرنے والوں کا بھی محاسبہ کیا جا سکے۔ ملک دشمنوں کے ہاتھوں میں کھیلنے والے ایسے ایک دو ہی دبوچ لیے گئے تو باقیوں کو ویسے ہی ’’سکون‘‘ ہوجائے گا، کیوں کہ سب سے پہلے وطن کی ساکھ اہم ہوتی ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تصور حسین شہزاد

تصور حسین شہزاد

بلاگر پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے اردو کرچکے ہیں۔ آج کل لاہور کے ایک مقامی ٹی وی چینل سے وابستہ ہیں اور متواتر بلاگ لکھتے رہتے ہیں۔ ان سے ای میل ایڈریس [email protected] پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔