گر تُو برا نہ مانے

شہلا اعجاز  جمعـء 29 مارچ 2019

ابھی زیادہ دن نہیں گزرے کہ ایک خبر پر نگاہ پڑی جس میں لکھا تھا کہ اب سرکاری اعلیٰ عہدوں پر میرٹ دیکھ کر تعیناتی کی جائے گی۔

خبر تو اچھی ہے خدا کرے عمل کرتے ہوئے میرٹ کو ہی پرکھا جائے کیونکہ ایک طویل عرصے تک ہمارے ملک میں سرکاری اور نجی اداروں میں بھی اعلیٰ عہدوں پر تعیناتی رشتے داریوں، قرابت داری اور سیاسی لحاظ سے ہوتی رہی ہے اور اس کا نقصان مجموعی طور پر نہ صرف اس ادارے کو بلکہ ملک کی ترقی کو بھی پہنچا ہے، شاید یہی وجہ ہے پاکستان سے باہر ہماری شہرت بہت سے حوالوں سے ایسی ہے کہ لوگ کرپشن کے حوالوں سے ہمارے اندرگھس کر ایسی کارروائیاں کر جاتے ہیں کہ جس پر بعد میں سوائے پچھتاؤے کے کچھ ہاتھ نہیں آتا۔

پردیس سے آنے والے یہاں دہشتگردی، منشیات اور دیگر بڑے جرائم کے حوالے سے کھلی منڈی سمجھ کر اپنے کالے دھندوں کو چمکانے کی کوشش کرتے ہیں، ان کی سوچ کے مطابق یہاں بڑی آسانی سے دو نمبرکام کرکے وہ نکل سکتے ہیں۔

تعلیم ایک ایسا شعبہ ہے جو قوم کے لیے ایک مینارکی حیثیت رکھتا ہے، جس کی روشنی پوری قوم کو یکسو کرنے میں اپنا کردار ادا کرتی ہے جس سے قومی یکجہتی بھی روشن دکھائی دیتی ہے، پڑھی لکھی قوم شعور اور ذمے داری سے آگے بڑھنے کی کوشش کرتی ہے لیکن اگر اس شعبے میں نقص پیدا ہو جائے اور دورکرنے کی کوشش نہیں کی جائے تو اس قوم کی بربادی کا دور شروع ہوجاتا ہے.

بد قسمتی سے ہمارے ملک میں ایسا ہی ہوا ہے کہ تعلیم کے شعبے کو ایک صنعت کا درجہ مل گیا ہے جس کا تعلق نفع نقصان سے جڑگیا ہے آج بڑے بڑے تعلیمی ادارے نقصان اور نفع کی بنیاد پر چلائے جا رہے ہیں۔ ان کی فرنچائز فروخت ہوتی ہیں ۔ یہ ایک دھندے کی شکل اختیارکرچکا ہے اور یہی وجہ ہے کہ ہمارے یہاں بڑے بڑے اداروں میں اونچی پوسٹوں پرکام کرنے والے حضرات جن کے پاس بڑی بڑی تعلیمی درسگاہوں کی ڈگریاں ہوتی ہیں لیکن جب آپ ان کا ٹیسٹ لینے بیٹھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ نام بڑے تو ہیں پر درشن بہت چھوٹے۔

سوال اٹھتے ہیں کہ سرکاری تعلیمی اداروں میں پڑھنے والے طالب علموں کی کارکردگی کیسی ہے تو اس کے ساتھ یہ سوال بھی ضروری ہے کہ ان اداروں میں پڑھانے والوں کی قابلیت کیسی ہے؟ اگر ہم خیبر پختونخوا کی جانب دیکھیں تو وہاں پچھلے برس سرکاری اسکولوں میں چھپن ہزار بچے فیل ہوئے تھے یہ تعداد خاصی بڑی ہے لیکن اس کی وجہ کیا ہے؟ ہم سب جانتے بھی ہیں لیکن اہلیت، ذمے داری اورخلوص سے جس بے پروائی سے برتا جا رہا ہے۔اس میں تمام صوبے ایک ہی جیسی روش پر چل رہے ہیں، البتہ پنجاب اس سلسلے میں ذرا بہتر ہے۔

ہماری حکومتوں نے بڑی بڑی جمپ لگا کر تبدیلیاں کی تھیں مثلاً پہلی بار 1972ء کی پالیسی میں پرائیویٹ تعلیمی اداروں کو سرکاری تحویل میں لیا گیا تھا، اس طرح بہت سے وہ اساتذہ جوکسی بھی ڈگری کے مطابق نجی اداروں سے تنخواہ لے رہے تھے۔ سرکارکی چھت میں آکر سرکار کے تعلیمی بجٹ کا حصہ بن گئے وہیں ان اداروں کی صورتحال رفتہ رفتہ مخدوش ہوتی گئی، یقینا یہ اقدام اس وقت حکومت کے لیے سستی اور مفت تعلیم مہیا کرنے کے لیے بہت مشکل اورکٹھن تھا لیکن بعد میں یہ ادارے بوجھ بنتے گئے ، اسی دورکے بقایا جات کے کئی اداروں کی کہانیاں اب بھی ہم اخبارات میں پڑھتے رہتے ہیں جن پر قبضہ مافیا نگاہیں گاڑھے ہیں ۔

1979ء میں پھر سے تعلیمی پالیسی نے کروٹ لی نجی تعلیمی اداروں کے قیام پر زور دیا گیا، اس کے ساتھ ہی پہلے سے تحویل میں لیے گئے ادارے مالکان کو واپس کرنے کا اعلان بھی کیا گیا لیکن اب بھی بہت سے تعلیمی ادارے انھی پیچیدگیوں میں الجھے ہیں جہاں تعلیم حاصل کرنے والے بچے پریشانیوں کا شکار ہیں ۔

بات شروع ہوئی تھی اعلیٰ عہدوں پر میرٹ کی بنیاد پر بھرتی کی جائے گی، ایسے عہدے چاہے کسی بھی ادارے کے ہوں اگر واقعی میرٹ کی بنیاد پر بھرتی کیے ہوئے افراد کی مدد سے چلنے لگے تو ہمارے ملک کی ترقی کا گراف ضرور بڑھ جائے گا، ویسے بھی اہلیت کی قدر ہر ملک میں کی جاتی ہے۔

ہمارے یہاں ہر سال لوگ ڈگریاں لے کر نکلتے ہیں اور کیونکہ انگلینڈ میں دنیا کی بڑی بڑی مستند یونیورسٹیز ہیں لہٰذا ایسے افراد کی بڑی اہمیت بھی ہوتی ہے لیکن بات دراصل یہ ہے کہ انگلینڈ اس لحاظ سے اتنا بڑا ملک نہیں ہے کہ ان سب لوگوں کو نوکری فراہم کرسکے لہٰذا یہ لوگ باہر کے ملکوں کا رخ کرتے ہیں۔ اب دیکھیے نا، پاکستان سے اتنے پڑھے لکھے قابل لوگ انگلینڈ جاتے ہیں کمانے کے لیے جب کہ وہاں کے لوگ اپنے ملک کو چھوڑ کر دوسرے ممالک جاتے ہیں کیونکہ انھیں انگلینڈ کے مقابلے میں باہر زیادہ پیسے ملتے ہیں تو ظاہر ہے کہ جہاں انھیں زیادہ پیسے ملیں گے وہ وہیں جانا پسند کریں گے۔

کیا وہاں ایسا نہیں ہوتا کہ تعلیم یافتہ لوگ اپنے ملک کے لیے خدمات انجام دینے کو ترجیح دیتے ہیں؟

ایسا پاکستان میں ہوتا ہے لیکن شاید جب سے حالات خراب ہوئے تھے جیسے کوٹہ سسٹم وغیرہ کی وجہ سے بھی تو یہاں سے لوگ مجبوراً چلے جاتے ہیں لیکن میں نے ایسا نہیں دیکھا کہ وہاں لوگ اس طرح سوچتے ہوں شاید یہاں جذبہ حب الوطنی زیادہ ہے ورنہ جہاں پیسہ زیادہ ملتا ہے ڈیمانڈ ہوتی ہے تو لوگ انگلینڈ سے موو move کر جاتے ہیں، یہاں بھی ایک فارن کی ڈگری رکھنے والے کی ڈیمانڈ زیادہ ہوتی ہے چاہے وہ کام اسی طرح سے کرے جیسے ایک پاکستانی ڈگری رکھنے والا شخص۔

ان کی ساری عمر انگلینڈ میں گزری تھی حال ہی میں وہ پاکستان آئے ہوئے تھے انھیں پاکستان کی سڑکوں کے شور اور بے ہنگم دوڑتے بھاگتے ٹریک نے ڈپریشن میں مبتلا کردیا تھا وہ ایک پڑھے لکھے انسان ہیں ان کی ڈگریاں پاکستانی ہیں لیکن تجربہ انگلینڈ کا ہے۔ ان کا تجربہ یہ بھی بتا رہا تھا کہ ہم پاکستانی بہت جلد مرعوب ہوجاتے ہیں، بڑے بڑے اونچے ناموں بڑی بڑی اعلیٰ ڈگریوں سے لیکن جب ہم پاکستان سے باہر جاتے ہیں تو ہماری ساری قلعی اتر جاتی ہے کیونکہ باہر ہمارا کام دیکھا جا تا ہے، رشتے داری، اثر ورسوخ، اقربا پروری کام نہیں آتی کیونکہ یہ کام بہت پہلے (خاص کرگورے) ہمیں سکھا کر جاچکے ہیں ہماری صحبت میں نہیں۔ اپنی ضرورت کے تحت تو بھلا اب وہ ایک برے اور سکھائے ہوئے سبق کو کیوں پڑھنے کی کوشش کریں

جب کہ ہمارے یہاں تو یہ حال ہے کہ:

پاتے نہیں گر راہ تو چڑھ جاتے ہیں نالے

رکتی ہے سفارش تو یہ ہوتی ہے رواں اور

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔